تم اور تمہاری عید
’’عید مبارک ….عید مبارک….عید مبارک…… کس بات کی عید مبارک؟‘‘
میں حیرانی اور شرمندگی کی ملی جلی کیفیت کے ساتھ ان کی طرف دیکھ رہا تھا۔
اجنبی بزرگ پھر گویا ہوئے۔ ’’سال بھر جھوٹ بولتے رہے، لوگوں کو تنگ کرتے رہے، لوگوں کو نقصان پہنچاتے رہے، لوگوں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتے رہے، رشوت دیتے اور لیتے رہے، ناجائزمنافع خوری کرتے رہے۔ اور اب …..‘‘
تم کیا سمجھتے ہو ؟ چند ہزار روپے کا بکرا ذبح کر کے تم اپنے گناہ دھو لو گے؟ یہ خام خیالی ہے، اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہو تم۔‘‘
میں نے کچھ کہنا چاہا مگر انہوں نے بولنے کا موقع نہیں دیا۔
’’یاد ہے پچھلے ماہ تمہارے ہمسایہ میں ایک غریب بچی کی شادی ہوئی تھی؟ اپنی سفید پوشی بچانے کیلئے اُس کے مزدور باپ نے گھر کے سامان بیچ دئیے جن کو سالہ سال سے سنبھال رکھا تھا، کسی کے پاو ں پڑ کر قرض حاصل کر لیا ….
وہ غریب بچہ یاد ہے جس کا باپ پچھلے سال فوت ہوا تھا اور اب وہ اپنی ماں اور 5 بہن بھائیوں کے ساتھ کچے مکان میں رہ رہا ہے؟ تم نے کبھی مڑ کر اس کی طرف دیکھا؟ میں تمہیں بتاتا ہوں….اس لڑکے نے پڑھائی چھوڑ دی ہے اور ایک ورکشاپ میں کام کرنے لگا ہے۔ پتہ ہے اس کی ماہانہ آمدنی کیا ہے؟ دو ہزار روپے …. ہاں دو ہزار روپے ، اتنی رقم تم سگریٹ کے دھویں میں اڑا دیتے ہو۔
اس بیوہ کی کبھی خبر لی تم نے جو زندگی کے 10سال اپنے باپ کے گھر میں گزار چکی ہے، تم اور تم جیسے لوگوں کو کچھ احساس ہے کہ اس کے کیا جذبات ہونگے، تم نے کبھی اس کو بھی انسانوں میں شمار کیا ہے؟
اس معذور کے احساسات کو کبھی محسوس کرنے کی کوشش کی تم نے؟ جو دن بھر کھڑکی سے جھانک جھانک کر حسرت بھری نگاہوں سے گلی سے گزرنے والوں کو دیکھتا رہتا ہے……
تم نے الیکشن سے دو روز قبل اپنے پسندیدہ امیدوار کے لئے پانچ لاکھ روپے خرچ کئے تھے اور اسی دن تمہارے ہمسایہ میں ایک شخص بنک کو دس ہزار روپے نہ لوٹانے کے جرم میں گرفتار ہوا تھا…..لیکن تمہیں کیا ، تم اپنے حال میں مست ہو۔
تم نے بچے کی پیدائش پر گھر میں بڑا اہتمام کیا تھا، 10 ہزار روپے صرف بریانی پر خرچ کیا تھامگر….. بتاو کتنے غریبوں کو دعوت دی تھی تم نے؟ ساری بریانی تمہارے کھاتے پیتے رشتہ دار اور دوست کھا گئے تھے اور جو بچا تھا وہ تمہاری بیوی نے جانوروں کو کھلا دیا تھا۔
تم مذہبی رہنماوں کے نام پر ہر سال دیگیں چڑھاتے ہو مگر یہ کبھی یاد نہیں آتا کہ ان پیسوں سے آدھے میں ایک غریب کو سال بھر کا راشن مہیا کیا جا سکتا ہے۔ پتہ نہیں تمہارے مذہبی رہنما اس بات پر کیونکر خوش ہوتے ہیں…..؟؟؟‘‘
میں نے ہمت کر کے بزرگ کی بات کاٹی …. ’’جناب بس بھی کریں۔ آپ جو باتیں کر رہے ہیں ان میں سے بیشتر کا مجھ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں۔‘‘……
وہ پہلی بار مسکرا دیئے ’’تم اسی معاشرے کے ایک فرد ہو، میں تمہارے ذریعے تمہارے معاشرے سے مخاطب ہوں۔بس اتنا یاد رکھو کہ تم عید منانے کے حقدار نہیں ہو ‘‘
میں کچھ اور کہنا چاہتا تھا مگر وہ اچانک غائب ہو گئے اور…..اور میری آنکھ کھل گئی۔پھر میں دیر تک اس خواب پر سوچتا رہا….
