کالمز

محکمہ پولیس ،نظام انصاف کی پہلی سیڑھی

تحریر : اسرارالدین اسرار

وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے گزشتہ دنوں پولیس ٹریننگ سکول گلگت میں منعقدہ ایک تقریب سے اپنے خطاب میں کہا ہے کہ وہ گلگت بلتستان کی پولیس کو جدید خطوط پر استوار کریں گے اور پولیس کو تمام تر وسائل فراہم کئے جائیں گے تاکہ اس کی کار کردگی بہتر ہوسکے۔

israrہمیں یاد ہے کہ ایک سابق آئی جی سر مد سعید کے دور میں گلگت بلتستان پولیس کو بڑے پیمانے پر جدید آلات سے نوازا گیا تھا اور بعد ازاں پی پی پی کی حکومت نے پولیس کی نہ صرف تعداد بڑھائی بلکہ پولیس فورس کی تنخواہیں بھی دگنی کر دی تھی ۔ مذکورہ اقدامات کے بعد توقع یہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ گلگت بلتستان کی پولیس جو کہ ملک بھر میں مہذب سمجھی جاتی ہے کی کار کردگی میں بہت بہتری آئے گی۔ مگر آج صورتحال اس کے بر عکس ہے۔ تھانوں کا ماحول تیزی سے خرابی کی طرف گامزن ہے اور پولیس فورس میں ذاتی طور پر جو لوگ ایماندار ہیں وہ خود اس صورتحال سے تنگ آچکے ہیں۔ مجموعی طور پر جہاں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوا ہے ا ور وارداتوں کے طریقہ کار میں تبدیلی آئی ہے وہاں اس حساب سے پولیس کی نہ تو اخلاقی طور پر تر بیت ہوئی ہے اور نہ ہی پیشہ ورانہ مہارتوں کو بڑھایا گیاہے۔ جس کی وجہ سے ملزمان کی پشت پناہی ، اقرباء پروری، سفارش اور رشوت جیسی خصلتیں پنپ رہی ہیں۔

تھانوں کا ماحول انسان دوستی کی بجائے جرائم دوست بنتا جارہا ہے۔ تھانوں میں تعینات لوگ کسی کی طرفداری کرنے پہ آجائیں تو اس میں بھی انتہا ء تک پہنچ جاتے ہیں اور کسی کی مخالفت کریں تو بھی حدوں کو عبور کرنے میں دیر نہیں لگاتے ہیں۔ تھانوں میں انصاف ، میرٹ ،مظلوم دوستی ، تہذیب، اخلاق اور قانون کی بالادستی تیزی سے مفقود ہوتی جارہی ہیں۔مظلوم اور شریف لوگ تھانوں کے قریب سے گزرتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ مجھے لاہور ہائی کورٹ کے ایک فاضل جج کے تقریبا دس سال قبل پنجاب پولیس کے بارے میں دےئے گئے و ہ مشہور ریمارکس یاد آرہے ہیں جن میں انہوں نے کہا تھا کہ ” اگر محکمہ پولیس کو ختم کیا جائے تو معاشرے سے ستر فیصد جرائم خود بخود ختم ہوسکتے ہیں”۔

محکمہ پولیس بنیادی طور پر کسی بھی ریاست کا سول فورس کا وہ ادارہ ہوتا ہے جس کا کام امن و امان کا قیام، جرائم کی نشاندہی اور ان کی روک تھام سمیت قانون پر عملداری ہے۔ دنیا نے تحقیق و تجربات کے بعد اس ادارے کو معاشرے کے لئے انتہاہی کارآمد بنایا ہے مگر ہمارے ہاں پولیس کو صدیوں پرانا نظام رائج ہے جس کی وجہ سے اس ادارے کو عوام اب کوئی مفید ادارہ نہیں سمجھتے ہیں۔ 

