کالمز

تعلیم و تدریس میں کہانیوں کی اہمیت

محمدعلی عنایت شاہ

Muhammad Ali

ایک دفعہ کا ذکر ہے“……”ایک ۔۔۔ ہوا کرتا تھا“۔ یہ ایسے جملے ہیں جن کو سنتے ہی ہمارے ذہنوں میں فوراً بچپن میں سُنی ہوئی کہانیوں کی آواز گونجنے لگتی ہے اور تصور میں کہانی سنانے والوں کی تصویر محوِ رقص ہوتی ہے۔ یقینا یہ کہانیوں کی وہ تاثیرہے جو ہمارے ذہنوں پر نقش ہو کر زندگی کے حصے بن جاتی ہیں۔

قصہ گوئی یا کہانی سنانا ایک ایسا فن ہے جس میں الفاظ، تصویر اور آواز کے ذریعے ایک حقیقی یا افسانوی واقعہ کی نقشہ کشی یا عکاسی کی جاتی ہے۔ کچھ کہانیاں صرف تفریحی مقاصد کے لیے ہوتے ہیں جبکہ اکثر کہانیاں سبق آموز ہوتی ہیں اور اخلاقی قدریں بیان کرتی ہیں۔

تاریخی اور علمی اہمیت

فن تحریر کے وجود میں آنے سے قبل اقوام یا افراد قصہ گوئی کے ذریعے اپنی روایات اور ورثے کو اپنے آنے والی نسلوں تک پہنچاتے تھے۔ کہانیوں نے نہ صرف تاریخ کو محفوظ کرنے کا کام سرانجام دیا بلکہ ایک نسل سے دوسری نسل میں زندگی کے تجروبات منتقل کرنے اور تہذیبوں کو زندہ رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کیا۔رسمی نظام تعلیم کے وجود میں آنے سے قبل کہانیاں ہی اخلاقی اور معاشرتی اقدار کی تعلیم کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ لہٰذا اگر کہانی سنانے کے رواج کو ابتدائی ذریعہ¿ تعلیم اور طریقہ¿ تدریس کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ کہانیوں کا راوج نہ صرف ماضی میں مقبول تھا بلکہ آج بھی تقریباً تمام معاشروں میں بھی موجود ہے اور انھیں اہمیت دی جارہی ہے۔

مذاہب عالم اور تہذیبوں کے مطالعے سے یہ بات عیاں ہو جا تی ہے کہ مختلف مذاہب اور تہذیبوں نے اپنے اخلاقی اقدار اور اصولوں کا بیان اور تشہیر کے لئے کہانیوں کا راستہ اختیار کیا۔ اور یہی کہانیاں اور اساطیر ان کے عقائد اور اخلاقی قدروں کی ترجمانی کرتے ہےں۔ اور ان تہذیبوں اور مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کہانیوں کے ورثے کو محفوظ رکھےں اور اس روایت کو اپنے آنے والی نسلوں میں منتقل کرے۔

مسلمانوں نے جہاں دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں اہم تخلیقات کیں وہاں کہانیوں اور حکایات کا ایک بیش بہا ادب بھی تخلیق کیا جو نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ دوسری قوموں میں یکساں طور پر آج بھی مقبول ہیں۔ جن میں مولانا رومی اور شیخ سعدی کی حکایات، اخوان صفا کی کہانیاں، کلیلہ و دمنہ اور دوسرے قصے شامل ہیں۔ اور سالہاسال یہ کہانیاں اور حکا یتیں مسلمانوں کی رسمی اور غیر رسمی تعلیم کا حصہ رہے ہیں۔کہانیوں کی افادیت اور تاثیر کو مدنظر رکھتے ہوئے آج بھی ماہرین تعلیم کہانی سنانے کو ایک اہم طریقہ¿ تدریس قرار دیتے ہے۔ بلکہ ابتدائی تعلیم کے نصاب کو کہانیوں کے بغیر نامکمل سمجھا جاتا ہے۔

ابتدائی تعلیم اور کہانیاں

ہماری ذاتی تجروبات اور ماہرین کی تحقیق سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ابتدائی عمر میں سنی ہوئی کہنانیوں کا ہماری شخصیت پر گہری اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ کہانیوں کی مدد سے بچوں کے اندر مخفی صلاحیتوں اور مہارتوں کو اجا گر کیا جاسکتا ہے۔ کہانیاں کے ذریعے تعلیم صرف سکول تک محدود نہیں ہوتا بلکہ اس کا شروعات گھر میں بہت ابتدائی عمر سے ہوتا ہے۔ آج کل بچے چونکہ بہت جلد مختلف ناموں سے سکول جاتے ہیں مثلا کندڑ گارڈن(kinder Garden) ، مونٹسوری ، یا ای سی ڈی وغیرہ۔ ان ابتدائی نظام تعلیم میں کہانیوں کو خاصی اہمیت دی جاتی ہے اور نصاب کا اہم حصہ قرا ر دیا جاتا ہے۔

کہانیاں کیوں اہم ہیں ؟

٭۔ کہانیاں دلچسپ ہوتی ہیں اس لیے بچے شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں ۔

٭۔ کہانیاں بچوں کے تخیلات کو وسعت دینے میں مددگار ہوتی ہیں۔ جس سے ان کی تخلیقی صلاحیت بڑھ جاتی ہے۔

