کالمز
اُف! یہ چلاس ہے


یہ سچ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ ان سترہ سالوں میں چلاس جیسے معروف شہر میں کچھ بھی نیا دِکھائی نہیں دیتا۔وہی پرانے دفاتر اور ان کی ناگفتہ بے حالت،چلاس کا ٹاؤن ایریا بہت مختصر سا ہے مگر اس مختصر ایریاکی حالت کا جائزہ لیتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔روڈ کی جو حالت ہے اس پر تو کلام کی گنجائش ہی نہیں۔ ہر جگہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بڑے بڑے کھڈے آپ کا سامنا کریں گے۔عوام کا جم غفیر روڈ پر کھڑا ہونا اپنا دائمی حق سمجھتے ہیں۔درمیان سڑک پر گاڑی روک کرگپ شپ لگانا اور گزرتی گاڑیوں کا راستہ روکنا کسی طور معیوب نہیں سمجھا جاتا۔پورے ملک میں واحد چلاس بازارہے جہاں لوگ بے مقصد گھوم پھر رہے ہیں۔گھروں کے بجائے ہوٹلوں اور چائے خانوں کو آبادکرنالوگوں کی فطرت ثانیہ بن چکی ہے۔ سرکاری دفاتر کا جائزہ لیاجائے تو وہاں کے کرتے دھرتاؤں کی حالت دیکھ کر کف افسوس ہی مَلا جاسکتا ہے۔چلاس وہ برمودہ تکون(ٹرائی اینگل) ہے جہاں ہر ایماندار آفیسرغائب ہوتا ہے۔ اس کی غیبوبت میں عوام کے ساتھ خواص کا بھی عملی کردارہوتا ہے۔پولیس گردی معمول کی بات ہے ۔عوام تو عوام سرکاری دفتروں میں گھس کر بے قصور لوگوں کو مارمارکر لہولہان کرنا ان کے لیے تفریح طبع کا باعث ہے۔ڈی ایس پی لیول کے لوگ آن ڈیوٹی ملازمین کو مار مارکر کچومر بنادیتے ہیں اورا ن سے پوچھ گچھ کرنے والا کوئی نہیں۔پولیس کی نااہلی کا اس سے بڑا کیا ثبوت چاہیے کہ ایک معصوم بچے کو اغوا کیا گیا اوروحشانہ قتل کردیا گیا اور اس کے تین ہفتے بعد جنات کے خلاف ایف آئی آر درج کرلی گئی۔پوری دنیا جانتی ہے کہ پولیس کی نااہلی ا ور غیر ذمہ داری کی وجہ سے دیامر کی سرزمین پر کیسے کیسے دردناک اور اندوہناک واقعات پیش آئے۔