اس تمام صورتحال میں محکمہ پولیس اپنے بنیادی مقصد کو کھو رہاہے ۔ محکمہ پولیس انصاف کی فراہمی کی پہلی سیڑھی ہے ۔ تھانوں کو مظلوم شہریوں کی پناہ گاہیں ہونی چاہیے۔جہاں داخل ہونے والا شخص خود کو محفوظ سمجھے۔ اکثر مواقعوں پر دیکھا گیا ہے کہ مظلوم خود پولیس گردی کا شکار ہو جاتا ہے۔ کیونکہ مظلوم ہوتا ہی بے سہارا ہے اس لئے اس کو دبوچنا آسان ہو جاتا ہے جبکہ ظالم اور سفاک لوگو ں کی پشت پر سفید پوش بدمعاش چھپے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ اپنے مسائل لیکر تھانوں میں جانے سے کتراتے ہیں اور وہ اکثر قانون ہاتھ میں لیتے ہیں اور معاشرے کے اندر کئی قتل اور تشدد کے واقعات اسی کا نتیجہ ہیں۔

پولیس نہ صرف اخلاقی انحطاط کی طرف گامزن ہے بلکہ ملزمان کی گرفتاری کے لئے در کارجدید ٹیکنالوجی سے بھی استفادہ کرنے میں ناکام ہے۔ اگر ملزمان گرفتار ہو جائیں تو ان سے تفتیش کا طریقہ کار اتنا فرسودہ اور گھسا پٹا ہے کہ اس میں تشدد کے علاوہ کوئی جدید طریقہ ہماری پولیس کے ہاں رائج ہی نہیں ہے۔ حالانکہ دنیا بھر میں تفتیش کے جدید طریقے رائج ہیں ۔دنیا میں پولیس تشدد از خود ایک جرم سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے کئی لوگوں کی زندگیا ں چلی جاتی ہیں مگر پولیس کے ہاتھ کوئی ثبوت نہیں آتا ہے۔ ہماری پولیس دنیا میں رائج اس اصول سے بے خبر ہے کہ جب تک کسی شخص پر جرم ثابت نہیں ہوتا ہے ان کو بے گناہ سمجھا جاناچاہئے اور ان کے ساتھ انسانیت پر مبنی سلوک ہونا چاہئے۔مگر ہمارے ہاں چوک چوراہوں پر یا کسی ملزم کی گرفتاری کے وقت اکثر پولیس اپنی طاقت دیکھاتی رہتی ہے اور کئی بے گناہ لوگ پولیس تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں وقت گزرنے کے ساتھ پولیس تشدد کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔

ملزمان کو پکڑنے اور تفتیش کے بعد اگلا مرحلہ پراسکیوشن کا آتا ہے جو کہ انتہائی روایتی انداز سے چلایا جارہا ہے۔ اس محکمہ کے اندر نہ تو وسائل پورے ہیں اور نہ افرادی قوت جس کی وجہ سے یہ صرف وقت گزری کے علاوہ کچھ نہیں کر پاتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملزمان اکثر عدالتوں سے بری ہوجاتے ہیں۔

ایسے میں ہمیں خدیشہ ہے کہ فوجی عدالتوں کے قیام کے بعد کل کلاں لوگ محکمہ پولیس بھی فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرنا شروع کریں گے کیوں کہ اب اس ملک میں سیلاب سے لیکر کے انصاف کی فراہمی اور انتخابات کے انعقاد تک کے لئے صرف ایک ہی ادارے پہ لوگ بھروسہ کرتے ہیں وہ ہ پاکستان آرمی ہے۔

ان حالات میں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کا پولیس کو بہترین فورس بنانے کا اعلان لائق تحسین ہے اور اب یہ صرف اعلان تک محدود نہیں ہونا چاہئے۔ اس حوالے سے فوری طور پر کام شروع ہونا چاہئے۔ کیونکہ انصاف کی پہلی سیڑھی میں پڑی ہوئی دراڑ سے معاشرہ مایوسی اور ناامیدی کی طرف جاسکتاہے ۔کیونکہ اس وقت بھی پانی سر سے نہیں گزرا ہے ۔ ہماری پولیس فورس میں اب بھی بہت ہی اعلیٰ کارکردگی کے حامل جوان اور آفیسر موجود ہیں جو دن رات عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔مگر بحثیت ادارہ اس میں کئی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ اس فورس کو جدید خطوط پر استوار کیا جاسکے۔ پولیس فورس میں اصلاحات مندرجہ ذیل خطوط پر کئے جاسکتے ہیں۔

صوبہ خیبر پختون خوا ہ طرز پر یہاں ماڈل پولیس سٹیشن قائم کئے جانے چاہئیں جہاں جدید عمارت کے اندر جدید نظام نصب کیا جائے اور اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ساتھ بہترین پیشہ ورارنہ تربیت کے حامل عملہ چوبیس گھنٹہ عوام کی خدمت سے سر شار وہاں موجود ہو۔ 

