کالمز

 گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی عبوری صوبہ بنانے کا معاملہ عملاًختم!!

عبدالجبارناصر
ajnasir1@gmail.com

گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی عبوری صوبہ بنانے کا معاملہ عملاً ختم ہوچکاہے ۔اس ضمن میں سرتاج عزیز کی سربراہی میں جس کمیٹی کی بازگشت تھی وہ قائم ہی نہیں ہوئی ہے ،جس کی تصدیق دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے 22اگست کواپنے بیان میں بھی کی ہے۔لیگی ذرائع کے مطابق مقتدرادارو ںنے بھی وزیر اعظم میاں محمدنوازشریف پر واضح کردیاہے کہ گلگت بلتستان یا آزادی کشمیر کا کوئی ایک معمولی حصہ بھی آئینی طور پر پاکستان کا آئینی حصہ قرار دیناکشمیر سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے دستبردار ہونے کے مترادف ہے ،کیونکہ بھارت ریاست پر قبضے کے لئے ایسے موقع کی تلاش میں ہے۔چند روز قبل راقم(عبدالجبارناصر) کی کراچی میں مقتدر سیاسی شخصیات سے اس ضمن میں بات ہوئی جن کا یہ کہناتھاکہ” مقتدر قوتوں اور اداروں نے گلگت بلتستان کوآئینی عبوری صوبہ بنانے کی بات کو مسترد کردیا ہے اور اب اس پر بات یا غور کرنا وقت کا ضیاع ہے،جہاں تک مسلم لیگی قیادت کے وعدے کی بات ہے وہ صرف لاشعوری انتخابی نعرہ تھا ”۔دفتر خارجہ کے بیان کے بعد پیپلزپارٹی کے رکن اسمبلی عمران ندیم نے اپنے شدید رد عمل میں کہاہے کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے انتخابات میں کامیابی کیلئے عوام کے ساتھ دھوکہ کیاہے ۔ Abdul Jabbar Nasir
یہ بات حقیقت ہے کہ تنازع کشمیر کے حوالے سے عالمی ضمانت ،پاکستان اور کشمیریوں کے مئوقف کی وجہ سے گلگت بلتستان کو ریاست جموں و کشمیر سے الگ کرکے کوئی حیثیت دینا ممکن نہیں ہے ،اس ضمن میں لیگی کی اعلیٰ قیادت کوساری صورتحال کا جائزہ لیکر اعلانات کرنے چاہئے تھے ۔موجودہ حالات میں لیگی قیادت گلگت بلتستان سیلف گورننس آڈر 2009 ء میں بہتری اور اختیارات کی مزید منتقلی کو ممکن بنا کرکسی حد تک اپنے وعدوں کی تکمیل کرسکتی ہے اور آزاد کشمیر کی طرح کے اختیارات کو ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ سیلف گورننس آڈر 2009 ء میں ترمیم کرکے  دیگراسمبلیوں کی طرح گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں ایک اقلیتی نشست کا اضافہ کیا جانا بہترعمل ہوگا ،اگرچہ اقلیتوں کی تعدادبہت محدود ہے ،تاہم اس اقدام کے مثبت اثرات مرتب ہونگے ۔ قومی اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے10 ، سینیٹ میں 4،پنجاب اسمبلی میں 8،سندھ اسمبلی میں 9،بلوچستان اور خیبر پختونخواہ اسمبلی میں تین تین نشستیں مختص ہیں ،جبکہ چاروں صوبوں کے بلدیاتی اداروں میں بھی پانچ سے دس فیصد نشستیںمخصوص کردی گئی ہیں ،اس لئے گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں ایک نشست کا اضافہ ضروری ہے ۔
گلگت بلتستان کونسل کا طریقہ انتخاب بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،اس ضمن میںوزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کی یہ تجویز درست ہے کہ گلگت بلتستان کونسل کا انتخاب سینیٹ کی طر ز پر واحد قابل منتقلی ووٹ کے ذریعے کیاجائے ۔ سینیٹ کا طریقہ انتخابات کافی دلچسپ اورپیچیدہ مگر بہتر ہے ۔ قوائد میں جلد ترمیم کرکے گلگت بلتستان کونسل کا انتخاب جلد کرانے کی ضرورت ہے ،تاکہ ادارے کام شروع کریں اور مناسب قانون سازی ہوسکے ۔
