کالمز

ہنزہ کی لوک کہانیاں (انگریزی سے ترجمہ شدہ)

مترجم: محمد ذاکر خان 

(نوٹ: ذاکر خان ہنزائی صاحب نے گلگت میں برطانوی راج کے دوران پولیٹیکل ایجنٹ (1923)کےطور پر خدمات سرانجام دینے والے لیفٹیننٹ کرنل لوریمر کی انگریزی کتاب “فوک ٹیلز آف ہنزہ” سے مختصر کہانیوں کااردو میں ترجمہ کرنا شروع کردیاہے۔ اس سلسلے کی یہ دوسری کہانی ہے۔ اسی طرح کی مزید کہانیاں آنے والے دنوں میں پامیر ٹائمز پر شائع کر دی جائینگی۔ مدیر)

مُنّ عوُلُم دادو

فقیر علی نامی شخص کا ایک بیٹا درویشو ششپر کی چراگاہ میں بکریاں چراتا تھا۔ایک دن وہ اپنی بکریاں چرانے ہنُومَن مُنّ کی طرف لے گیا۔بکریوں کو چرنے کیلئے چھوڑ کر ایک طرف لیٹ گیا۔ابھی اسکی آنکھ لگی ہی تھی کہ اسے ایسا لگا جیسے کوئی درویشو ‘ درویشو پکار رہا ہے۔اسکی آنکھ کھلی تو دیکھا ایک نہایت حسین لڑکی سرہانے کھڑی کہ رہی ہے ْ درویشو میرے ساتھ چلو ۔میرے والد تمہیں بلا رہے ہیں‘۔یہ کہ کر وہ ایک طرف چل پڑی اور درویشو بھی اس کے پیچھے ہو لیا۔چلتے چلتے جب وہ ہِنُومَن مُنّ پہنچے تو مُنّ یعنی پہاڑ میں ایک دروازہ نمودار ہو گیا اور وہ اندر چلے گئے۔

اندر جاکر درویشو نے دیکھا کہ ایک وجیہ و جمیل شخص جس کی مونچھیں سنہری تھیں ایک مسند پر بڑی شان سے بیٹھا ہے اور اسکے ساتھ سات حسین سے حسین تر لڑکیاں ہاتھوں میں ستار لیے بیٹھی ہیں۔درویشو نے سلام کیا۔ سنہری مونچھوں والے نے جواب دیا ‘ بیٹھنے کا اشارہ کیا اور لڑکیوں سے کہا’درویشو کے لئے اپنے ستار پر کوئی خوبصورت سی دھن چھیڑ دو۔ حسینا ؤں نے حکم کی تعمیل کی اور ستار کی دھن کے ساتھ نہایت سریلی آواز میں گانا بھی شروع کر دیا۔اس شخص نے درویشو سے کہا’ میرے بیٹے اٹھواور بلا خوف و جھجک ناچنا شروع کردو۔ درویشو نے مسحور کر دینے والی موسیقی پر رقص شروع کر دیا۔اس نے درویشو کو بتایا میں تمہارا دادا ہوں اور مجھے مُنّ عُو لُم دادو کے نام سے جانا جاتا ہے۔یہ میری بیوی اور سات بیٹیاں ہیں۔ میں نے قِصَر کی دادی سے شادی کی ہے اور میں اس پہاڑ کے اندر رہتا ہوں۔ درویشو دیر تک ناچتا رہا اور پھر تھک کر بیٹھ گیا۔

512RD78JQvL._SX316_BO1,204,203,200_مُنّ عُو لُم دادو نے اپنی بیوی سے کہا ’جاؤ درویشو کیلئے مارخور کی چربی سے تیار کی ہوئی دِرَم فِٹی لاؤ‘۔دادو کی بیوی تھوڑی دیر میں دِرَم فِٹی بنا لائی جسے درویشو نے پیٹ بھر کر کھایا۔جب وہ کھا چکا تو دادو نے اپنی ایک بیٹی سے کہا ’جاؤ اسے وہیں چھوڑ آؤ جہاں سے یہ آیا ہے‘۔وہ اسے ہِنُومَن مُنّ کی چراگاہ میں واپس چھوڑآئی۔ درویشو اپنی بکریوں کو لے کر اپنے ٹھکانے پر واپس آ گیا جہاں پہنچ کر وہ کچھ دیر کے لئے بے ہوش ہو گیا۔جب ہوش میں آیا تو ساتھی چرواہوں نے پوچھا کیا ہوا بے ہوش کیوں ہو گئے۔درویشو نے مُنّ عُو لُم دادو اور اسکی بیوی بیٹیوں کا تمام قصہ سنا دیا۔وہ سب اس کی کہانی سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔

مُنّ عُولُم دادو کی اپنی ایک الگ کہانی ہے۔دادو کا گھر ششپر نالہ کی ترائی میں تھا۔اس کی شادی قِصَر کی دادی سے کیونکر ہوئی اس بارے میں مشہور ہے کہ قِصَر کی بیوہ دادی نے اپنے پوتے سے کہا’جب تم بُوبُلی غاس سے شادی رچاؤ تو میرے لئے بھی شوہر ڈھونڈھ لانا۔ سنا ہے ششپر نالہ کی گھاٹی میں سنہری مونچھوں والا ایک خوبصورت شخص رہتا ہے ۔تم اسے لے آنا میں اسی سے شادی کرونگی۔ہم دونوں اپنی شادی کی تقریبات دھوم دھام سے اکٹھے منائیں گے۔ ُٓںٰ ُٓںٰ 