تھانوں میں کمپوٹرائزڈ نظام رائج کیا جائے اور وہ سینٹرل پولیس آفس میں قائم مین سرور کے ساتھ نیٹ ورکنگ کے تحت جڑا ہو تا کہ تھانوں کی ہر خبر سے سی پی او باخبر ہو۔ 

کرپشن، سفارش، رشوت، اقرباء پروری اور اختیارات کا غلط استعمال جیسی خصلتیوں کے روک تھام کے لئے میکنزم بنایا جائے۔ 

ہر تھانے کے اندر قانون سے واقف عملہ بھی موجود ہو جو کسی مظلوم کے مقدمے کو قانونی کمزوریوں سے پاک کرکے اس کو ایک مضبوط کیس بنا سکے اور ظالم کوسزا دلانے میں مدد گار ثابت ہو سکے اور وہ دیگر عملے کی قانونی امور میں رہنمائی بھی کرے۔

ہر تھانے میں عوام کی شکایات کا ازالہ ، ایف آئی آر کا اندراج، ملزمان کی گرفتاری اور تفتیش کا سیکشن الگ الگ ہو۔

تھانے کے عملے کی ڈیوٹی تھا نے کے علاوہ کہیں اور نہ لگے۔ دیگر امور کی انجام دہی کے لئے ریزرو پولیس کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔

تھانے میں تمام تر سہولیات مہیا کئے جائیں تاکہ پولیس کو وسائل اور سہولیات کی کے باعث فرائض کی انجام دہی میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

تھانوں کے اندر انٹیلیجنس کا نظام قائم کیا جائے تاکہ غلط کاموں میں ملوث پالیس اہلکاروں کا محاسبہ ہو سکے اور تھانے کی پل پل کی خبر اعلیٰ آفسران تک بر وقت پہنچ سکے۔

ملزمان تک رسائی کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کے لئے پولیس کو تر بیت دی جائے اور ان کو وہ الات فراہم کئے جائیں جن کی مدد سے وہ ملزمان تک آسانی سے پہنچ سکیں۔

تفتیش کے جدید طریقہ کار سے واقفیت کے لئے ہر تھانے سے ایک ایک پولیس اہلکار کو بیرون ملک مخصوص مدت کے تربیتی کورس کرائے جائیں۔تا کہ تفتیش کے روایتی طریقہ کار اور تشدد کے رجحان پر قابو پایا جا سکے یا پھر کسی بیرون ملک ماہر کی خدمات حاصل کر کے اس تر بیت کا یہی پر ہی اہتمام کیا جائے۔ 

جلسہ ،جلوس اور ملزمان کی گرفتاری کے وقت پولیس کو تشدد سے گریز کرنے اور ملزمان کے ساتھ انسانیت پر مبنی سلوک کی تربیت ہونی چاہئے جب تک کہ کوئی ملزم گرفتاری کے وقت مذحمت نہ کرے ۔

پراسکیویشن کے محکمہ کو درکار وسائل، افرادی قوت اور خصوصی تربیت دی جائے تاکہ اس کی کار کردگی کو بہتر کیا جاسکے۔

اچھی شہرت اور کار کردگی کے حامل پولیس اہلکاروں کی وقتا فوقتا حوصلہ افزائی کی جائے اور بری شہرت ،ناقص کار کردگی اور غلط کاموں میں ملوث پولیس اہلکاروں کو سخت سے سخت سزا دی جائے تاکہ محکمہ پولیس کو کالی بھیڑیوں سے صاف کیا جا سکے۔ 

مجموعی طور پر پولیس کو انسان دوستی، مظلوم دوستی اور اچھے برے میں تمیز کی تربیت دی جائے اور پولیس فورس کی اخلاقی تربیت ان خطوط پر کی جائے کہ عوام پولیس پر اعتماد کرے اور پولیس کو دیکھ کر عورت ہو یا مرد ان کو تحفظ کا احساس اور سکون محسوس ہو اور عوام پولیس سے مدد لینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہ کریں۔ پولیس کو انسانی حقوق اور ملزمان سے پیش آنے کے لئے رائج بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کی خصوصی تربیت دی جائے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button