چترال
چترال، معروف صوفی شاعر مرز ماحمد سایار بابا کا تین سو سالہ پرانا رہائیشی مکان بھی حالیہ زلزلے سے بری طرح متاثر

چترال(گل حماد فاروقی) بارویں صدی ہجری کے معروف صوفی شاعر اور چترال کے رومانوی داستان کے خالق مرزا محمد سیار بابا کے مزار اور اس کے ذاتی رہائش گاہ حالیہ زلزلہ سے بری طرح متاثر ہوا۔ مرز ا محمد سیار بارہ سو ہجری میں چترال کے بالائی علاقے شوگرام میں پیدا ہوئے تھے۔ فارسی ادب اور دیگر علوم کی حصول کیلئے انہوں نے ہندوستان کے دہلی، سمرقند بخارا اور ایران کا سفر کیا۔ شیراز میں حافظ شیرازی سے انہوں نے فارسی ادب سیکھی اور چترال آکر انہوں نے فارسی میں اپنا دیوان تحریر کیا۔
مرزا سیار کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ شوگرام کے بالکل سامنے والے گاؤں ریشن میں ایک شادی شدہ خاتون سے اس کو عشق ہوا تاہم یہ عشق نہایت پاکیزہ تھا۔
دریا پر پیدل پل پر ایک بار اس کی معشوق آرہی تھی مرزا سیار دوسری پار جارہا تھا پل نہایت تنگ تھا اور حطرہ تھا کہ اگر بیک وقت دونوں پل کو عبور کرے تو اس کے ساتھ اس کا جسم ملس ہونے (لگنے) کا باعث بنتا تاہم انہوں نے یہ گوارہ نہیں کیا کہ وہ کسی غیر عورت سے لگے اور دریا میں چھلانگ لگاکر دوسری جانب تیرتے ہوئے چلے گئے۔
کھوار یعنی چترالی زبان میں اس کا لکھا ہوا یار من ھمین ہر زود زبا ن پر مشہور ہے اور اسے معروف ادیب گل نواز خاکی مرحوم نے بھی گایا تھا۔
مرزا سیار ریشن کے سامنے والے پہاڑی پر چڑھ کر بیٹھتے اور اپنے دوست کا دیدار دور سے کرتے۔ ان کی زندگی کے آحری ایام میں انہوں نے ایک غزل لکھی جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ جب میری آحری سانس نکلنے لگے تو تم آکر اپنا دیدار کروانا ورنہ میری جان نہیں نکلے گی۔ اور بزرگو ں کے مطابق بالکل اسی طرح ہوا۔ عین جب اس کی حالت نزع تھی تو دو دن موت و حیات کے کشمکش میں مبتلا تھا جان نہیں نکل رہی تھی آحر کار اس کے وصیت کے مطابق اس کے دوست کو بلایا گیا جسے اپنے شوہر نے اجازت دے دی اور جب اس کا دوست دروازے میں داحل ہوئی بابا سیار کا آنسوؤں نکل کر اس کا جان قبض ہوا۔
