کالمز

علقش وزیر اور بزر جمہر

محمد ذاکر خان ہنزائی 

کیقباد مدائن کا بادشاہ تھا اور علقش اسکا وزیر۔علقش کا ایک دوست تھا بخت جمال۔بخت کی شادی جماس حکیم کی بیٹی سے ہوئی تھی۔جماس حکیم نے جماس نامہ نام کی ایک کتاب لکھی تھی۔جو اس نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دے دی ۔ بیٹی نے کتاب اپنے شوہر کو د کھائی جو اسے پڑہنے اور سمجھنے سے قاصر رہا کیونکہ کتاب اشاروں کی خفیہ زبان میں تھی۔ بخت جمال کتاب لے کر ایک عالم کے پاس چلا گیا۔ عالم بھی اسے نہ پڑھ سکا۔تنگ آکر بخت جمال جماس نامہ وہیں چھوڑ آیا۔

بخت جمال اور علقش وزیربچپن کے دوست تھے۔علقش جب بھی بادشاہ کو سلام کرنے جاتا اپنے دوست کے پاس سے ہو کر جاتا۔دونوں ایک دوسرے پر جان چھڑکتے تھے۔

ایک روز علقش جب بخت جمال سے ملنے گیاتو اسے عجیب سی نظروں سے دیکھنے لگا۔ بخت جمال نے پریشان ہو کر پوچھا تم مجھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو؟ علقش نے کہا میرے دوست مجھے تمھارے چہرے پر موت کے سائے نظر آ رہے ہیں۔ تم بہت جلد مرنے والے ہو۔ میں یہ تمہیں ستاروں کاعلم جاننے کی وجہ سے بتا رہاہوں۔ جمال نے کہا میں جانتا ہوں تمہارا قیافہ غلط نہیں ہوگا۔لیکن موت سے بچنے کی کوئی صورت ہے یا نہیں۔

موت سے بچنے کی ایک صورت ہے اسکے لئے ہم دونوں مل کر کچھ کریں گے۔علقش نے جواب دیا۔میرے دوست اب تم وہی کروگے جو میں کہونگا۔چالیس دن تک تم اپنے گھر میں بند رہوگے۔نہ تم کسی سے بات کروگے اور نہ کوئی اور تم سے بات کریگا۔نہ تم کسی کے چہرے پر نظر ڈالوگے نہ کوئی اور تمہاری طرف دیکھے گا۔چالیس دن کا یہ چلہ کامیابی سے کاٹ لیا تو زندگی بچ جائیگی۔ایک دن کی بھی کمی بیشی ہو گئی تو موت یقینی ہے۔بخت جمال خوش ہوکر اس چلے کیلئے تیار ہوگیا۔

اس سے پہلے کہ چلہ شروع کرو اپنی بیوی کو بلاؤ ۔میں اسے چند ہدایات دینا چاہتا ہوں۔بیوی سے علقش نے کہا کہ تمہارے شوہر کی جان خطرے میں ہے۔ اپنی جان بچانے کی لئے اسے ایک چلہ کاٹنا ہے اور تم نے اس میں اس کی مدد کرنی ہے۔ بخت جمال کو ہم مکان کے نچلے حصے میں چالیس دن کے لئے بند کر دینگے۔تم اوپر کے برآمدے میں رہوگی۔وہاں سے تم اسے چمنی کے ذریعے رسی سے باندھ کرکھانا دوگی۔اس سے بالکل بات نہیں کروگی اور نہ اس کی طرف دیکھوگی۔کھانا کھا کر برتن اسی رسی سے باندھ دئے جائیں گے اور تم انہیں اوپر کھینچ لوگی۔

بخت تمہارا چلہ شروع ہوا۔میں تمہیں گھر میں بند کر رہا ہوں ۔تم اپنے طور پر دن گننا شروع کرو اور میں باہر گنتا رہونگا۔ یہ کہ کر علقش نے بخت جمال کو گھر میں بند کرکے تالہ لگا دیا اور چابی لے کر اپنے گھر چلا گیا۔گھر پہونچ کر اس نے چالیس کنکریاں گنیں اور ایک برتن میں ڈال دیں ۔ایک اور برتن قریب رکھ لیا تاکہ ایک ایک دن گن کر کنکر دوسرے برتن میں ڈالتا رہے۔ادھر بخت جمال نے دیوار پر نشان لگاکر دنوں کو گننا شروع کر دیا۔

دونوں نے اپنے اپنے طور پر چالیس دنوں کی گنتی مکمل کر لی لیکن خدا کا کرنا یوں ہوا کہ دونوں کی گنتی ایک دن کی کمی سے غلط ہو گئی جس کا علم انہیں نہ ہو سکا۔

