میڈیا رپورٹ کے مطابق سنیٹر رحمان ملک نے حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ اقتصادی راہداری کی راہ میں حائل رکاوٹوں اور یہاں کے عوام میں بڑھتی ہوئی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے وٖفاق کو چاہئے کہ ریفرنڈم کے ذریعے گلگت بلتستان کو پاکستان میں شامل کرنے کیلئے کوشش کریں۔مجھے نہیں معلوم کہ اس بیان پر کس حد تک عمل درآمد ہونگے لیکن اتنا ضرور کہوں گا کہ یہی بات اگر ہمارے خطے سے کوئی اُٹھ کر کہے تو یقیناًناقابل برداشت ہوگی کیونکہ ہمارے ہاں بقول قاری حفیظ صاحب کے
تعمیری تنقید کو ویلکم اور ریاست کے خلاف کسی بھی قسم کی باتیں کرنے والے(یعنی سچ بولنے والے) غدارکہلائیں گے غداری کا مہر لگنے کی اسی خوف نے آج گلگت بلتستان کے صحافیوں اور دانشوروں کو اس طرح کے اہم قومی ایشو پر لب کشائی سے دور رکھاہوا ہے۔ بدقسمتی سے ہم وہ بات بھی نہیں کہہ سکتے جو وفاقی وزارء ،کشمیری رہنما اور ترجمان وزارت خارجہ وغیرہ گلگت بلتستان کے حوالے سے کرتے ہیں۔
اگر ہم پچھلے ایک سال کے اخبارات اُٹھا کر دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وفاق اور کشمیر سے تعلق رکھنے والے کئی اہم شخصیات گلگت بلتستان کی شناخت اور آئینی حیثیت کے حوالے سے وہ باتیں کر بیٹھے ہیں جو ہم یہاں کے باشندے اگر کریں تو ہمارے اوپر نہ جانے کونسے ملک اور ایجنسیوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگ جائے۔لہذاہم صرف پچھلے پانچ سال کے دوران وفاق کی طرف سے گلگت بلتستان کے حوالے سے جاری ہونے والے سرکاری اور غیر سرکاری بیانات کی بنیاد پر یہ کہیں تو شائد غداری کا الزام لگنے سے بچ جائے کہ گلگت بلتستان دراصل ایک متازعہ حیثیت رکھتا ہے۔اس ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا بھی کوئی قانونی ثبوت موجود نہیں لیکن چند لوگوں کی سازشوں نتیجہ ضرور کہہ سکتے ہیں جس کہ بنیاد پر گلگت بلتستان آج بھی آئینی اور سیاسی حقوق سے محروم ہیں جس کا اب سدباب ہونا ضروری ہے کیونکہ یہ محرومی اب ایک لاوا کی شکل اختیار کر چکی ہے ہماری قانونی حیثیت اور پاکستان کیلئے گلگت بلتستان کی وجہ سے پہنچنے والے سیاسی ،جعرافیائی اور دفاعی فوائد دنیا کے کئی اہم ممالک سے برداشت نہیں ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ اس وقت گلگت بلتستان ایک طرح این جی او کالونی بنا ہوا ہے جو نام کچھ اور کام کچھ کرتے ہیں اور ایسے کاموں کیلئے ہمارے اپنے لوگوں کواستعمال کرنے کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ لہذا وفاق پاکستان کو اب اس اہم مسلے پر سنجیدگی سے سوچ بچار کرنا ہوگا۔
وفاقی وزارء کو متنازعہ بیانات دیکر معاملے کو مزید خراب کرکے دشمنوں کو موقع فراہم کرنے کے بجائے اب اقوام متحدہ کے قوانین اورانقلاب گلگت بلتستان کے پس منظر کو ذہین میں رکھ کر فیصلے کرنے ہونگے اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ جس نظام کو وفاق نے صوبائی حکومت کا نام دیکر گلگت بلتستان میں نافذ کیا ہوا ہے اس نظام کے تحت کام کرنے والوں جس طرح قانون سازی کیلئے ایک خاص ڈگری تک اختیار حاصل ہے بلکل اسی طرح ریاستی حقوق کے حوالے سے بھی انکے منہ کو لگام دینے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ شاہ سے ذیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں ۔