دادی کی فرمائش پر قِصَر سنہری مونچھوں والے کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔دادی کی بتائی ہوئی جگہ پر پہنچا تو دیکھا وہ وہاں کھڈی پر پَٹُّو بُن رہا ہے۔ قِصَر نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اسے اٹھا کاندھے پر ڈال لیااور اپنے گھر لے آیا جہاں دادی چھت پر چڑھی اپنے دولھے کا انتظار کر رہی تھی۔سنہری مونچھوں والے کو دیکھ کر وہ جلدی جلدی دیوار سے لگی لکڑی کی سیڑھی سے اترتے ہوئے نیچے جا پڑی اور اس کی پسلیاں ٹوٹ گئیں۔قِصَر بیچارہ اپنی اور دادی کی شادی بھول کر زخمی دادی کی تیمارداری میں جت گیا۔دادی کو صحت یاب ہونے میں کچھ دن لگ گئے۔جب وہ ٹھیک ہو گئی تو اس کی شادی مُنّ عُولُم دادو سے اور اپنی بُوبُلی غاس سے کر لی۔

ششپر نالہ کی تر ائی میں اب بھی کبھی کبھی ہینومن من سے کسی کو بلانے کی صدا آتی ہے جسے اکثر لوگ سن سکتے ہیں۔

شون غو قر اور ہک اے مامو‘ دو حریف بٹن

وادی ہنزہ کے دو مشہور اور ایک دوسرے کے سخت حریف‘ شون غوقر اور ہک اے ماموں نامی ‘دو بٹن کو التت بلایا گیا تاکہ ان کی الہامی پیشنگوئیاں کرنے کے فن کا مقابلہ کیا جائے اور پرکھا جائے کہ کون بہتر ہے۔

دونوں کو لا کر ایک جگہ بٹھا دیا گیا۔ بلتت کے کراغدی مژ ایک خوبصورت چتکبری گائے لے کر آئے۔ دونوں نے اسے ایک نظر دیکھا۔شون غو قر نے ہک اے مامو سے کہا۔’گائے کے پیٹ میں بچھڑا ہے‘۔ ہک اے مامو نے جواب دیا ’ اور اس کے ماتھے پر ایک بڑا سا سفید دھبہ ہے‘۔’نہیں تم غلط کہ رہے ہو‘ شون غوقر بولا ’ماتھے پر جو نظر آ رہا ہے وہ سفید دھبہ نہیں ہے۔ دراصل بچھڑے کی دم کے سرے پر سفید بال ہیں اور دم گھومتی ہوئی ماتھے پر آ کر ٹک گئی ہے‘۔ دونوں اس پر بحث کرنے لگے۔ہک اے مامو نے اپنے حریف سے اتفا ق نہیں کیا اور اپنی بات پر اڑا رہا۔

کچھ دنوں بعد جب گائے نے بچہ دیا تو وہ بچھڑا ہی تھا اور اس کی دم گھوم کر اس کے ماتھے پر ٹکی ہوئی تھی۔شون غوقر کی پیش گوئی صحیح نکلی اور لوگوں نے اس کی برتری مان لی۔

شون غوقر کی ایک بڑی پیش گوئی

کہتے ہیں گئے وقتوں میں بٹن شون غوقر نے ایک بڑی عجیب و غریب پیش گوئی کی تھی جو بعد میں بالکل سچ ثابت ہوئی۔اس نے کہا’کچھ سالوں بعد چٹی چمڑی والے لوگ یہاں آ جائیں گے۔ان کے کوٹ چھوٹے اور اونچے ہونگے۔وہ ہم پر حکومت کریں گے۔ہنزہ کے باسیوں پر وہ مہربان ہونگے اور اخلاقی اصولوں کو بنیاد بنا کر اپنا کام کریں گے جس سے وادی کے لوگوں کو انصا ف ملیگا انہیں بہت فائیدہ ہوگا۔ یہاں خوشحالی کا دور دورہ ہوگا۔

یہ گورے وہاں بھی پہنچ جائیں گے جہاں جانے کا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ یہ لوہے کے پل بنا کر ہر جگہ چلے جائیں گے۔یہ بیت الخلاؤں کی جگہ گھوڑوں کے اصطبل تعمیر کریں گے اور جہاں اب اصطبل ہیں وہاں بیت الخلاء بن جائیں گے۔یعنی ان کے اصطبل گھر سے باہر ہونگے اور بیت الخلاء گھروں میں ہونگے۔

ٓٓآنے والے وقتوں میں اسی کو بات کرنے کی اجازت ہو گی جو امن کی بات کریگا۔ جسے اجازت ہوگی و ہْ امن اور آشتی کے علاوہ کوئی اور بات نہیں کریگا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button