عید سے چند روز قبل ہی میں نے بکرا خریدنے کے لئے رکھی ہوئی رقم اپنے محلہ میں موجود ایک غریب کو یہ کہہ کردے دیا کہ کسی دوسرے شہر سے ایک دوست نے ضرورت مندوں کے نام کچھ پیسے بھیجے ہیں، آپ اپنے بچوں کی صحت اور تعلیم پر خرچ کیجئے گا۔
شام کو ہی مجھے وہ محلہ دار بازار میں نظر آیا جہاں وہ گھر کیلئے ضرورت کے سامان خرید رہا تھا اور اس کی 10سالہ بچی کے ہاتھ میں پہلی جماعت کی کتابیں نظر آرہی تھیں۔
میں نے سوچا کہ بڑھ کے اسے شاباشی دوں مگر یہ سوچ کر پیچھے ہٹ گیا کہ اُس کی عزت نفس مجروح ہو جائے گی۔
پھر عید کا دن آیا، میں نے اپنے بچوں کو تیار کرایا ، گاڑی میں بٹھایا اور لمبے سفر پر نکل پڑا، بچے پوچھ رہے تھے پاپا ہم نے بکرا کب ذبح کرنا ہے؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ کچھ سوچ کر میں نے کہا ’’بیٹے میں نے بکرے کے پیسے ایک غریب کو دے دیئے ، اب میرے پاس مزید پیسے نہیں ……میں تم لوگوں کو سیر کرانے لے جا رہا ہوں، ہم کسی اچھی جگہ کی سیر کریں گے ، وہیں کھانا کھائیں گے اور شام کو گھر لوٹیں گے۔ ‘‘ اپنی گفتگو کے دوران میں نے ترچھی نظروں سے اپنی اہلیہ طرف دیکھا ، اس کے چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے….. وہ خاموشی کے ذریعے اپنا احتجاج مجھ تک پہنچا رہی تھی، کیونکہ وہ میرے عمل سے پوری طرح متفق نہیں تھی۔
گاڑی میں عجیب طرح کی خاموشی چھا گئی۔بچے شیشے سے باہر کا نظارہ کر رہے تھے جہاں لوگ جوق در جوق عید کی نماز کیلئے جا تے ہوئے نظر آرہے تھے اور ہم مخالف سمت میں سفر کر رہے تھے…..ایک بچے نے کہا ’’پاپا میری کلاس میں ایک بچہ ہے جس کے جوتے پھٹے ہوئے ہیں، وہ ہر روز ہمارے جوتوں کو دیکھ کر روتا رہتا تھا، کل میں نے اپنا دوسرا جوڑا جو گھر میں پہننے کیلئے رکھا ہوا تھا ، اُسے دے دیا‘‘…..میں نے اہلیہ کی طرف دیکھا ، عین اسی وقت اس کی نظریں بھی میری جانب مڑ گئی تھیں….اُس کی آنکھوں میں اطمنان کے آثار نمودار ہو گئے تھے…. مجھے عجیب سی خوشی کا احساس ہو رہا تھا….اہلیہ نے بچے کو سمجھانے والے انداز میں کہا ’’تم نے بہت اچھا کیا …. قربانی اسی کا نام ہے، دوسروں کا احساس کرنا، دوسروں کی مدد کرنا، آئندہ بھی ایسی سوچ رکھو مگر جو بھی کام کرو،ہم سے پوچھ کر کیا کرو۔‘‘
شام کو جب ہم گھر لوٹ رہے تھے تب میں سوچ رہا تھا کہ عید کی اصل خوشی اس بار ملی ہے، ایسا سکون دل کو کبھی میسر نہ ہوا تھا…..گھر میں داخل ہوتے ہوئے بیوی نے کہا ’’آپ کسی عالم سے پوچھ لیجئے گا کہ ہماری قربانی درست ہوئی ہے کہ نہیں‘‘……میرے بڑھتے قدم رک گئے ….میں کچھ کہنا چاہتا تھا مگر وہ آگے بڑھ گئی تھی…… !!!!