512RD78JQvL._SX316_BO1,204,203,200_علقش وزیر اپنی گنتی کے مطابق بخت جمال کے گھر پہنچ گیا۔تالہ کھولا اور دوست کو باہر نکالا۔ پوچھنے پر دوست نے بتایا دنوں کی گنتی اسکے حساب سے بھی درست ہے۔ علقش نے دوست کے ہاتھ چومے اور اسے زندگی بچ جانے پر مبارکباد دی۔ بخت جمال نے کہا کہ چالیس دن کی قید سے رہائی کے بعد تھوڑا گھومنے کو جی چاہ رہا ہے۔ علقش وزیر نے کہا ٹھیک ہے اور دونوں چلتے چلتے کافی دور نکل گئے۔بخت جمال ایک جگہ رک گیا اور کہنے لگا تم یہیں ٹہرو میں ان جھاڑیوں میں رفع حاجت سے فارغ ہو کر آتا ہوں۔مناسب جگہ دیکھ کر وہ ایک طرف بیٹھ گیا۔ اس دوران اس کی نظر سامنے پڑی تو ایک دروازہ نظر آیا۔ وہ فارغ ہوکر اس دروازے کی طرف چلا گیا۔ دروازے میں قفل پڑا ہوا تھا اور چابی بھی ساتھ لٹکی ہوئی تھی۔چابی گھمائی دروازہ کھولا تو دیکھا اندر سونے کا ایک بہت بڑا ڈھیر لگا ہوا ہے۔ اتنا سارا سونا اس نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔لگتا ہے مجھے سلیمان کا خزانہ مل گیا ہے،اس نے خو د کلامی کرتے ہوئے کہا۔میں اس خزانے میں اپنے دوست کو بھی شریک کرونگا۔ اس نے سوچا۔

بخت جمال نے آگے بڑھکر علقش کو آواز دی اور بلا لیا۔ اتنا سارا سونا دیکھ کر علقش کی نیت خراب ہو گئی۔اس نے بخت جمال کو دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر زمین پرپٹخ دیااور اس کے سینے پر چڑھ گیا۔بخت جمال نے پریشان ہو کر پوچھا یہ تم کیا کر رہے ہو۔میں تمہیں جان سے مارنے لگا ہوں ۔یہ سونا صرف اور صرف میرا ہے۔اگر ہم نے سونا آپس میں بانٹ لیا تو بڑی خرابی ہوگی۔ ہزار احتیاط کے باوجود بات نکل کربادشاہ تک پہنچ جائیگی اور ہمیں کچھ نہ ملیگا۔بخت جمال نے کہا تم میری جان نہ لو سب سونا لے جاؤ میں کسی سے کچھ نہیں کہونگا۔کم فہم انسان میں نے تمہیں چھوڑ دیا تو بات زیادہ دنوں تک تمہارے پیٹ میں نہیں رہے گی۔اس راز کو راز رکھنے کا صرف ایک ہی حل ہے اور وہ ہے تمہاری موت۔ علقش بولا۔ اچھا ٹھیک ہے تم جیسا چاہو کرو لیکن میرا ایک کام ضرور کر دو۔ بخت جمال نے درخواست کی۔وہ کیا ۔علقش نے دریافت کیا۔تم جانتے ہو میں چالیس دنوں سے اپنی بیوی سے دور ہوں ۔ وہ بے چاری ماں بننے والی ہے اور میرا انتظار کرتی ہوگی۔تم اتنا کرنا مجھے قتل کرنے کے بعد اس کے پاس جانا۔ اسے یہ بارہ سونے کے سکے دے کر کہنا کہ میں ایک تاجر کے ساتھ خروز جا رہا ہوں اور چھ ماہ بعد لوٹ آؤنگا۔ ان سکوں سے تم اپنا گھر بار چلانا۔ اسے یہ پیغام بھی دینا کہ اگر تمہارے ہاں بیٹی ہوئی تو اس کا نام جو چاہے رکھ لینا لیکن اگر بیٹا ہوا تو اس کا نام بزر جمہر رکھنا۔ بس یا کچھ اور ،علقش نے تلوار سونت کر پوچھا۔بس ،بخت جمال نے جواب دیا۔ علقش بخت جمال کو ایک کونے میں لے گیا۔ وہاں ایک گڑھا کھود کر اس کا سر قلم کیا اور اسے گڑھے میں پھینک دیا۔ اوپر سے مٹی ڈال کر زمین پہلے کی طرح ہموار کر دی۔اب علقش وزیر سونے کے اس خزانے کا بلا شرکت غیرے مالک تھا۔اس نے سونے کو وہیں رہنے دیا اور دروازے میں تالا لگاکر یہ سوچ کر گھرآ گیا کہ مناسب وقت دیکھ کر سونا یہاں سے نکال لے جاؤنگا۔

وہاں سے وہ سیدھا بخت جمال کی بیوی کے پاس گیا ، سونے کے بارہ سکے اسے دئے اورشوہر کاپیغام اس تک پہنچا کر اپنے گھر چلا گیا۔بے چاری بیوی اس بات سے خوش تھی کہ میرے شوہر نے جانے سے پہلے مناسب رقم بھیج دی ہے۔جب وہ واپس آئے گا تو مزید دولت کما کر لائے گا۔

چھ ماہ گزرنے سے پہلے بخت جمال کی بیوی نے ایک بیٹے کو جنم دیا جس کا نام اس نے شوہر کی ہدایت کے مطابق بزر جمہر رکھا۔مہینے گزر گئے، سال گزر گئے بخت جمال لوٹ کر نہ آیا لیکن اس کی آس نہ ٹوٹی اور وہ اپنے شوہر کا انتظار کرتی رہی۔

