ررمضان المبارک اور روزہ کی فضیلت
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اس بات کی گواہی کوئی معبود (برحق) نہیں ہے اور محمد ؐ اس کے رسول ہیں اور نمازقائم کرنا اور زکوٰۃ دینا ، حج بیت اللہ کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا(بخاری ح/ ۸)
روزہ اسلام کے ارکان خمسہ میں سے ایک اہم رکن ہے جس کے بجا لانے کا اہل اسلام کو حکم دیا گیا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے (سورۃ بقرہ۳۸۱) ترجمہ’’ اے ایمان والو تم پر روزے لکھ دیئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلی امتوں پر لکھے گئے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو‘‘۔ دوسرے مقام پر (سورہ بقرہ ۵۸۱) ترجمہ ’’تم میں جو رمضان المبارک کے مہینے کو پا لے تو اس کے روزے رکھنے چاہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اپنی مقدس کتاب قرآن مجید کو نازل کرنے کے لیے اس مبارک ماہ کا انتخاب کیا ہے اس لیے قرآن مجید کا رمضان المبارک سے گہرا تعلق ہے۔ روزے کی فرضیت کی ابتداء سن دو ہجری میں ہوئی (سبل السلام)اور رسول اللہ ؐ نے رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد نو دفعہ اس مبارک مہینے کے روزے رکھے۔ رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے بہت خصائل و فضال کی وجہ سے دوسرے مہینوں کے مقابلے میں ایک ممتاز مقام عطا کیا ہے۔ اس کے آغاز سے ہی جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں گمراہ کن شیاطین اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ لوگ نیکی و خیرات ، تلاوت قرآن مجید، ذکر باری تعالیٰ اور دیگر نیک اعمال میں بکثرت حصہ لیتے ہیں۔ اس ماہ مبارک کی آمد پر مساجد کی رونق اس قدر دوبالا ہو جاتی ہیں کہ باقی ایام میں اتنی رونق دکھائی نہیں دیتی۔ اس مہینے میں عبادت گزار مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے اور نیکی کا اجر دس گناہ سے لے کر سات سو گناہ تک بڑھا دیا جاتا ہے۔ اس مہینے میں لیلتہ القدر وہ عظیم رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر عبادت کے اجرو و ثواب کو متضمن ہے۔ غرض جتنے فضائل اس ماہ کو حاصل ہیں وہ کسی اور کو حاصل نہیں پھر بھی اس شخص سے بڑا بد نصیب کون ہو گا جو اس ماہ مبارک کے انوار و تجلیات سے بہرہ مند نہیں ہوتا اور نیکیوں کے اس موسم بہار میں بھی اس کے فکر و نظر اور عقیدہ و عمل کی ویرانی نہیں جاتی ۔
رمضان المبارک کے روزے ہر مسلمان ، مکلف، بالغ، عاقل مرد و زن پر سال میں ایک مرتبہ فرض ہیں جبکہ اس کے علاوہ نفلی روزے رکھنا بھی مسنون ہے ۔کافر پر روزے نہیں اور نہ ہی اس سے قبول ہوں گے یہاں تک کہ وہ اسلام قبول کر لے۔ جبکہ بچوں پر بھی روزے فرض نہیں جب تک کہ وہ بالغ نہ ہو جائیں ہاں اگر وہ بغیر کسی مشقت و تکلیف کے اس کی طاقت رکھتے ہوں تو ان کو روزے رکھوائے جا سکتے ہیں تاکہ وہ اس کے عادی ہو جائیں۔ایسا مریض جسے شفایاب ہونے کی امید ہو اور مسافر و حائضہ اور نفاس والی عورت کو قضا کے ساتھ روزہ رکھنے کی رخصت ہے۔ جبکہ بڑھا مرد اور بوڑھی عورت جوروزہ کی استطاعت نہ رکھتے ہوں وہ ہر دن کے عوض ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں۔
