کالمز

چند خاطرات دل

تحریر: امیرجان حقانی

الحمداللہ! مجھے روز کچھ اچھا پڑھنے کو ملتا ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ لکھنے کی کو شش کرتا رہتا ہوں. آج کی محفل میں کچھ خاطرات دل پیش خدمت ہیں. امید ہے آپ پسند فرمائیں گے. ملاحظہ ہو.

1.ہمہ گیر پیغام

قوم کے سامنے ایک ہمہ گیر اور ٹھوس پیغام موجود نہیں، اس لیے قوم کا اختلاف اور انتشار میں غلطاں ہونا فطری بات ہے. اور بدقسمتی سے اسلام کا آفاقی پیغام اور بنیادی تعلیمات بھی ٹھوس، جامع اور سہل انداز میں پیش کرنے کا نظم موجود نہیں.

مسیحت جس انداز میں تنظیمی(سسٹمیٹکلی) طور پر منظم ہے، اسی انداز میں فکری طور پر لاورث ہے مگر مہذب انداز میں چھایا ہوا ہے. مغرب اپنی تہذیب کو مسیحیت کا لبادہ پہنا کر گھر گھر پہنچا رہا ہے. بہترین تنظیم اور جدید ٹیکنیک کیساتھ.

اور اسلام جس انداز میں فکری اور دلائل و براہین کے ساتھ مزین ہے اسی لیول پر مسلمان تنظیمی اور تیکنیکی طور پر کمزور ترین پوزیشن میں ہیں. جس کا لازمی نتیجہ قوم کا اسلام سے دوری اور فروعی اختلافات میں الجھنا ہے.اور الحاد کی طرف بڑھنا ہے.

کاش کہ کوئی اسلام کا ہمہ گیر پیغام منظم و مربوط انداز میں قوم کے سامنے پیش کرتا.

صرف کلمہ پڑھ کر رسول اللہ کی حرمت پر جان نچھاور کرنے والی قوم کے سامنے پوری سیرت پیش کی جاتی تو قوم کا مورال کیا ہوتا، اور فکری اور علمی بلندی کیساتھ عملی دنیا میں کہاں پہنچی ہوتی کوئی اندازہ کرسکتا ہے؟.

2.ہیروز

ہماری بدقسمتی دیکھیں کہ ہر لڑنے اور انسانوں کا استیصال کرنے والا ہمارا ہیرو بن جاتا ہے. 1857سے آج تک کے تمام لڑاکو اور جنگیں کرنے والے لوگ ہمارے ہیروز ہیں.پاکستان اور گلگت بلتستان میں بھی وہی لوگ ہی ہیروز ہیں جو بہر صورت جنگجو تھے.ان کی تاریخ لکھی جاچکی ہے اور انہیں ہر سال مختلف شکلوں میں خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے.

مجھے سخت حیرت ان لوگوں پر بھی ہے جن کو روز سماجی خدمات اور تعلیمی ترویج پر فرامین ملتے ہیں.ان کی پہچان ہی سماجی ایکٹیویٹیز اور تعلیمی سرگرمیاں ہیں مگر انہوں نے بھی ایک کمانڈو کو ہیرو مان لیا ہے..تاریخ یہی بتاتی ہے کہ لڑنے والے افراد، قومیں اور ریاستیں بہر حال اپنا عروج کھو بیٹھی ہیں.

ڈاکٹر عبدالقدیر خان، حکیم سعید، عبدالستار ایدھی، طارق جمیل اور بابا چلاسی جیسے لوگ ہمارے ہیرو نہ بن سکے.

3.مواقع خود پیدا کیجے

ملٹن نے کہا تھا

If opportunity doesn’t knock, build a door.

ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھنے سے کامیابی نہیں ملتی. اگر آپ کو کامیاب ہونے اور آگے بڑھنے کے مواقع میسر نہیں ہیں، تو کوئی بات نہیں. آپ اپنی ویلیو اتنی بڑھا دیں، کہ مواقع خود آپ کو ڈھونڈتے پھریں.