بزر جمہر کچھ بڑا ہوا تو ماں کی خدمت میں لگ گیا۔ وہ اپنی ماں کے تمام کام کرتااور اسکا ہر طرح خیال رکھتا۔ ایک دن اس کی ماں نے اسے سونے کا ایک سکہ دے کر کہا جاؤ بازار سے کچھ اناج لے آؤ۔بازار پہنچ کر بزر جمہر سیدھا بادشاہ کے اناج گودام گیا ۔وہاں اس نے فراچ (گودام کا منتظم)کو جا سلام کیا۔ فراچ نے پوچھا ، کیوں آئے ہو برخوردار۔میرے پاس سونے کا ایک سکہ ہے اور یہ بہت بیش قیمت ہے۔ تم دیکھ کر بتاؤ اسکی کیا قیمت لگا سکتے ہو۔ بزر جمہر نے اس سے کہا۔ سکہ تو واقعی قیمتی ہے۔ میں تمہیں اس کے عوض یہ پندرہ سیر غلہ دے سکتا ہوں۔ فراچ بولا۔ بس پندرہ سیر غلہ۔ اچھا تو یہ بتاؤ یہ غلہ جو تم دے رہے ہو کیا تمہارے کھیتوں میں اگایا گیا ہے، یہ تو بادشاہ کا مال ہے جبکہ تم یہ سکہ بھی اپنی جیب میں ڈالنے والے ہو۔ میں بادشاہ کی عدالت جا کر تمام حقیقت بیان کردوں تو تمہارا کیا بنے گا۔ فراچ یہ سن کر گھبرا گیا اور کہنے لگا نہیں ایسا نہ کرنا۔ تم یہ غلہ بھی لے جاؤ اور اپنا سکہ بھی۔ جب یہ ختم ہو جائے تو پھر آجانا میں بلا معاوضہ تمہیں مزید غلہ دے دونگا۔گھر پہنچ کر بزر جمہر نے اپنی ماں کو تمام بات بتا ئی اور کہا۔ ماں لو یہ اپنا سونے کا سکہ بھی رکھو اور غلہ بھی۔ آج پیٹ بھر کر کھانا مجھے بھی دو، خود بھی کھاؤ اور بچ جائے تو اوروں کو بھی دو۔

چند دن گزرے تو ماں نے بیٹے کو سکہ دے کر پھر بھیجا کہ جا کر گوشت لے آؤ۔اس بار بزر جمہر سیدھا بادشاہ کے مطبخ(باورچی خانہ) چلا گیا اور بڑے باورچی کو سکہ دکھا کر کہا ۔میرا یہ سکہ بہت قیمتی ہے۔تم اس کے بدلے مجھے کتنا گوشت دے سکتے ہو۔ باورچی نے سکہ دیکھا پرکھا اور کہنے لگا میں تمہیں اس کے عوض ایک بھیڑ دونگا۔ بزر جمہر نے کہا ، کیا یہ بھیڑ تمہارا ذاتی پالا ہواہے۔یہ تو بادشاہ کا مال ہے اور تم اس میں خیانت کے مرتکب ہو رہے ہوکیونکہ یہ سکہ شاہی خزانے میں جمع کروانے کی بجائے تم اپنی جیب میں ڈالنے والے ہو۔ باورچی نے ایک بڑا سا چھرا اٹھا کر کہا لینا ہے لو ورنہ چلتے بنو۔ لڑکے نے کہا ٹھیک ہے میں سارا معاملہ بادشاہ کی عدالت میں جاکر پیش کر دیتا ہوں۔ پھر تمہارا کیا حشر ہو گا تم اچھی طرح جانتے ہو۔ اب تو باورچی گھبرایا اور گڑگڑا کر کہنے لگا تم یہ بھیڑ بھی لے جاؤاور اپنا سکہ بھی۔ اگلے ماہ آکر پھر ایک بھیڑ لے جانا۔بیٹے نے گھر پہنچ کر سکہ ماں کو واپس کیا اور تمام ماجرا سنا دیا۔ ماں بیٹے کی فراست پر بہت خوش ہوئی اور بھیڑ ذبح کرواکر مزیدار کھانا تیار کیا جو دونوں نے خوب سیر ہو کر کھایا۔