جس کسی نے روزے دار کاروزہ کھلوایا تو اس کو بھی روزے دار کی مثل اجر ملے گا بغیر اس کے کہ اللہ روزہ دار کے اجر میں کوئی کمی کرے اس لیے تمام اہل اسلام کو چاہیے کہ اجمتاعی سحریوں اور افطاریوں کا اہتمام کیا جائے تاکہ وہ لوگ جنہیں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں سحری و افطاری کیلئے کھانے پینے کی اشیاء میسر نہیں ہوتی وہ اس سے مستفید ہو سکیں اور روزہ دکھلوانے والے کا اس کا اجر و ثواب ملے سکے۔ آج کل افطار پارٹیاں اجر و ثواب کے حصول کی بجائے کھانے پینے اور فیشن کی نمائش کا ذریعہ بن گئی ہیں۔ افطار پارٹیوں میں طلب سے زیادہ کھانے سے نظام ہضم خراب ہونے کے ساتھ سستی پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے تراویح کا اہتمام مشکل ہو جاتا ہے جبکہ کچھ لوگ رمضان المبارک کو کھانے پینے کا مہینہ سمجھتے ہیں حالانکہ ایساکرنا وقت کا ضیاع، عبادات اور رمضان المبارک کے حقیقی مقصد سے محروم ہونا ہے اور اس کے علاوہ پیٹ اور معدے کی خرابی کا بھی باعث ہے۔ انسان سارا دن خالی پیٹ رہ کر افطاری کے وقت ڈھیر ساری چیزیں کھاتا ہے تو اس کا نظام ہضم خراب ہو جاتا ہے وہ مختلف بیماریوں میں گھر جاتا ہے لہذا ہمیں رمضان المبارک میں ہلکا پھلکا کھانا کھانا چاہیے تاکہ طبیعت نارمل رہے اور اللہ تعالیٰ کی عبادات میں لذت حاصل ہو۔
رسول اللہ ؐ نے فرمایا کہ سحری کھاو کیونکہ سحری کھانے میں برکت ہے۔سحری ضروری کرنی چاہیے تو اگرچہ پانی کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ میسر ہو۔ جبکہ روزہ جلد افطار کرنا اور سحری میں تاخیر کرنا مستحب ہے ۔ روزہ دار کو سورج غروب ہوتے ہی افطاری کر لینی چاہیے۔ کسی قسم کے شک و شبہ میں نہیں پڑنا چاہیے ۔رسول اللہ ؐ تازہ کجھوروں سے افطاری کرتے اگر تازہ میسر نہ ہوتی تو خشک کجھوریں (چھوہاری) سے روزہ افطاری کرتے اور اگر خشک بھی میسرنہ ہوتی تو پانی کے چند گھونٹ بھر لیتی۔ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے پاکیزہ ہے یہ بو معدہ کی خوراک سے خالی ہونے کے وقت پیدا ہوئی ہے یہ بو خالق حقیقی کے ہاں بہت محبوب ہے۔
رمضان المبارک کے روزے افضل ترین عبادت الہیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمام سابقہ امتوں پر بھی اس کے روزے فرض قرار دیئے جس کا مقصد ان کو متقی بنانا تھا اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کے جملہ احکامات پر عمل پیرا ہو اور جن کاموں سے اسے منع کیا گیا ہے ان سے رک جائے۔ روزہ دار کو چاہیے کہ وہ تمام امور زندگی میں دین اسلام کو پیش نظر رکھے اور اللہ اور اس کے رسولؐ کی مخالفت سے رکے، قول و عمل میں جھوٹ، غیبت، چغل خوری، گالی گلوچ، لوگوں پر زیادتی، خیانت، دھوکا بازی، ناجائز طریقہ سے مال جمع کرنا فہم و بصیرت کے ہوتے ہوئے قول و عمل میں جہالت سے کام لینا و غیرہ سے اجتناب کرے وگرنہ اللہ کو روزہ دار کے بھوکے پیاسے رہنے سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔ رسول اللہؐ نے ارشاد فرمایا’’ جو شخص قول و عمل میں جھوٹ، جہالت کے کام نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کے کھانا پینا چھوڑنے سے کوئی سروکار نہیں ہے۔(بخاری ح/ ۷۵۰۲)
اس لیے ہمیں چاہیں روزہ کی افادیت کو سمجھتے ہوئے زیادہ سے زیادہ تلاوت قرآن پاک اور پنچگانہ نماز ادا کریں اور اسے کام جن سے منع فرمایا گیا ہے ان سے بچیں