کالمز

اُف! یہ چلاس ہے

چلاس شہر ضلع دیامر کا ہیڈ کوارٹر ہے۔ضلع دیامر کی تین تحصلیں ہیں۔ چلاس سب سے بڑی تحصیل ہے۔چلاس کے مضافات میں ہوڈر،تھور، تھک نیاٹ،گونرفارم، گوہرآباد،کھنر اور دیگر چھوٹے چھوٹے گاؤ ں اور وادیاںآباد ہیں۔یہاں جنگلات اور بنجرزمینوں کی بہتات ہے جو یہاں کے لوگوں کی ذاتی ملکیت ہیں۔فیری میڈو ،نانگا پربت اور بابوسرجیسی معروف سیاحتی مقامات بھی تحصیل چلاس میں ہے جہاں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کا تانتا بندھتا ہے۔

یہ 1993ء کی بات ہے جب میں گورنمنٹ پرائمری اسکول سٹیلائٹ ٹاؤن چلاس میں دوسری کلاس کا طالب علم تھا۔بچپن کے ایام تھے۔گلی کوچوں اور چوک چوراہوں میں گھومنے پھرنے کا اپنا ذوق ہوا کرتا تھا۔ پھر 1998ء میں چلاس ہائی اسکول میں کلاس اٹھاویں پڑھا کرتا تھا۔ وہاں سے تعلیم کے لئے کراچی سدھار گیا۔پھر ٹھیک سترہ سال بعد چلاس شہر کا جائزہ لینے کا موقع مل رہا ہے۔قارئین میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر پہلی محفل میں اس کی گنجائش نہیں۔ زندگی رہی توپھر کبھی تفصیلات سے آگاہ کرونگا۔ بہت سارے تلخ حقائق کا جائزہ لینا ہے۔ ان کو دبانے اور چھپانے کی بجائے منظر عام پر لانا مفید ہے۔شاید مجھ سے میرے چلاسی بھائی خفا ہوں لیکن میرا ضمیر کہتا ہے کہ ہمیں ان مسائل کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہیے اور مثبت حل کے لیے اقدامات کرنے ہونگے۔سردست چند باتیں عرض کیے دیتا ہوں۔

haqqani logo and pictureیہ سچ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ان سترہ سالوں میں چلاس جیسے معروف شہر میں کچھ بھی نیا دِکھائی نہیں دیتا۔وہی پرانے دفاتر اور ان کی ناگفتہ بے حالت،چلاس کا ٹاؤن ایریا بہت مختصر سا ہے مگر اس مختصر ایریاکی حالت کا جائزہ لیتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔روڈ کی جو حالت ہے اس پر تو کلام کی گنجائش ہی نہیں۔ ہر جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بڑے بڑے کھڈے آپ کا سامنا کریں گے۔عوام کا جم غفیر روڈ پر کھڑا ہونا اپنا دائمی حق سمجھتے ہیں۔درمیان سڑک پر گاڑی روک کرگپ شپ لگانا اور گزرتی گاڑیوں کا راستہ روکنا کسی طور معیوب نہیں سمجھا جاتا۔پورے ملک میں واحد چلاس بازارہے جہاں لوگ بے مقصد گھوم پھر رہے ہیں۔گھروں کے بجائے ہوٹلوں اور چائے خانوں کو آبادکرنالوگوں کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ سرکاری دفاتر کا جائزہ لیاجائے تو وہاں کے کرتے دھرتاؤں کی حالت دیکھ کر کف افسوس ہی مَلا جاسکتا ہے۔چلاس وہ برمودہ تکون(ٹرائی اینگل) ہے جہاں ہر ایماندار آفیسرغائب ہوتا ہے۔ اس کی غیبوبت میں عوام کے ساتھ خواص کا بھی عملی کردارہوتا ہے۔پولیس گردی معمول کی بات ہے ۔عوام تو عوام سرکاری دفتروں میں گھس کر بے قصور لوگوں کو مارمارکر لہولہان کرنا ان کے لیے تفریح طبع کا باعث ہے۔ڈی ایس پی لیول کے لوگ آن ڈیوٹی ملازمین کو مار مارکر کچومر بنادیتے ہیں اورا ن سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں۔پولیس کی نااہلی کا اس سے بڑا کیا ثبوت چاہیے کہ ایک معصوم بچے کو اغوا کیا گیا اوروحشانہ قتل کردیا گیا اور اس کے تین ہفتے بعد جنات کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی۔پوری دنیا جانتی ہے کہ پولیس کی نااہلی ا ور غیر ذمہ داری کی وجہ سے دیامر کی سرزمین پر کیسے کیسے دردناک اور اندوہناک واقعات پیش آئے۔

