کالمز

سود سے پاک شرعی قرضہ کے نام پر فراڈ

نوجوان پریشانی کے عالم میں تھا اور لمبی لمبی سانسیں لے رہا تھا۔ دروازے پر آکر تھوڑی دیر رکا اور بغیر سلام دعا کے دفتر میں داخل ہوا۔ دفتر والے سبھی اپنے اپنے کام ،اور میں ان کے ساتھ گپیں ہانکنے میں مصروف تھا۔ نوجوان تھوڑی دیر نیوز ڈیسک کے قریب کھڑا رہا پھر ایک صاحب نے انہیں کرسی پر بیٹھ جانے کو کہا۔ بیٹھتے ہی وہ ایڈیٹر کا پوچھنے لگا تو میرے اور ایڈیٹر صاحب کے علاوہ باقی سبھی نے ہنسنا شروع کردیا۔ پھر ایک صاحب نے سرگوشی انداز میں مجھے نوجوان کا مسئلہ مختصراً بتادیا۔
مسئلہ جاننے کے بعد مجھے نوجوان کی بے چینی کا شدت سے احساس ہوا اور بلاتاخیر نوجوان سے مخاطب ہوکر بولا ،جناب ایڈیٹر صاحب یہ میرے ساتھ والی کرسی پر تشریف فرما ہیں،ابھی تفصیلاً اپنا مسئلہ انہیں اور ہمیں بتادیں۔ نوجوان نے میری بات مانی اور اپنے ساتھ پیش آنے والا واقعہ سنانا شروع کردیا۔
وہ بولا کہ کچھ عرصہ قبل اخبار میں ایک اشتہار آیا، جس میں پولٹری فارم،فش فارم،بوتیک،پارلر شاپ کھولنے کے علاوہ گھر تعمیر کرنے کے لئے ’’سود سے پاک شرعی قرضہ ‘‘کی فراہمی کا اعلان کیاگیا تھا جو مسلسل ایک ماہ تک اخبار میں چھپتا رہا۔ اشتہارSafdar Logo کے آخر میں ایک صاحب کا نام موبائل نمبرز اور ای میل ایڈرس بھی درج تھا لیکن ادارے کے دفتری ایڈرس کا کہیں ذکر موجود نہیں تھا۔ نوجوان کے بقول انہوں نے اشتہار پڑھ کر متعلقہ بندے سے موبائل فون پر رابطہ کیا اور انہیں بلا تکلف قرضہ دینے پر آمادہ کیا۔ نوجوان نے پہلے ایک لاکھ روپے قرضہ لینے کا ڈیمانڈ کیا پھراگلے بندے نے انہیں پانچ لاکھ کی ڈیمانڈپر آمادہ کرلیا۔اس دوران دونوں کے آپس میں موبائل پر رابطے ہوتے رہے۔ پھر کیا ہوا؟
ہوا یوں کہ ایک دن قرضہ دینے والے بندے نے لینے والے بندے کی سادگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے قرض کی رقم کی واپسی کے کچھ اقساط ایڈوانس میں جمع کرانے کا مطالبہ پیش کردیا ۔نوجوان نے اس مطالبے کو بخوشی قبول کرلیا اوربلاتاخیر متوقع قرضہ کے اقساط کی مد میں اپنی تھوڑی بہت جمع پونجی صاحب کے اکاونٹ میں منتقل کردی اور قرضے کی رقم کا انتظار کرتا رہا ۔پھر کہاں قرضہ تو کہاں ایڈوانس ادائیگیاں،کچھ عرصہ بعد بندہ نمبر ہی بند کرکے غائب ہوااور نوجوان اس کی تلاش میں مدد کے لئے بنکوں، خفیہ اداروں اوراخبار کے دفتر کی خاک چھاننے پر مجبورہوگیا۔
کہانی سن کر نوجوان پر مجھے سخت ترس آیا اور گفتگو کاٹتے ہوئے میں نے اس کی مالی حالت سے متعلق دریافت کیا ،تو بولنے لگا کہ بھائی میں تو پی ڈبلیو ڈی میں ملازمت کرتا ہوں۔میرے پیسوں کا خیر ہے گم بھی جائے تو لیکن بعض ایسے افراد نے اس آفرکی چکر میں اپنا سب کچھ لٹادیا جن کے پاس بمشکل تین وقت کی روٹی دستیاب ہے۔