کامیابی تب دروازے پر دستک دے گی جب آپ کا کوئی دروازہ ہوگا تو.بصورت دیگر مواقع اور کامیابی نئی نویلی دلہن کی طرح ہوتی ہیں کہ نہ آسانی سے گھونگٹ سرکاتی اور نہ ہے دستک دے کر آپ کو جگاتی، نہ ہی آسانی سے دروازے کی کنڈی اوپن کرتی.وہ منتظر رہتی مگر شرماتی للجاتی.

میاں رونے دھونے سے بہتر یہی ہے کہ گھونگٹ بھی خود سرکا دو، دستک بھی خود دے دو اور کنڈی پر بھی ہاتھ مارو، پھر دیکھنا کہ نئی نویلی دلہن کی طرح کامیابی آپ کے بانہوں میں کیسے گرتی ہے.

مواقع اور کامیابیاں بس آپ سے دو قدم کے فاصلے پر شرماتے ہوئے آپ کا شدت سے منتظر ہیں..کاش کہ تم اس کی طرح بڑھو اور باریک دوپٹہ سرکا کر ایک ترچھی نظر مارو اور پھر کامیاب ہوتے چلے جاو.

4.لوگ کیا کہیں گے:

دیپاک چوپڑا نے کہا تھا

What people think of you is none of your business.

مجھے گزشتہ دس سال یہ جملے ہزار بار سننے کو ملےہیں. کہ

آپ یہ کیا کررہے ہیں؟

کس سمت کا تعین کیا ہے؟

لوگ کیا کہیں گے؟

زمانے میں پنپنے کا یہ کیا اسٹائل اپنا رکھا ہے؟

آپ کا پس منظر یہ نہیں.

آپ اپنی پہچان کھو رہے ہو.

صاحب بھٹک گئے ہو.

آپ سے یہ امید نہیں تھی.

اس طرح کے ملے جلے الفاظ نے ہمیشہ میرا راستہ کاٹنے کی کوشش کی مگر دفعتا میں نے ان الفاظ سے اپنی جان چھڑا دی اور آگے چل دیا.

صاحب اگر آپ کا بھی کوئی وژن ہے.

کوئی ٹارگٹ طے کیا ہے.

کوئی منزل متعین ہے.

کوئی ھدف مقرر ہے.

تو جانے دیں ان سب باتوں کو جو لوگ کہیں گے.

بس آگے بڑھیے!

دیکھ لینا کل یہی سارے لوگ اپنے بچوں کو آپکے نشانات بتائیں گے.

یہ آپ کا کام نہیں کہ لوگ آپ کے متعلق کیا خیال کرتے ہیں. آپ کا کام یہ ہے کہ اپنے کام سے کام لیں. پھر آپ نہیں آپ کا کام آپ کی پہچان بن جائے گا

5.آپ تیار تو ہوجائیں:

گوتھم بودھا نے کہا تھا:

When the student is ready, the teacher will appear.

ہمارا المیہ یہی ہے کہ ہم پڑھنے کے لیے تیار ہی نہیں مگر ہم چاہتے ہیں کہ استاد سب گھول کر دماغ میں انڈیل دے. صاحب ایسا نہیں ہوتا. آپ پیاسا تو بن جاؤ، پھر آپ کو کنواں تلاشنا ہوگا. یہ نہیں ہوتا کہ کنواں آٹھ کھڑا ہوجائے اور تمہیں تلاشتا پھرے.المیہ یہ رہا کہ استاد کو ملازم تصور کیا گیا ہے. ملازم سے توقع نہیں کی جاسکتی.وہ علم ووفن نہیں بانٹ سکتا بلکہ ملازمت کرلیتا ہے.

