کالمز

سیلاب زدگاں کی بے حالی 

 

عنایت اللہ فیضی
عنایت اللہ فیضی

3 اکتوبر 2015ء کو خیبر پختونخوا میں تباہ کن سیلاب کے 3 ماہ ہوگئے سیلاب زدہ علاقوں کا درجہ حرات 39 اور 40 ڈگری سنٹی گریڈ سے کم ہو کر 20 اور 24 ڈگری کے درمیان آگیا شام کے بعد پارہ 15 ڈگری سنٹی گریڈ تک نیچے گرتا ہے سیلاب جولائی کی 13 تاریخ سے 25 تک آیا تھا اس موقع پر وزیراعظم میاں نواز شریف نے 50 کروڑ روپے اور خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک نے 10 لاکھ روپے کا اعلان کیا تھا اپوزیشن لیڈر سیدخورشید شاہ سندھ حکومت کی طرف سے 5 کروڑ روپے کا چیک دیا تھا سیلاب کے بعد پاک آرمی نے دو مقامات پر کرایے کے تیار پُل لاکر دیدیے ایک جگہ پہاڑ کی کٹائی کر کے راستہ کھول دیا 20 مقامات پر عوام نے خود یا این جی اوز کی مدد سے کام کر کے راستے کھول دیے نہروں کی واٹر سپلائی سکیموں کی بحالی کے لئے لوگوں نے خود کا م کیا حکومت نے سیلاب میں مرنے والوں کے لئے 5 لا کھ روپے اور زخمیوں کے لئے 50 ہزار روپے دینے کا اعلا ن کیا تھا سودی قرضوں کی معافی کا وعد ہ کیا تھا گندم کی قیمت میں 50 فیصد رعایت سبسڈی کے لئے صوبائی اسمبلی میں قرار داد منظور ہوئی تھی اس کے باوجود تین مہینے گذرگئے سیلاب کے متاثرین کی بحالی پر ایک پائی خرچ نہیں ہوئی ؟ گذشتہ ایک ہفتہ کے اندر صوبے کے سب سے پُر امن ضلع چترال سے سیلاب متاثرین کی ہڑتال ،ریلی او رعوام کی طرف سے پرزور احتجاج اور روڈ بلاک کی خبریں اخبارات میں آرہی ہیں سب سے زیادہ اموات تحصیل موڑکھو میں ہوئی تھیں جہاں 32 افراد سیلاب کی زد میں آکر جان بحق ہوئے تھے موڑکھو میں لوگوں نے روڈ بلاک کر کے حکومت کے خلاف زبردست مظاہر ہ کیا کوہ کے عوام نے سیلاب متاثرین کی بحالی کے لئے روڈ بلاک کر کے احتجاج مظاہر ہ کرنے کی دھمکی دی ہے انجمن تحفظ حقوق سیلاب زدگان کے پلیٹ فارم سے سابق ایم این اے مولانا عبدالاکبر چترالی نے حکومت کو دو ہفتوں کی ڈیڈلائن دی ہے ضلع چترال میں700 گھرانوں کے 10 ہزار افراد کھلے آسمان کے نیچے سرکاری امداد کے منتظر ہیں حکومت نے ’’بحالی ‘‘ کا وعدہ کیا تھا اب یہ وعدہ ’’بے حالی ‘‘ کا وعدہ لگ رہا ہے کیونکہ سردی کا موسم آگیا ہے متاثرین کے سر پر چھت بھی چاہیے، متاثرین کو گرم بستروں کی بھی ضرورت ہے، آنے والی فصل کی بوائی کے لئے بیج کی بھی ضرورت ہے، کھانے کے لئے آٹا اور پکانے کے لئے برتن بھی مہیا ہونے چاہیں۔ حکومت کے پاس اب تک کوئی منصوبہ نہیں ہے فصلوں ، باغوں اور جنگلات کی تباہی کا سروے ابھی تک نہیں ہوا۔ جن گھرانوں کی فصل سیلاب میں پوری کی پوری بہہ گئی ان کانام کسی بھی فہرست میں شامل نہیں ہے اُ ن کے سروں پر چھت موجود ہے مگر اس چھت کے نیچے جلانے کی لکڑی نہیں ،پکانے کے لئے خوراک کا سارا سامان سیلاب بُرد ہوا ہے ،مال مویشیوں کا بھوسہ ، چارہ بھی سیلاب کی نذر ہوگیا۔ وزیر اعظم اور وزیراعلیٰ نے پیچھے مڑکر سیلاب سے متاثر ہو نے والے گھرانوں کا حال نہیں پوچھا۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ حکومت پُرامن عوام کو احتجاج ،ہڑتال ،جلوس ، روڈ بلاک اور تشدد پرکیوں اکسا رہی ہے کیوں مجبور کر ہی ہے؟ اگر یہ حکومت کے خلاف سازش ہے تو اس سازش میں کون سے عناصر ملوث ہیں؟ درد مند شہریوں اور باخبر لوگوں کو جس بات پر افسوس ہوتا ہے وہ بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس خفیہ اطلاعات کے ذرائع نہیں ہیں حکومت کے کان بہرے ہوئے ہیں اور حکومت کی آنکھوں میں موتیا اُتر آیا ہے عوامی مشکلات سے حکومت کو آگاہ کر نے کے لئے پارٹی کی سطح پر کوئی چینل نہیں ہے انتظامی مشینری کی طرف سے اطلاعات مہیا کر نے کا معقول انتظام نہیں ہے دُنیا اکیسویں صدی میں سانس لے رہی ہے مگر ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں اب بھی پتھر کے زمانے میں پڑی ہوئی ہیں 1987 ؁ء کے بلدیاتی انتخابات میں ایک معذور شخص نے کاغذات نامزدگی داخل کیے ریٹرنگ افیسر نے پوچھا تم دونوں ٹانگوں سے معذور ہو کس طرح کام کروگے ؟ معذور شخص نے کہا میں سب سے بہتر کام کروں گا اندھا قانون ہے بہری حکومت ہے لنگڑا چیر مین ہوگا تو بہترین کومبی نیشن بنے گا ہماری خیال میں موجودہ حالات کے اندر ایسا ہی کو مبی نیشن بن چکا ہے ورنہ 3 مہینوں کے بعد بھی سیلاب کے متاثرین کھلے آسمان کے نیچے بے یارو مد دگار ہوکر احتجاج پر مجبور نہ ہوتے 100 باتوں کی ایک بات یہ کہ حکومت نے سیلاب زدگان کی بحالی کا نہیں ’’ بے حالی ‘‘ کا وعدہ کیا تھا وعدہ پورا ہوگیا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button