ان کی اس بات نے تو مجھے چونکا دیا اور مجھے یکدم وہ لوگ یاد آگئے جو ماضی میں اس طرح کے گمراہ کن آفرز سے فائدہ اٹھانے کی چکر میں اپنا سب کچھ لٹا کر دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوئے تھے۔میرے استفسار پر نوجو ان نے بتایا کہ ان کی معلومات کے مطابق ابھی تک چالیس سے زائد افراد اس اسکینڈل کا شکار بنے ہیں اور اگلا بندہ اوسطاً پچیس سے تیس لاکھ روپے بلامشقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ نوجوان کے بقول انہوں نے قرضے کی پیشگی اقساط کی مد میں مطلوبہ رقم بنک ٹرانسفر اور ایزی پیسہ کے ذریعے اگلے بندے کو پہنچا دی اور جونہی پیسے مکمل ہوئے بندہ غائب ہوگیا۔ نوجوان کے بقول انہوں نے جب متعلقہ بندے کا سراغ لگانے کی کوشش کی تو وہ لاہور کا رہائشی نکلا اور اس گناؤنے دھندے کی غرض سے الائیڈ بنک نواز چوک جھنگ میں اس نے اکاونٹ کھول رکھا تھا۔ لیکن ’’اب پچتائے کیا ہوت جب چڑیا چک گئیں کھیت ‘‘ کے مصداق کام تمام ہونے کے بعد بندے کا پتہ اور بنک اکاونٹ معلوم کرنے سے کیا ہوگا؟
ہمارے سامنے اس طرح کے مالیاتی اسکینڈلز کی کئی مثالیں موجود ہونے کے باوجود ہم ضرورت کے وقت عقل کے اندھے ہوجاتے ہیں تو اس میں کسی اور کا کیا قصور؟ بک بورڈ والے کونسے نامعلوم تھے، جو گلگت بلتستان کے غریب اور سادھ لوح افراد کے کروڑوں روپے لے اڑے۔ کیا ان کی سکونت،دفاتر اور دیگر تفصیلات سے متعلق حکومت یا ریاستی ادارے لاعلم تھے؟
بک بورڈ گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک بدترین مالی اسکینڈل تھا جس کے مرکزی ملزمان کی گرفتاری کے باوجود غریبوں سے لوٹی جانے والی خطیر رقم کا کچھ پتہ نہ چل سکا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے لوگ مختلف آفرز کی لالچ دیکر کروڑوں بلکہ اربوں روپے لوٹ چکے ہیں۔کیا ان سے کسی نے وہ رقم ریکور کی؟ اور تو اور خود سرکاری مالیاتی اداروں،نیشنل بنک ،زرعی ترقیاتی بنک وغیرہ کو بااثر افراد نے کس قدر بے دردی سے لوٹ لیا اور سینا تان کر مارکیٹ گھومتے پھرتے ہیں۔ کیا ان پر ہاتھ ڈالنے کے لئے کسی میں جرات ہوئی ؟
بس اس قسم کے واقعات سے ہمیں صرف اور صرف آئندہ کے لئے سبق حاصل ہونے کے سوا اورکچھ نہیں ملتا۔سبق بھی دو طرح کے طبقوں کو۔ایک وہ ، جوکسی نہ کسی مجبوری کے تحت قرضہ کے حصول میں سرگرداں رہتے ہیں یا وہ جو راتوں رات امیر بننے کے چکروں میں اس طرح کے شکنجوں میں پھنس جاتے ہیں۔ اس طبقے کے لوگ عموماً سیدھے سادھے اور معصوم طعبیت کے ہوتے ہیں جو سامنے پرکشش قسم کے آفرز سے فوری طور پر استعفادہ حاصل کرنے کی غرض سے دوسروں سے مشورے تک نہیں لیتے ۔ اور جب سب کچھ ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو ان کے پاس پریشانی اور پیشمانی کے سوا کوئی حل موجود نہیں رہتا، جن کی ایک بہترین مثال بک بورڈ کے متاثرین کی ہے۔
دوسرا سبق حکومتی ذمہ داران کوحاصل ہوتا ہے یا ہونا چاہیے ۔ کیونکہ حکومتی اہلکار ریاست کے شہریوں کی جان ومال کے تحفظ کے ضامن ہوتے ہیں اور انہیں ہر صورت یہ ذمہ داری سرانجام دینی ہوتی ہے۔ حکومتی اداروں کی معمولی سی غفلت اور لاپرواہی قوم کو تباہی کے دہانے پر پہنچا سکتی ہے۔ ریاست کے شہریوں کے لئے روزگار کے زرائع پیدا کرنا بھی حکومت ہی کاکام ہوتا ہے ،چاہے وہ سرکاری اداروں میں ملازمت کی شکل میں ہو یا کاروبار کے اجراء کے لئے قرضوں کی فراہمی کی صورت میں۔ جب حکومت اس ذمہ داری کی انجام دہی میں ناکام ہوجاتی ہے تو لوگ بحالت مجبوری اس طرح کے گمراہ کن راستے اختیار کرلیتے ہیں۔