انتہائی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ پورے چلاس بازار میں کوئی اصلی چیز نہیں ملتی۔ جعلی اشیاء نے لوگوں کی زندگی تباہی کے دھانے کھڑی کر دی ہے۔ڈھونڈنے سے بھی اوریجنل دوا نہیں ملتی۔ہر دوسرے آدمی کے زبان پر یہ بات عام ہے کہ چلاس شہر میں اصلی اور اوریجنل دوا نہیں ملتی۔مقام افسوس یہ ہے کہ اس جعلسازی پر نوٹس لینے کی لیے کوئی ادارہ تیار ہی نہیں۔اگر کوئی اعلیٰ آفیسر انکوائری کروالیتا ہے تو ڈرگ مافیا اتنی مضبوط ہے کہ لیبارٹریوں سے ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کا رزلٹ تیار کرواتی ہے اور وہ آفیسر بے بس ہوجاتا ہے۔چلاس کی تعلیمی صورت حال پر اس لیے بات نہیں کرونگا، کیونکہ اس کے لیے مستقل الگ کالم کی ضرورت ہے۔ اتنا عرض کردینا کافی ہے کہ اکلوتامعروف پبلک اسکول بھی کوئی معیاری تعلیمی ادارہ نہیں۔ باقی اسکولوں و کالج کی حالت کا آپ خود اندازہ لگالیجیے۔کیا یہ کسی المیے سے کم ہے کہ کیڈیٹ کالج کو ٹاؤن ایریا چلاس میں نہیں بننے دیا گیا۔ تعلیم دشمنی کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت چاہیے۔کوئی قابل ذکر دینی تعلیمی ادارہ بھی نہیں۔ وہی پرانی روش، وہی پرانا انداز۔یعنی آئین نو سے ڈرنا، طرز کہن پہ اَڑنا۔تاہم زیروپوائنٹ چلاس کے قریب ڈسر تھک میں چند جید علماء کرام نے ایک جامعہ فیض العلوم کے نام سے ایک منظم دارالعلوم کی داغ بیل ڈالی ہے اور جدید انداز میں خدماتِ دین انجام دے رہے ہیں۔

ایک چیز میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ 1993ء میں شاید پورے چلاس میں دو چار بینکوں کی برانچیں تھی آج شہر چلاس میں ہر بینک کی برانچ اپنی آن و شان کے ساتھ موجود ہے۔ اس کو ترقی کا عمل قطعا نہیں کہا جاسکتا بلکہ یوں کہہ لیجیے کہ دیامر بھاشا ڈیم کا بے تحاشا پیسہ ضلع دیامر کے عوام کو موصول ہوا ،تو پرائیوٹ بینکوں کے مالکان نے ہنگامی بنیادوں پر بینک برانچیں کھولیں تاکہ عوام کا پیسہ انہیں کے برانچوں میں رکھا جاسکے۔اور وہ سود کی مد میں زیادہ سے زیادہ کمالیں۔ڈیم کی رقم نے لوگوں کو حواس باختہ کردیاہے تاہم یہ حقیقت آنکھوں سے اوجھل نہ رہے کہ اس حواس باختگی کی عمر انتہائی کم ہے۔

ڈیم اور جنگلات کی مدمیں وصول ہونے والی رقم سے کوئی تعلیمی ادارہ اور رفاہی ادارہ بنانے کی بجائے مہنگی ترین گاڑیاں خرید کر مہنگے ترین ہوٹلوں میں عیاشیاں کرناافتخار سمجھا جاتا ہے اور اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جاتا ہے۔دیامر بھاشا ڈیم کی سردست جو ادائیگیاں ہوئی ہیں اس میں عوام کے ساتھ بے تحاشا ظلم ہوا ہے۔2007ء کا ریٹ دیا گیا ہے۔ کمرشل ایریا جہاں فی کنال نوے لاکھ سے مہنگا ہوگیا ہے وہاں ڈیم کی متاثرہ زمین میں فی کنال19لاکھ کی ادائیگیاں ہوئی ہیں۔ یہ سب کچھ عوام میں نااتفاقی اور آپس کی چپلقشوں کی وجہ سے ہوا ہے۔سرکار بھی اپنا ہاتھ ضرور دکھاتی ہے مگر اس ظلم میں خود عوام اور مختلف قبائل کا ہاتھ ہے۔ اور ترقیاتی سکیموں میں بے ضابطگیوں اور گھپلوں کی کہانیاں…؟