سندھ اور پنجاب کی طرح گلگت بلتستان میں بھی بلدیاتی انتخابات کی بازگشت اس وقت عروج پر ہے۔وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے 22اگست بیان کے مطابق” ایک سال کے اندر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں گے اور اس وقت تک کیلئے سیاسی ایڈمنسٹریٹرز کا تقرر ہوگا جو ابتدائی طورپر 6ماہ کیلئے تعینات ہوں گے اور بہتر کارکردگی کی بنیاد پر مزید توسیع کی جائے گی ”جبکہ 24اگست کوچیف الیکشن کمشنر آف گلگت بلتستان جسٹس(ر) سید طاہر علی شاہ کی ملاقات کے بعد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن کے جاری بیان کے مطابق وزیر اعلیٰ نے تمام اداروں کو بلدیاتی انتخابات کی تیاری کا حکم دے دیاہے ،بظاہر انتخاب کی تاریخ کے حوالے دونوں بیانات میں تضاد ہے ، تاہم چیف الیکشن کمشنر آف گلگت بلتستان جسٹس(ر) سید طاہر علی شاہ نے راقم سے گفتگو میں واضح کیا کہ” گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات ایک سال میں ہی ممکن ہیں ،کیونکہ قانون میں موجود سقم دور کرنے اور نئی بلدیاتی حلقہ بندیوں کے لئے5سے 6ماہ درکار ہیں اور امکان یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات جون2016ء تک ہی ہونگے ”۔ سیاسی ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری کے حوالے سے وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے بیان پر سابق وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سید مہدی شاہ نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیاہے کہ” وہ اس عمل کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے اور حافظ حفیظ الرحمن کے اسی مقدمے کو لیکر آگے بڑھیں گے جو انہوںنے پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں سیاسی ایڈمنسٹریٹرز کی تقرری کے حوالے سے دائر کیاتھا”۔سابق وزیر اعلیٰ کا سخت ردعمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ سیاسی ایڈ منسٹریٹرز کی تقرری پر پیپلزپارٹی اور دیگر اپوزیشن جماعتیں بھرپور مخالفت کریں گی ،تاہم حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد معاملے کو حل کرسکتی ہے ۔
اسمبلی انتخابات کے بعد سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جاتا تو بلدیاتی انتخابات 2015ء میں ہی میں کرواکر مسلم لیگ(ن) کی حکومت انتہائی ساز گار  حالات فائدہ اٹھا سکتی تھی مگر ایسا نہ کرکے غلط حکمت عملی اختیار کی گئی اور جوں جوں بلدیاتی انتخابات میں تاخیر میں ہوگی ن لیگ کی مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔بدقسمتی سے سید مہدی شاہ حکومت نے 5سال تک بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے صرف تاریخیں دی اور عوام کے ساتھ دھوکہ کیا،جس کا جواب عوام نے انتخابات میں بھرپور دے دیااور مسلم لیگ(ن) کی حکومت کوبلدیاتی انتخابات میں بلا وجہ سے گریز کرتے ہوئے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقلی یو یقینی بنانا ہوگا ورنہ ن لیگ کا انجام بھی پیپلزپارٹی سے بھی بدتر ہوگا اس لیے حکومت چاہیے کہ وہ اپنی تمام توجہ اب بلدیاتی انتخابات پر مرکوز کرے، اس ضمن میں مناسب حلقہ بندیاں اہم کام ہیں اس پر بھرپور توجہ دینے اور تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔
رواں برس تباہ کن سیلاب اور بارشوں کے باوجود اب تک پانچ لاکھ سے زائد ملکی وغیر ملکی سیاحوں نے گلگت بلتستان کا رخ کیاہے اور امکان ہے کہ اس میں مزید اضافہ ہوگا ۔وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے نہ صرف اس کی تصدیق کی ہے بلکہ 2016ء کیلئے 10 لاکھ سیاحوں کے ہدف کا اعلان بھی کیاہے اس ہدف کے حصول کیلئے ان کو ابھی سے محنت کرنا ہوگی ۔سیاحتی مقامات تک سڑکوں کی تعمیر ومرمت اور دیگر سہولیات کی فراہمی کیلئے کوششیں ہدف کے حصول میں معاون ہونگی ۔ضلع استور کے معروف سیاحتی مقام راما میں 17سے 19اگست تک سالانہ فیسٹول کی کامیابی بھی اس بات کی ضمانت ہے کہ سیاحوں کو مواقع اور تحفظ فراہم کیاجائے تو وہ خطے کا رخ کرنے کیلئے تیار ہیں ،اگرچہ دیوسائی میں بھی 28سے30اگست تک فیسٹول کا انتظام کیاگیا تھا مگر موسمی مشکلات کی وجہ سے یہ فیسٹول نہ ہوسکا اور امیدہے کہ حکومت خطے میں سیاحت کے فروغ کے لئے صرف دعوے نہیں بلکہ عملی اقدام کرے گی جو خطے میں خوشحالی وترقی کا سبب بنیں گے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button