کچھ دن گزرے تو اس بار ماں نے بیٹے کو سبزی لانے بھیجا۔ ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر تھک گیا بازار میں سبزی کہیں نہیں تھی۔کسی نے بتایا سبزی علقش وزیر کے باغ سے مل جائیگی۔یہ علقش کے باغ کی طرف چلا تو راہ میں سے ایک بھیڑلے کر اسکے گلے میں رسی ڈالی اور ساتھ لے لیا۔باغ پہنچا تو اس کے گرد چار دیواری تھی اور دروازے پر ایک دربان بیٹھا ہوا تھا۔بزر جمہر نے اس سے کہا ،تم مجھے کچھ سبزیاں اس باغ سے دے سکو تو میں تمھیں یہ سونے کا بیش قیمت سکہ دونگا۔دربان جو کہ باغ کا مالی بھی تھا تیار ہو گیا اور دروازہ کھول کر اسے اندر لے گیا۔بزر جمہر اپنا بھیڑ بھی اندر لے آیااور ایک درخت سے باندھ دیا۔دروازہ کھلنے پر علقش ،جو کہ کچھ دور اپنے کمرے میں تھا، ادھر متوجہ ہو گیا۔سارا منظر اس کے سامنے تھا۔ جب باغ کا مالی سبزیاں توڑنے گیا تو بزر جمہر نے اپنے بھیڑ کی رسی کھول دی۔ بھیڑ پھولوں کے پودوں کی طرف جھپٹا۔مالی یہ دیکھ کر پودے بچانے کی لئے بھاگا اور بھیڑ کو پکڑ کر باندھ دیا۔مالی دوبارہ جب سبزیاں لینے گیا تو لڑکے نے بھیڑ کو پھر آزاد کردیا۔مالی نے غصے میںآکر ایک بیلچہ اٹھایا اور بھیڑ کی کمر پر رسید کر دیا جس کی ضرب سے بھیڑ ہلاک ہو گیا۔بھیڑ دراصل مادہ تھی اور پیٹ سے تھی۔بزر جمہر نے کہا تم نے تین جانیں لے لیں۔مالی نے کہا بھیڑ تو ایک ہے پھر میں نے تین جانیں کیسے لے لیں۔اس کے پیٹ میں دو بچے بھی ہیں۔ ایک سفید اور ایک سیاہ۔ لڑکے نے بتایا۔جب یہ ماجرا دیکھا تو علقش نے مالی سے کہا ،بھیڑ کو اٹھا کر یہاں میرے پاس لے آؤ، ساتھ میں لڑکے کو بھی لیتے آؤ۔مالی نے حکم کی تعمیل کی۔ جب وہاں پہنچے تو علقش نے لڑکے سے کہا ،تم کس طرح کہتے ہو کہ مالی نے تین قتل کئے ہیں۔بزر جمہر نے کہا ،وہ اسلئے کہ بھیڑ کے پیٹ میں دو بچے بھی تو ہیں .ایک سفید اور ایک سیاہ. علقش نے مالی کو بھیڑ کا پیٹ چاک کرنے کا حکم دیا۔ جب پیٹ چاک ہوا تو واقعی اس میں دو ویسے ہی بچے تھے جیسا بزر جمہر نے بتایا تھا۔علقش نے پوچھا لڑکے تمہارا نام کیا ہے۔ بزرجمہر ۔اور باپ کا نام. بخت جمال . لڑکے نے جواب دیا ۔

حبش کے بادشاہ کا بیٹا سالازارعلقش کی بیٹی سے شادی کا خواہاں تھا اور ان دنوں علقش کی چاپلوسی کر رہا تھا اور ہر وقت اس کی خدمت میں حاضررہتا تھا۔علقش نے اسے حکم دیا کہ اس لڑکے کو دور کسی بیابان میں لے جا کر ختم کر دو اور زمین میں اس طرح گاڑو کہ اس کا نام و نشان باقی نہ رہے۔لیکن دفن کرنے سے پہلے اس کا دل گردہ نکال لانا اور بھون کر میری خدمت میں کھانے کے لئے پیش کرنا۔

سالازار حکم کی تعمیل کے لئے بزرجمہر کو لے کر چل پڑا۔راستے میں لڑکے نے اس سے کہا ،سالازار کیا تم مجھے ابھی مار ڈالو گے. ہاں مجھے یہی حکم ملا ہے. کیا تم جانتے ہو میرے بعد وہ تمہیں بھی مار ڈالے گا تاکہ تم کسی کو بتا نہ دو۔تم مر گئے تو تم اس کی بیٹی، اپنی محبوبہ کو نہ پا سکوگے۔ بزر جمہر بولا۔تم یہ سب کیسے جانتے ہو۔میرے پاس پیدائشی علم ہے۔مجھے ہر بات معلوم ہو جاتی ہے۔ تمہیں تمہاری محبوبہ مل سکتی ہے اگر تم مجھے چھوڑ دو۔سالازار نے کہا اگر تمہیں چھوڑ دیا تو تمہارے دل گردے کہاں سے لاؤنگا علقش کو کھلانے کو۔اس کا بھی حل ہے۔بزر جمہر نے اپنا سونے کا سکہ اسے تھماتے ہوئے کہا۔

بازار جاؤ اور وہاں جو ایک خصوصی بھیڑ کو فروخت کے لئے لایا گیا ہے خرید لو۔اس کے دل گردے بھون کر علقش کو دے دینا۔سالازار نے کہا میں یہ سب کر لونگا لیکن اس دل گردے میں انسانی گوشت کا مزہ کہاں سے آئے گا۔تم وہ نہیں جانتے جو میں جانتا ہوں۔ یہ خصوصی بھیڑ جسکا ذکر میں نے کیا ہے. جب پیدا ہوا تو اس کی ماں مر گئی اور جس گھر میں یہ تھا وہاں کی مالکن نے ایک بچی کو جنم دیا جو پیدا ہو تے ہی مر گئی۔چنانچہ ممتا کی ماری ماں نے بھیڑ کے بچے کو اپنے دودھ اور بعد میں انسانی کھانا کھلا کر پالا۔اس لئے اس بھیڑ کے گوشت کا مزہ انسانی گوشت سا ہے۔ اب جلدی سے جاؤ . یہ بھیڑ خرید کر اسے ذبح کرو اور دل گردے علقش کے لئے لے جاؤ۔

میں اپنے گھر جا رہا ہوں۔ بہت جلد علقش تمہیں پھر میرے پاس بھیجنے والا ہے۔تم آجانا۔

سالازاربھنے ہوئے دل گردے لے کر علقش کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔ دل گردے کھا کر علقش نے کہا ،اچھا ہوا میرا ایک اور دشمن ختم ہوا۔اب تو سونے کا وہ خزانہ جو میں نے اس کے باپ بخت جمال کو قتل کرکے حاصل کیا تھا ، بلا شرکت غیرے میرا ہے۔