آپ استاد کی عزت نفس بحال کیجے.یہ جان لیجے کہ آپ کا بچہ سب سے زیادہ انسپائریشن استاد سے لیتا ہے. استاد خود کو ملازم جانے اور مسائل کا دکھڑا سنا دے تو پھر طالب علم کھبی بھی کامیابی کے گُر استاد سے حاصل نہیں کرسکے گا. اگر بچہ عزیز ہے تو استاد کا مورال بلند کیجے. پھر بچے کی اپروچ از خود کمال کی ہوگی.

6.جی بی طلبہ احتجاج اور ناعاقبت اندیشی

انتہائی ناعاقبت اندیشی کے ساتھ ہائی سکینڈری بورڈ، فیڈرل منتقل کردیا گیا.ملا ہوا اختیار واپس کرنا نااہلی اور نالائقی کی بدترین مثال ہے.جس جس نے اس میں کردار ادا کیا ہے اس نے علاقے کیساتھ شدید غداری کی ہے.

سالانہ کروڈوں کے حساب سے جی بی کا پیسہ وفاق منتقل ہورہا ہے.

کے آئی یو کے چند ناہنجاروں کا منحوس کردار اور کچھ باہر کے لوگوں کے ذاتی مفادات اپنی جگہ، مگر اس میں اصلاح کی مکمل گنجائش تھی.منحوس کردار اور ذاتی مفاد کو بنیاد بناکر قومی مفادات کا استیصال نہیں کیا جاسکتا ہے.

سچ یہی ہے کہ پری پلاننگ کے مطابق بورڈ منتقل کردیا گیا ہے جس سے علاقے کا سالانہ کروڈوں کے نقصان سمیت طلبہ و طالبات اور سرپرستوں کی خجل خواری الگ ہے.

اب خاموشی سے ماحول بنایا جارہا ہے کہ جی بی کالجز میں بی ایس پروگراموں کی ایفیلی ایشن بھی کے آئی یو کے سوا کہیں اور کی جائے.جس کی مد میں بھی سالانہ کرڈوں روپیہ کہی اور منتقل ہوگا. یہ بھی علاقے سے غداری کے سوا کچھ نہیں.

بورڈ منتقلی کے آفٹر شاکس شروع ہوچکے ہیں. کے آئی یو جی بی ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کا پانچ کروڈ بجٹ ہضم کرکے بھی طلبہ کو فیسوں میں ریلیف نہ دے پارہی ہے.طلبہ احتجاج کناں ہے.سخت قسم کے نعرے لگ رہے ہیں. جگہ جگہ احتجاجی مناظر دیکھنے کو ملے ہیں.نوجوان بپھر چکے ہیں.ان کو روکنا اب مشکل ہوتا جارہا ہے. ایوان صدر تک آواز اور احتجاج پہنچ چکی ہے.

ان لوگوں کو نوٹ کرنا چاہیے جن کو مقتدرہ یا اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے کہ بورڈ منتقلی کے بعد بی ایس پروگراموں کی ایفیلی ایشن بھی کہیں اور کردی گئی تو پھر تعلیمی اداروں کا اللہ حافظ ہے. کے آئی یو کے ساتھ کالجز بھی دیوالیہ ہونگے.اور قوم کو اربوں کا ٹیکہ سالانہ لگتا رہے گا.

علاقائی رقم یہاں پر ہی گھوم رہی تھی، کسی اور جگہ منتقل ہوتی رہے گی.

حافظ حفیظ الرحمان صاحب اور اس کی ٹیم پر لازم ہے کہ جی بی کا تعلیمی سسٹم بچانے کے لیے ہنگامی طور پر قانون سازی کریں.کالجز کی ایفیلی ایشن اور آزاد بورڈ کے حوالہ سے ایکٹ آنا بہت ضروری ہے. فی الحال وفاق بجٹ نہیں بھی دیتا ہے تو بھی اپنے ذرائع اور آمدن سے آزاد بورڈ کے لیے ایکٹ لانے اور اس کی روشنی میں فوری بورڈ کا قیام ضروری ہے.

اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button