اُف!اس ساری صورت حال پرممبر ان اسمبلی اور وزراء بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔کیونکہ وہ خود بھی توحصہ دار ہیں نا۔

چلاس میں کئی ہفتے بیت گئے مگر کوئی ثقا فتی و تہذیبی تقریب دیکھنے کو نہیں ملی۔ سنا ہے کہ کچھ ادبی و ثقافتی تنظیمیں کام کررہی ہیں مگر دیکھنے سے بھی ان کاوجود دکھائی نہیں دیتا۔صحافتی و ابلاغی حالت بھی کوئی قابل بیان نہیں، یہ الگ بات ہے کہ چند صحافی اپنی بساط سے زیادہ اکٹیو نظرآتے ہیں ۔ یہ ان کی اپنی عظمت ہے۔صفائی کا نظام انتہائی ناقص ہے۔ایک ذمہ دار آفیسر نے بلدیہ چلاس کے ذریعے پورے ٹاؤن ایریا میں کوڑے دان لگوائے تھے ۔ ان میں کچراڈالنے کے بجائے توڑ کر اپنی گائے بکریوں کے لیے کھرلیا ں بنائی گئی۔پھر بھی ہم کہتے نہ تھکتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے۔شاید یہ ہمارا دشمن انگریز کے لیے نصف ایمان ہو۔

؂ آ! عندلیب مل کر کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار، میں چلاوں ہائے دل

بہر صورت بہت سارے ایسے ایشوز ہیں جن پر تفصیل سے لکھنے کی اشد ضرورت ہے۔معاشرت کی تباہی پر، ثقافت کی لاچارگی پر، ادب و صحافت کی بے لطفی پر، طرز زندگی کی بے ہودگی پر، قانون کی علمبرداری پر،بنتے بگڑتے رویوں پر،تعلیم و تربیت کی زبوں حالی پر،اشیاء صحت و خوردنوش کی جعلسازی پر،امانت و دیانت کی بے مائیگی پر، دینی و علاقائی اقدار سے بے گانگی پر،حقوق انسان کی پامالی پر،تمدنی زندگی میں بے پروائی پر،احساس و ذمہ داری میں بدلحاظی پر،ظلم وستم کی بڑھوتگی پر ، عدل و انصاف کی لاچارگی پر،روایات و مہمان نوازی کی تنزلی پر،اپنوں کی ریشہ دوانیوں پر اور غیروں کی بے رعنائیوں پر اوران جیسے سینکڑوں موضوعات ہیں جن کو مفصل بیان کرنا مقتضائے وقت ہے۔ہر فرد کو احساس ہے کہ ہم تباہی کے دھانے پر کھڑے ہیں مگر وہ بھی سوسائٹی کی لَے میں لَے ملائے زندگی کا پہیہ چل رہا ہے اور درون خانہ کڑھ رہا ہے۔

ٍ ایک انتہائی ذمہ دار شخص تکرار کے ساتھ دھراتا ہے کہ ’’چلاس میں باجماعت نماز پڑھو اور سنت کے مطابق داڑھی رکھو اور اس کے بعد جو چاہیے کرلو ، یہاں کے لوگ آپ کے فین بن جائیں گے اور اگر کہیں مسائل کھڑے ہوں تو مولویوں کا سہارا لو‘‘۔یہ وہ تلخ حقائق ہیں جن کا انکار ممکن نہیں۔اس حوالے سے ایک زبردست سماجی و معاشرتی اور اخلاقی و روحانی انقلاب کی ضرورت ہے اور اس کے ساتھ لاء اینڈ آرڈر کو بھی بھرپور طاقت کے ساتھ بروئے کار لایاجانا چاہیے۔چلاس کے اہل علم وقلم سے گزار ش ہے کہ معاشرے کے ان رَستے ہوئے ناسوروں کو بلاکم وکاست منظر عام پر لائیں۔علماء کرام و دانشوران عظام اپنی تقریر وتحریر اور وعظ و نصیحت میں قران و حدیث کی روشنی میں ان رویوں کی سخت مذمت کریں اور ساتھ ہی انتظامیہ قانون کی علمبرداری کو ہر حال میں یقینی بنائے۔بہر حال ان رویوں کی بیخ کنی ضروری ہے ورنہ آنے والی نسلوں کو برے نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ اللہ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button