اگرحکومت کی جانب سے بیروزگار نوجوانوں کی سہولت کے لئے کوئی مناسب منصوبہ بندی ہوتی اور اس منصوبہ بندی کے تحت ایک معقول رقم سے بلا امتیاز قرضوں کی فراہمی کاکام شروع ہوتا توغریب لوگ اس طرح کے دھندوں میں کبھی نہ پڑجاتے۔ساتھ ہی ساتھ حکومت کا کام اس طرح کے فراڈیئے اور نوسربازوں اور ان کی مکرو دھندوں کی نگرانی بھی ہے ۔ اگر حکومتی یا ریاستی ادارے فعال انداز میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتے ہوئے لوگوں کوتباہی و گمراہی کی طرف لے جانے والے عناصر پر کڑی نظر رکھتے اور اس طرح کی بے بنیاد آفرز پر مبنی مواد کی اشاعت کی چھان بین کرلیتے تو نوبت یہاں تک کبھی نہیں پہنچ پاتی۔
ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہماری حکومتیں عوام کو سہولیات دینے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہیں۔کیونکہ اگر حکومت کی جانب سے خالصتاًبیروزگاری کی بنیاد پر نوجوانوں کو قرضوں کی فراہمی کا کوئی منصوبہ ہوتا اور اس منصوبے میں میرٹ اور شفافیت کو یقینی بنایا جاتا تو بھی لوگوں میں اس قسم کے رجحانات قدرے کم ہوجاتے۔
اگر ہماری وفاقی حکومت جانب سے اعلان کردہ بلاسوقرضہ اسکیم کے ثمرات گلگت بلتستان جیسے پسماندہ علاقے تک صحیح معنوں میں نہ پہنچ پا سکیں ،یا سابق صوبائی حکومت کی طرف سے اعلان کردہ اسکیم کے تحت بیروزگاری کے خاتمے کے نام پرصرف بیس سے پچیس ہزار روپے کا قرضہ ملے تولوگوں کے پاس پھر کونسا آپشن باقی رہ جائیگا جس سے ان کی مجبوریاں حل ہوسکیں؟پھر مجبوراًانہیں اپنا گزربسر کے لئے اسی طرح کے ہی راستوں کی تلاش رہتی ہوگی، کہ کسی نے بھاری منافع کمانے کی خاطر بک بورڈ جیسے جعل ساز ادروں کا رخ کیا،کوئی ایڈکون نامی ادارے کا شکار بنے اور کوئی بلاسود شرعی قرضے کے حصول میں اپنی جمع پونجی کھو بیٹھے۔ پھرپانی سرپر سے گزرجانے کے بعدان فراڈیوں کا بائیوڈیٹا جمع کرنے اور اخبارات کے دفاتر میں جاکر گلے شکوے کرنے سے کیا مل سکتا ہے؟
بہرحال قصور اس میں اس دھرتی کا بھی ہے۔ گلگت بلتستان کی سرزمین جہاں غریب اور لاچار افراد کے لئے بھوک وافلاس کی صحرا کی مانند ہے وہاں یہ خطہ فراڈ،غبن،کرپشن اورلوٹ مارکرنے والوں کے لئے انتہائی زرخیز بھی ہے۔ایک طرف وفاقی حکومت ہاتھی کے دانت بن کر خطے کے وسائل پر قابض ہے تو دوسری طرف مقامی وغیر مقامی حکمران ان وسائل کو مال غنیمت جان کر لوٹنے میں مصروف۔یوں ہر کوئی اپنے اپنے دھندے میں مگن ہوجائے تو غریبوں کا نہ کوئی حال جاننے والا ہوگا اور نہ ہی انکی لوٹی جانے والی دولت واپس دلانے والا۔ لہذا ہم ’’بلاسود شرعی قرضہ‘‘ کے حصول کی نیت سے انجان بندے کے ہاتھوں لوٹ جانے والے متاثرین سے صرف اور صرف اظہار ہمدردی کے اورنہیں کرسکتے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button