بزر جمہرجب گھر پہنچا تو ماں نے پوچھا سبزیاں کہاں ہیں۔ آپ کو سبزیوں کی پڑی ہے میں اتنی مشکل سے اپنی جان بچا کر گھر پہنچا ہوں۔ورنہ علقش وزیر نے مجھے قتل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔بیٹے نے بتایا۔

ماں نے اگلے روز اپنے بیٹے کو ایک عالم کے پاس بھیج دیا تاکہ کچھ دنیاوی علوم و فنون سیکھ لے۔اتفاق سے یہ وہی عالم تھا جس کے پاس بخت جمال اپنے سسر حکیم جماس کا لکھاہوا جماس نامہ چھوڑ آیا تھا۔عالم بیچارہ اسے کیا سکھاتا بزرجمہر تو پہلے ہی سے سیکھا سکھایا تھا۔کچھ دن گزرے تو اسے جماس نامہ دکھایااور کہا،اس کتاب کو اب تک کوئی پڑھ سمجھ نہیں سکا۔ تم دیکھو شاید تمہاری سمجھ میں آجائے۔بزر جمہر نے کتاب کے اوراق الٹے پلٹے اور کہنے لگا آپ مجھے اس کتاب کو گھر لے جانے کی اجازت دیجئے۔اخوند (عالم) نے کہا ، لے جاؤ . ویسے بھی اس کتاب پر تمہارا پورا حق ہے کیونکہ اس کے مصنف تمہارے نانا حکیم جماس ہیں اور انہوں نے اسے تمہاری ماں کے جہیز میں دے دی تھی۔تمہارا باپ بخت جمال یہ کتاب میرے پاس امانت کے طور پر رکھ گیا تھا۔یہ امانت اب میں تمہیں سونپتا ہوں۔

بزر جمہر نے کتاب چوم کر رکھ لی اور گھر جاتے ہوئے ساتھ لے گیا۔گھرپہنچ کر اس نے ساری کتاب پڑھ ڈالی۔ ماں پاس ہی بیٹھے اپنے بیٹے کو باپ کی لکھی کتاب پڑھتے دیکھتے رہی۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اسے کتاب کو پڑھنے سمجھنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی۔

پڑھتے پڑھتے بزر جمہر نے ایک دم رونا شروع کردیا۔اسے روتا دیکھ کر ماں بھی رونے لگی۔ کچھ دیر بعد وہ پاگلوں کی طرح ہنسنا شروع ہو گیا۔ اسکی دیکھا دیکھی ماں نے بھی ہنسنا شروع کر دیا۔تیسری بار جب کتاب ختم کرلی تو اٹھ کر ناچنے لگ گیا۔ماں نے کہا تمہیں کیا ہو گیا ہے . کبھی روتے ہو ، کبھی ہنستے ہو اور کبھی ناچنے لگتے ہو۔

بزر جمہر نے ماں کو مخاطب کر کے کہا، ماں میری بات غور سے سنو۔ علقش وزیر نے میرے باپ کو قتل کیا ، یہ بات اس کتاب میں لکھی ہے. میں پڑھ کر غم سے رو دیا۔میں ہنسا اسلئے کہ اب علقش گھوڑا بنے گا اور میں اس پر سوار ہو کر اسے اس جگہ لے جاؤنگا جہاں اس نے میرے باپ کو مار کر گاڑا ہے۔وہاں میں اس کیساتھ وہی سلو ک کرونگا جو اس نے میرے باپ کے ساتھ کیا تھا۔ اپنے باپ کی ہڈیاں نکال کر ایک قبر بناؤنگا اور باعزت طور پر اس میں دفناؤ ں گا۔پھر اسی گڑھے میں علقش کی لاش گاڑ دوں گا۔نہیں میرے بیٹے ایسی باتیں مت کرو۔علقش بہت طاقتور، بے رحم اور ظالم ہے اور تم ایک نو عمر لڑکے۔تم اس سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ماں نے خوفزدہ ہو کر کہا۔ تم بالکل فکر مت کرو ۔وہ میرے ہاتھوں مرے گا . یہی اس کتاب میں لکھا ہے۔

کرنا خدا کا کیا ہوا. بادشاہ نے کوئی خواب دیکھا لیکن خواب کیا تھا بھول گیا۔اس نے علقش وزیر کو بلایا اور کہا ، میں نے ایک خواب دیکھا ہے . لیکن کیا دیکھا ہے بھول گیا ہوں ۔تم میرے وزیر ہو بتاؤ میرا خواب کیا تھا۔وزیر نے عرض کی حضور خواب آپ نے دیکھا ہے میں کیونکر بتا سکتا ہوں۔بادشاہ غصے سے آگ بگولا ہو کر بولا۔تم میرے وزیر ہو . برسوں سے میرا نمک کھا رہے ہو. میری وجہ سے آج تم عزت دولت شہرت کے مالک ہو۔ مجھے اپنے خواب کی تفصیل چاہئے۔اگر تم یہ کام نہ کر سکے تو تمہارا سر قلم کرکے شہر کے صدر دروازے پر لٹکا دوں گا۔علقش نے گڑگڑا کر کہا مجھے تین دن کی مہلت دیجئے ۔میں آپکا کام کر دوں گا۔بادشاہ نے کہا تین دن نہیں میں تمہیں تیس دن کی مہلت دیتا ہوں۔