٭۔ ان سے زبان فہمی میں بہتری آتی ہے۔

٭۔ ان سے بچوں کے ذوق جمالیات (aesthetic sense)میں اضافہ ہوتا ہے۔

کہانیوں کے ذریعے مشکل اور مجرد تصورات(abstract concepts) کو سمجھانے میں مدد ملتی ہے۔

کہانیوں کو کیسے پڑھایاجائے؟

کہانیوں کو پڑھانے اور پیش کر نے کے لیے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں۔ ان میں سے چند مختصراً یہاں بیاں کیے جاتے ہیں۔

(۱)کہانی سنانا: یہ ایک روایتی طریقہ ہے کہ ٹیچر کہانی خود پڑھ کر سناتا یا سناتی ہے اور بچے سنتے ہیں۔اس طریق¾ہ تدریس میں بچے صرف سنتے ہے۔اس طریقہ میں ٹیچرکو زبان، تلفظ اور حرکات و سکنات کا زیادہ خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ بچے اس ایک طرفہ عمل میں دلچسپی کم لینگے۔

(۲) بچوں سے پڑھوانا:اس طریقہ میں ٹیچر کہانی سنانے سے پہلے بچوںکو تیاری کیلیے وقت دیتاہے اور بعد میں بچوں سے کلاس کے سامنے زور سے پڑھنے کے لیے کہتا ہے۔

(۳ )کہانی پر غور: ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ٹیچر کہانی کو ریکارڈ کرکے کلاس میں بچوں کو ٹیپ ریکارڈر کے ذریعے سنا دے۔سنانے سے پہلے بچوں کو کہانی سے متعلق سولات پہلے دینا چاہئے۔تاکہ بچے توجہ کے ساتھ سنے۔

(۴) کہانی کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنا: ایک اور طریقہ جو آج کل بہت مقبول ہے وہ یہ ہے کی کہانی کو ڈرامے کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے۔جس میں بچے جسمانی لحاظ سے شرکت کرتے ہے۔ اس طریقہ میں ٹیچر اور طلبہ دونوں کو زیادہ محنت اور تیاری کی ضرورت ہوتی ہے۔

(۵) تصویری کہانی: طلبہ کو کوئی تصویر دکھا کر ان سے کہانی تیار کرنے کے لیے کہا جائے۔بچے اپنے تخیل استعمال کر کے کہانی تیار کرتے ہے۔ یا اس کے بر عکس سنائی گئی کہانی کو تصویری صورت میں پیش کرنے کو بھی کہا جاسکتاہے۔

(۶)فلمی کہانی: آج کل بہت سی کہانیوں کو فلمایا گیا ہے ۔ اگر ٹی وی یا ملٹی میڈیا کی سہولت موجود ہوں تو بچوں کو دیکھایا جاسکتا ہے۔ اور بعد میں بچوں کے ساتھ اس کہانی پر گفتگو کی جاسکتی ہے۔

کہانی پڑھاتے وقت کن باتوں کا خیال رکھا جائے؟

٭۔ کہانی پڑھانے سے قبل مقصد(objective) کا تعین ضروری ہے، یعنی کہانی صرف تفریح کے لئے نہ ہو بلکہ اس میں طلبہ کے علم (knowledge)، ہنر (skill) اور رویہ (attitude) میں بہتری لانا مقصود ہو۔

٭۔ کہانی کا انتخاب بچوں کی عمر اور ذہنی سطح کے مطابق ہو۔

٭۔ کہانی پڑھاتے وقت کہانی کا مرکزی خیال اور اخلاقی نکات واضح ہو اور بار بار طلبہ کی توجہ انکی طرف مبذول کیا جائے۔

٭۔ کہانی کو ڈرامائی انداز میں پیش کرنے سے قبل بچوں کو تیاری کے لیے مناسب وقت دیا جائے اور ٹیچر کو چاہئے کہ وہ تیاری کے دوران بچوں کی مدد کرے۔

٭۔ کہانی پڑھاتے وقت تمام بچوں کو سرگرمیوں میں حصہ لےنے کی حوصلہ افزائی کی جائے اور خاص طور پر خاموش اور شرمیلے بچوں کو زیادہ سے زیادہ موقع دیا جائے تاکہ ان میں خود اعتمادی آجائے۔

الغرض کہانی یا قصہ گوئی جہاں تاریخی طور پر ایک اہم ذریعہءتعلیم رہا ہے وہاں جدید تحقیق نے بھی اس کو ایک مو¿ثر طریقہ¿ تدریس قرار دیا ہے۔ خاص طور پر پرائمری سطح پر کہانیوں کو نصاب کا ایک اہم حصہ سمجھا جاتاہے۔ اخلاقی اور سماجی تعلیم میں کہانیوں کی اہمیت اور زیادہ ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں بچوں کی اخلاقی تربیت اور کردار سازی ایک اہم مقصد ہوتا ہے اور کہانیوں کو اس مقصد کے حصول میں ممد و معاون تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس ضمن میں ضروری ہے کہ کہانی کے مو¿ثر تدریس کے لئے ٹیچر ز یا والدین کے پاس مناسب علم،تجربہ اور مہارت موجود ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button