اب اگر ہم واپس ریفرنڈم کے حوالے سے بات کریں تو یہ بہترین فیصلہ ہوگا اور پاکستان کو اس حوالے سے مخلص ہو کر گلگت بلتستان کیلئے مراعتی اور خودمختاری پیکج تیار کریں کیونکہ آج تک جو نظام یہاں کام کر رہے ہیں اُس نظام سے کچھ خاندان کے علاوہ عوام مستقفید نہیں ہو پارہے ہیں انہی چند مخصوص مراعات یافتہ لوگوں کی وجہ سے آج گلگت بلتستان کے عوام غربت کی لیکر سے بھی نیچے کی زندگی گزارنے پر مجبور ہے جبکہ غیرمقامی لوگ حکومتی اراکین اور اہل سیاست سے ملکر ہمارے وسائل کو مال غنیمت سمجھ کر لُوٹ رہے ہیں۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے حقوق پر کسی بھی قسم کی سودا بازی نہ ہو کیونکہ یہ ریفرنڈم بھی ایک طرح سے پاکستان کی ایک اہم ضرورت ہے کیونکہ اکنامک کوریڈور کی تکمیل کیلئے گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت پاکستان کیلئے ایک پیچیدہ مسلہ ہے لہذا شائد اب وہ وقت آن پونچا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام بھی نصف صدی سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد کسی ملک کا قانونی شہری کہلائیں گے ۔کارگل سے لیکر ساچن تک کے ٹو سے لیکر مونٹ ایورسٹ تک پاکستان کیلئے خدمات انجام دینے والے ہمارے ان ہیروز اب قانونی وفادارکہلائیں گے۔بس گزارش یہی ہے کہ ہمارے عوام کو اپنے فیصلے بغیر کسی دباو اور جبر کے شفاف طریقے سے کرنے کیلئے اقوام متحدہ کو ثالت کے طور پر دعوت دینے کی ضرورت ہے تاکہ مسقتبل میں بھارت یاکوئی اور ملک اس حوالے سے کسی بھی قسم کے جارحانہ بیانات دینے باز رہیں۔اگر ایسا ہوا تو انشاللہ وہ دن دور نہیں کہ قدرتی وسائل سے مالا مال اس خطے سے پاکستان سمیت باہر کے دنیاکو بھی فائدہ پونچا سکیں گے یہاں کے عوام کو گندم سبسڈی پرگزارہ کرنے کے بجائے خود سے گندم کاشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوجائے کیونکہ اس وقت بدقسمتی سے زراعت کے حوالے سے نعرے تو خوب لگ رہے ہیں لیکن زراعت کیلئے کوئی خصوصی بجٹ نہیں اسی طرح سیاحت کا شعبہ تو سُکڑ کر لاغر ہوچکی ہے اس اہم شعبے میں جان آجائے اور اس جنت نظیر خطے میں دنیا بھر کے سیاحوں دروازے کھل جائے جو بغیر کسی خوف خطر کے یہاں سیاحت کر سکے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وفاق میں بیٹھے تھینک ٹینکس اس حوالے سے کب فائنل فیصلہ کرتے ہیں کیونکہ گلگت بلتستان عوام تو اس ریفرنڈم کیلئے بے تابی سے انتظار کر رہے ہیں کیونکہ بیس لاکھ عوام آج مخصوص نام نہاد سیاسی بہرپیوں کی جال میں اتنا پھنسا ہوا ہے کہ ہم ایک زخمی عقاب کی طرح اپنے قومی وقار کو سوچتے ہوئے اپنی بے بسی پر رو رہے ہیں۔ یہاں آج تک وفاق کی طرف سے جو بھی بجٹ منظور ہوئے وہ عوام فلاح کیلئے کم بلکہ سیاست دانوں کی ترقی پر ذیادہ استعمال ہوئے ہیں جس کا واضح ثبوت تباہ حال انفراسٹکچر،تباہ حال سرکاری ادارے،گلگت سکردو روڈ، محکمہ پی ڈبلیو ڈی، ٹوورازم ڈیپارٹمنٹ کے خستہ حال موٹلز اور گلگت اورسکردو بازار کی سڑکیں،اراکین قانون ساز اسمبلی کے بنگلوز ، کاروبار اور نووارد قاری صاحب کے بدلتے ہوئی انداز شہنشاہی ہیں۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمارے عوام اور سیاست دانوں صحافیوں کو سچ بول کر جینے کی توقیق عطا فرمائے۔