کالمز
محرم الحرام اور واقعۂ کربلا


مستند تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کربلا(کربلائے مُعلّیٰ)عراق کا ایک مشہور شہر جو حضرت امام حسینؑ ، حضرت عباس، اور کئی عاشقان صادق کے مزاروں اور واقعہ عاشورہ کی وجہ سے زیارت گاہ و مرکز عقیدت ہے ۔ قدیم تاریخ میں کربلا کو مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا رہا ہے مثلاً غاضرِیّہ، نینویٰ(حائر کے جنوب مشرق میں ایک قریہ )۔ماہرینِ آثار قدیمہ گزشتہ ہزار سالہ تاریخ اور نام و نشان کے حوالے سے بیان کرتے ہیں "کربلا کور بابل ہے یعنی بابل کا قریہ۔کربلا اشوری نام ہے جو "کرب”و” ایلا ” سے مرکب ہے اور اس کے معنی ہیں ” حرّم اللہ” ۔کربلا مشرق سے جنوب تک پھیلے ہوئے ٹیلوں کا نام ہے اور اسی مناسبت سے اس آبادی کو کربلا کہا گیا ہے۔ ماہرین زبان و ادب اور مشہور روایت کے مطابق اس کی وجہ تسمیہ اس طرح ہے "کربلا پاؤوں کی نرم روئی کو کہتے ہیں ۔ یہ زمین چونکہ نرم و کشادہ تھی اس لئے کربلا نام پڑا، کُربلتِ الحِنطَۃگیہوں چھانے اور پھٹکے گئے ۔ عہد بنوت میں امام حسینؑ کی شہادت کا تذکرہ اور آنحضرت ﷺ کا خاک کربلا ملاحظہ فرمانا اور اسے سونگھنا ، نیز کربلا کی مٹی کا ام المومنین حضرت ام سلمہؓ کو بطورامانت دینا۔ ایک اور اہم روایت میں بیان ہوتا ہے جب حضرت علی کرم اللہ وجہہ مقام کربلا سے گزرتے ہوئے ایک جگہ رکے ،نماز پڑھی اور فرمایا "یہاں ان کے اونٹ بیٹھیں گے، یہاں ان کے کجاوے رکھے جائیں گے اور یہاں ان کے خون بہائے جائیں گے۔ آلِ محمدؐکے کچھ جوانمرد شہید ہوں گے اوران پر زمین و آسمان روئیں گے(الصواعق المحرقہ)چنانچہ محرم ۶۱ ہجری کی دوسری تاریخ کو امام ؑ اپنے خاندان اور دوستداروں کے ساتھ کربلا میں خیمہ زن ہوئے اور ۱۰ محرم ۶۱ ہجری کو اپنے اقرباء و جانثاروں (جن کی تعداد ۷۲ )کے ساتھ ( اس زمین میں)جام شہادت نوش فرمایا۔