علقش اجازت لے کر دربار سے نکل آیا اور گھر پہنچ کر سالازار کو بلا بھیجا۔میں نے ایک لڑکا تمہارے حوالے کیا تھاجان سے مارنے کیلئے۔کہاں ہے وہ لڑکا۔ علقش نے کہا۔ اسے تو میں نے آپ کے حکم کے مطابق مار ڈالا تھا اور اس کا دل گردہ بھون کر آپ کو کھلا دیا تھا

اچھا اگر تم نے اس لڑکے کو واقعی مار دیا تھا تو اب تم بھی مرنے کیلئے تیار ہو جاؤ۔سالازار نے جب سامنے موت دیکھی تو سچ اگل دیا۔

شاباش ! اب جاؤ اور اسے میرے پاس لے آؤ۔

سالازار بزر جمہر کے گھر پہنچا اور بتایا کہ وزیر نے اسے بلایا ہے۔بزر جمہر نے کہا ، میں نے تمہیں کہا تھا نا کہ تم ایک بار پھر میرے پاس آؤ گے۔چلو چلتے ہیں تمہارے علقش وزیر کے پاس۔ وہاں پہنچ کر اس نے سلام کیا ۔ وزیر نے نہ صرف سلام کا جواب نہایت گرم جوشی سے دیا بلکہ اٹھ کر اسے گلے لگا لیا۔بیٹھنے کے لئے کرسی پیش کی اور کہا ،میں تم سے شرمندہ ہوں بزر جمہر۔میں نے تم سے زیادتی کی ہے اور اپنے کئے پر شرمندہ ہوں۔لڑکے نے کہا آپ میرے بڑے ہیں . جو ہوا سو ہوا. آپ کو معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔آپ بتائیے مجھے کیوں طلب فرمایا ہے۔

ایک شخص کوئی خواب دیکھے اور بھول جائے اور کسی دوسرے سے کہے کہ بتاؤ میں نے کیا دیکھا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے وہ دوسرا شخص اسے اس کا خواب من و عن بیا ن کر دے۔ ہاں ، میں یہ کر سکتا ہوں۔بزر جمہر نے کہا۔

بادشاہ نے کوئی خواب دیکھا ہے اور بھول گیا ہے۔ اب مصر ہے کہ میں اسے بتاؤں کہ خواب کیا تھا۔تو بتاؤ بادشاہ کا خواب کیا تھا۔علقش نے پوچھا۔ نہیں میں جب تک خواب دیکھنے والے کا چہرہ نہ دیکھ لوں کچھ نہیں بتا سکتا۔بزر جمہر نے جواب دیا۔

تو پھر تم چلو میرے ساتھ بادشاہ کے پاس، میں ضرور جاؤں گامگرشرط یہ ہے کہ بادشاہ خود مجھے بلائے۔علقش نے بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی کہ بخت جمال کا بیٹا بزر جمہر آپ کے دیکھے ہوئے خواب کی تفصیل بتا سکتا ہے۔لیکن میرے تعلقات اس سے اچھے نہیں ہیں ۔ وہ میرے کہنے پر نہیں بلکہ آپ کے طلب کرنے پر آئیگا۔بادشاہ نے اپنا خادم خاص اسے بلانے کیلئے بھیج دیا۔

خادم جب بزر جمہر کو لینے پہنچا تو اس نے کہا ،تم کون ہو؟ میں ان کا خادم خاص ہوں۔تو جاؤ جا کر بادشا ہ سے کہو میں اس وقت تک نہیں آؤنگا جب تک میرے لئے کوئی مناسب سواری نہ بھجوائی جائے۔ خادم نے جا کر بادشاہ کو بزر جمہر کا پیغام پہنچا دیا۔ لڑکا ٹھیک کہتا ہے۔بادشاہ نے کہا۔اس نے اپنے سائیس کو حکم دیا کہ میرے خاص گھوڑے پر سنہری زین کس کر اس کے لئے لے جاؤ۔ 

سائیس سجا سجایا گھوڑا لے کر پہنچا اور کہا بادشاہ نے اپنا ذاتی گھوڑا آپ کے لئے بھجوایا ہے۔ آئیے۔بزرجمہر نے کہا میں اس گھوڑے پر بیٹھ کر نہیں آؤنگا۔ میں نے کبھی گھوڑے کی سواری نہیں کی۔اگراس نے مجھے گرا دیا اور میری ہڈی پسلی ٹوٹ گئی تو کون ذمہ وار ہوگا۔

سائیس گھوڑا واپس لے گیا اور ساری بات بادشاہ کو بتادی۔ 

کہتا تو وہ ٹھیک ہے۔ اچھا مہاوت کو بلاؤ۔اسے کہو میرے ہاتھی پر میرا ہودہ کس کر بزر جمہر کی سواری کے لئے لے جاؤ۔اب تو وہ آہی جائیگا اس شاہی سواری پر بیٹھ کر۔مہاوت ہاتھی لے کر پہنچا تو بزر جمہر نے پھر اعتراض کر دیا۔ کہنے لگا ہاتھی ! مجھے تو ہاتھی کی سواری سے بڑا ڈر لگتا ہے۔ہاتھی کا کیا ہے۔جنگلی جانور ہے۔مجھے اپنے سونڈھ میں دبا کر زمین پر پٹخ دیا تو میرا تو سرمہ بن جائیگا۔مجھے ابھی نہیں مرنا۔

مہاوت بھی ہاتھی کے ساتھ واپس بادشاہ کی خدمت میں پہنچا اور ساری بات بتائی۔ 

بادشاہ اب بھی خفا نہ ہوا اور کہا کہ لڑکا ٹھیک کہ رہا ہے۔ ایسا کرو پالکی بھجواؤ اس کے لئے۔دو کہار پالکی لے کر پہنچے اور بزرجمہر سے پالکی میں بیٹھنے کے لئے کہا۔ بزر جمہر غصے میںآکر بولا ،کیا میں عورت یا معذور ہوں جو پالکی میں بیٹھ کر آؤں۔ جاؤ اپنے بادشاہ سے کہو کہ کبھی گھوڑا بھیجتے ہو تو کبھی ہاتھی اور کبھی پالکی۔ سو وہ اب بھی نہ گیا۔

بادشاہ نے تھوڑی دیر سوچ کر اپنا ایک خادم بھیجا کہ پوچھ کر آؤ کہ وہ کس قسم کی سواری پر آنا پسند کریگا۔بزر جمہر نے کہا ،بادشاہ سے جا کر کہو میرے لئے اپنے وزیر علقش پر گھوڑے کی زین کسوائے اور زین میں ایک چابک لگا کر اسے مجھے لینے کے لئے بھجوائے۔ بادشاہ کو جب یہ پیغام ملا تو اس نے حکم دیا . علقش کو گھوڑا بنا کر چابک کے ساتھ بھیجو بزر جمہر کو لینے۔علقش کی کمر پر زین کس دی گئی،اس کے منہ میں لگام ڈال دی گئی اور زین کے ساتھ ایک چابک لٹکا دی گئی۔بزر جمہر نے جب دیکھا کہ اس کی خواہش کے مطابق علقش گھوڑا بن کر آ گیا ہے تو وہ دوڑ کر اس پر سوار ہو گیا،لگام ہاتھ میں لے لی اور چابک لہرا کر اسے چاروں پاؤں پر چلاتا ہوا بادشاہ کے دربار پہنچ گیا۔

دربار پہنچ کر وہ سیدھا علقش کی نشست پر براجمان ہو گیا۔علقش گھوڑا بنا وہیں کھڑا رہا جہاں بزر جمہر نے اسے چھوڑا تھا۔

اے بزر جمہر کیا تم مجھے میرا بھولا ہوا خواب بتا سکتے ہو۔جی ہاں میں بتا سکتا ہوں لیکن اس سے پہلے آپ کو مجھے انصاف دلانا ہو گا۔میرا ایک مقدمہ قاضی سے فیصل کروانا ہو گا۔ بتاؤ کیا ہے دعویٰ تمہارا۔یہ ملعون علقش میرے باپ کا قاتل ہے۔ مجھے اس سے بدلہ لینے کا موقع دیا جائے۔

بادشاہ نے قاضی کو بلوایا اور کہا اس مقدمے کا فوری طور پر فیصلہ کیا جائے۔قاضی نے عدالت لگائی اور بزر جمہر سے کہا ۔اپنا مقدمہ گواہوں اور ثبوت کے ساتھ پیش کرو۔

بزر جمہر نے کہا آپ سب میرے مرحوم والد بخت جمال کو بخوبی جانتے ہیں۔اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ اپنے دونوں ہاتھوں کی دس انگلیوں میں انگوٹھیاں پہنتا تھاجن پر اسکا نام کندہ تھا۔قاضی نے کہا ،ہم سب جانتے ہیں۔آپ کو ثبوت چاہئے تو میرے ساتھ اس جگہ چلیں جہاں اس نے میرے باپ کو بیدردی سے قتل کر کے زمین میں گاڑا ہے۔

چنانچہ بادشاہ کی اجازت سے بزر جمہرنے قاضی‘ اسکے عدالتی معاون اور علقش کی اس جگہ تک رہنمائی کی جہاں اس کا باپ زمین میں گاڑا گیا تھا۔ قاضی کی اجازت سے بزر جمہر کی بتائی ہوئی جگہ کی کھدائی کی گئی۔گڑھے میں اب بخت جمال کی ہڈیاں ہی رہ گئی تھیں۔

ہڈیوں کے پنجر کو باہر نکالا گیا تو دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں بخت جمال کا نام لکھی ہوئی دسوں کی دس انگوٹھیاں صحیح سالم موجود تھیں۔

قاضی نے فیصلہ دیا کہ اتنے بڑے ثبوت کی موجودگی میں علقش کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔بزر جمہر نے درخواست کی کہ اس کے والد کی بچی کھچی ہڈیوں کو باقاعدہ قبر کھود کر دفنا دیا جائے۔ اس کی درخواست قبول ہوئی اور قبر کھود کر ہڈیوں کو احترام کے ساتھ دفنا دیا گیا۔

بادشاہ کے پاس واپس پہنچ کر قاضی نے حقیقت بیان کی۔بادشاہ نے حکم دیا کہ مقدمے کا فیصلہ سنا کر بزر جمہر کے ساتھ انصاف کیا جائے 

مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھاتے ہوئے قاضی نے بزر جمہر سے ایک دو سوال کئے اور فیصلہ سنا یا کہ وہ علقش سے اپنے باپ کا بدلہ لے سکتا ہے۔

بزرجمہر نے علقش کو اسی جگہ لے جاکر قتل کرنے اور اسی طرح زمین میں گاڑنے کی اجازت مانگی جو اسے دے دی گئی۔چنانچہ بزر جمہر علقش کو وہاں لے گیااور اسکی گردن اڑا کر اسے گڑھے میں پھینک دیا ۔اوپر سے مٹی ڈال کر زمین ہموار کی اور بادشاہ کی خدمت میں حاضر ہو گیا۔

بادشاہ نے کہا اب تم میرا خواب مجھے سنا دو۔میں کب سے بے چینی کے ساتھ تمہارا انتظارکر رہا ہوں۔بزر جمہر نے خواب بیان کرنا شروع کیا۔ آپ نے خواب میں ایک بہت ہی لذیذپھل دیکھا۔اسے کھانا چاہا تو ایک سیاہ کتے نے آکر اس میں اپنا پنجہ گاڑدیا۔یہ دیکھ کر آپ کی طبیعت اتنی خراب ہوئی کہ آپ کو قے آگئی۔

اے بزر جمہر تمہارا کوئی ثانی نہیں۔مجھے اپنا خواب یاد آگیا ہے اور تم نے یہ من و عن بیان کیا ہے۔ اچھا اب اس کی تعبیر بھی بتا دو۔ 

تعبیر یہاں سب کے سامنے نہیں علیٰحدگی میں بتاؤنگا۔بادشاہ نے اپنے د رباریوں کو وہیں چھوڑا اور بزر جمہر کو اپنے خاص کمرہ میں لے گیا۔

بزر جمہر نے کہا آپ کی ایک ملکہ حبش کے بادشاہ کی بیٹی ہے نا؟ ہاں ہے‘ بادشاہ نے جواب دیا۔خواب میں جو شیریں پھل آپ نے دیکھا وہ یہی ملکہ ہے۔وہ اپنے ملک سے اپنے ساتھ ایک آشنا کو بطور خادم خاص لائی ہے ۔سیاہ کتا یہی ہے۔ آپ کی ملکہ آپ کی عدم موجودگی میں اس کے ساتھ دادعیش دیتی ہے۔

کیا تم بتا سکتے ہو اس وقت وہ کہاں ہے۔وہ ملکہ کی خوابگاہ میں ہے۔بادشاہ ملکہ کی خوابگاہ میں گیا تو وہ وہیں موجود تھا۔بادشاہ نے دونوں کو گردن سے پکڑا اور گھسیٹتا ہوا بھرے دربار میں لے آیا۔

اے قاضی میں یہاں کا بادشاہ ہوں اور اس عورت کو اپنی ملکہ بنا کر لایا تھا۔یہ بیوفا اپنے اس آشنا کو بھی ساتھ لائی ہے تاکہ اس کے ساتھ رنگ رلیاں منا سکے۔تم ان کو ان کے جرم کی عبرت ناک سزا دو ۔ان کی گردنیں اڑا کر ان کی بوٹیاں چیل کووں کو کھلاد و۔قاضی نے کہا نہیں یہ اتنی آسان موت کے مستحق نہیں ہیں۔میں انہیں ایک شہتیر کے ساتھ باندھ کر دور صحرا میں پھنکواؤنگا۔وہاں حشرات الارض کے علاوہ چیل کوے بھی ان کی بوٹیاں نوچ کر کھائیں گے۔اور یہ لمحہ لمحہ اذیت ناک موت کا مزہ چکھیں گے۔یہی ان کی سزا ہے۔

بزر جمہر کو بادشاہ نے اپنا وزیر مقرر کر لیا۔ایک روز دونوں بیٹھ کر ’عرق‘ (انگور کی خام شراب) سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ چند مصاحب حاضر ہوئے اور بادشاہ کو بیٹے کی ولادت کی خوشخبری سنائی۔بادشاہ نے بزر جمہر سے پوچھا اس کا نام کیا رکھا جائے۔اس کا نام نوشیرواں ہوگا۔ اچھا یہ بتاؤ یہ کیسی قسمت لے کر آیا ہے۔بادشاہ سلامت سنو۔اسکی پیدائش کی گھڑی بہت سعد ہے۔ میں تمہیں بتاتا ہوں یہ سات اقلیموں کا شہنشاہ ہو گا۔اسکے چار ہزار ذاتی خدام ہوں گے اور پانچ ہزار چاق و چوبند محافظ اس کی حفاظت پر معمور ہونگے۔اس کا خیمہ اتنا بڑا ہو گا کہ ایک ہزار لکڑی کے ستونوں سے اسے کھڑا کیا جائیگا۔خیمے کی رسیاں سونے کے کھونٹوں سے بندھی ہوں گی۔وہ اپنے خیمے کے صدر دروازے پر مظلوموں کی داد رسی کے لئے ایک زنجیرعدل نصب کریگا تاکہ انہیں ہر وقت بلا روک ٹوک انصاف دستیاب ہو سکے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ نوشیرواں واقعی ایک عادل بادشاہ تھا۔ بزر جمہر کیقباد کے بعد نوشیروان عادل کا وزیر بنا اور کئی سال نہایت خوش اسلوبی سے حکومتی امور نبھائے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button