کالمز

گاوں کی سطح پر تنظیمات کا ترقی میں کردار

تحریر: دیدار علی شاہ

گاوں کی سطح پر تنظیم سازی کا تصور اور طریقہ کار اس وقت گلگت بلتستان میں رائج ہوئی جب 80 کی دہائی میں مختلف فلاحی اداروں نے یہاں کی غربت کم کرنے کے لیئے کام کا آغاز کیا، اس وقت اے کے آر ایس پی نے بھی شروع شروع میں یہاں کے لوگوں کو انتظام کاری اور فیصلہ سازی میں شامل کر کے ان لوگوں کو یہ احساس دلایا کہ یہ لوگ خود بہت کچھ کر سکتے ہیں ، پھر یہاں گاوں گاوں میں جتنے بھی وسائل موجود تھے ان کو استعمال میں لایا جس میں خاص کر ذمین کا بہتر استعمال ، بچت کی عادت وغیرہ تھا یعنی اپنے مدد آپ کے تحت اپنے وسائل کا بہتر استعمال تھا ،اور یہ سلسلہ ابھی تک دیہی تنظیم، خواتین تنظیم اور لوکل سپورٹ آرگنائزیشن کے زریعے جاری و ساری ہیں ترقی کی اس ابتدائی رفتار کو مزید مظبوط بنانے کے لیئے اس ادارے نے مقامی کمیونٹی کے ساتھ مل کر ابھی تک پوری گلگت بلتستان میں 4500 دیہی اور خواتین تنظیمات بنانے میں کامیاب ہوئے جو کہ پوری گلگت بلتستان میں 132000 گھرانوں کی نمائندگی کرتاہیں۔

ان اداروں نے سب سے پہلے تمام دیہی تنظیمات اور خواتیں تنظیمات کو خودمختار یعنی Empower کیا ، یہاں پر انفراسٹریکچر پروجیکٹس، چھوٹے پیمانے پر بچت کی عادت ، اپنے ذمین کو بہتر طریقے سے استعمال میں لانا ، یہاں پر موجود قدرتی زرایعوں کو استعمال میں لانا ،لوگوں کو سماجی اور معاشی بہتری کے طریقہ کار پر ٹریننگ دینا وغیرہ، پر توجہ دینے سے اور ان تمام اقدامات سے یہاں کے لوگوں کی آمدنی میں اضافہ ہوا۔

جیسا کہ پہلے ذکر کر چکے ہے کہ اے کے آر ایس پی نے شروع شروع میں یعنی 80 کی دہائی میں دیہی و خواتین تنظیمات کی بنیاد دالی تھی اور ان تنظیمات کو اجتماعی سطح پر مزید مظبوط بنانے کے لیئے 2004 میں لوکل سپورٹ آرگنائزیشن (LSO)کا قیام عمل میں لایاجو کہ ابھی تک اپنی بہترین کارکردگی کے ساتھ ترقی کے کاموں میں مصروف عمل ہیں۔اسی تناظر میں اے کے آر ایس پی نے یہ مناسب سمجھا کی LSOs کی اس طریقہ کار،دیہی و خواتین تنظیمات کے ساتھ ان کی روابط اور معاشرے میں اس کے اثرات اور اس کی دس سالہ کار کردگی کو جانچنے کے لیئے Pakistan Centre for philanthropy(PCP)کی خدمات حاصل کی اور ان تمام LSOs کے بارے میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ کونسی ایل ایس او کس بنیاد پر بہتر کارکردگی اور کامیاب رہی ہیں۔

اگر ہم ان تمام ایل ایس اوز میں سے چیپورسن لوکل سپورٹ آرگنائزیشن (CLSO)کی بات کرے تو یہ ادارہ گوجال میں یونین کونسل نمبر دو میں واقع ہیں اور اس کا قیام جولائی 2008میں لائی گئی ہیں اس کہ جنرل باڈی ممبران کی تعداد43ہیں جس میں سے تیس مرد اور تیرہ خواتین شامل ہیں اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تعدادپندرہ ہیں،اس ادارے کے ساتھ گیارہ دیہی تنظیمات، گیارہ خواتین تنظیمات اور تین کمیونٹی آرگنائزیشن شامل ہیں ۔(CLSO)اے کے آر ایس پی اور دیگر اداروں کی مدد سے چیپورسن میں 445گھرانوں کی فلاح و بہبود کے لیئے کام کر رہا ہیں اور ان کی تمام پروجیکٹس اس لیئے کامیاب رہی ہیں کہ انھوں نے روایتی طور پر کام کے بجایئے عملی طور پر کام اور طریقہ کارکے زریعے لوگوں تک اس کے فوائد پہنچائے ہیں۔اس ادارے کہ کامیاب ترقیاتی کاموں میں کردار کہ جانچ کو پانچ طریقوں سے دیکھا گیا ہیں ان میں جمہوری انتطام، انتظامی صلاحیت، رضاکارانہ انتظامات،موثر طریقہ کار سے اثرانداز ہونا شامل ہیں اور جس طریقہ کار کو انھوں نے اپنایا ہیں وہ ہے ایک جامع منصوبہ بندی کے اور طریقہ کار کے تحت کام۔دوسرے ایل ایس اوز کی نسبت یہ اس لیے کامیاب رہی ہیں کہ یہ ادارہ ہر سال اپنے لیئے Year Planمرتب کرتا ہے اور اس پلان کو ایگزیکٹو باڈی اور جنرل باڈی سے منظور کر کے اس پر عملدرامد شروع ہوتی ہیں اور ابھی تک خاص کر وہاں پر موجود غیر آباد ذمینوں کے لیئے کوہل نکال کر پانی مہیا کی،صحت کے لیئے Community Health Revolving Fund کے نام سے ایک ادارہ قائم کیاجو کہ صحت کی بہتری کے لیئے کام کر رہا ہیں،تعلیم کے لیئے Educational Development Fundکے نام سے کام کا آغاز کیا او یہ تعلیم کے حوالے سے کام کر رہا ہیں،یہ ادارہ اس لیے کامیاب ہیں کہ یہ جمہوری انداز میں اپنے جنرل باڈی اور ایگزیکٹو باڈی کا انتخاب کرتا ہے اور مقررہ وقت پر جمہوری طریقے سے تبدیل ہوتی ہیں اور سال میں دو مرتبہ جنرل باڈی کہ اور ہر مہینے میں ایگزیکٹو باڈی کی باقاعدگی سے میٹنگ ہوتی ہے اس میٹگ کے دوران ادارے کی کار کردگی ،منصوبے اور مالیاتی رپورٹ کا جائزہ لیتے ہے ان تمام ممبران کو ان کے ذمہ داری اور LSO کے مقاصد کا بخوبی علم ہے اوراس ادارے نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں زیادہ سے زیادہ یوتھ کو مواقع دی ہیں اور شامل کی ہے اور ان کے لیئے مختلف پروگرامز کا انعقاد بھی کیا ہیں اور اس ادارے میں یوتھ کہ نمائندگی موجود ہیں اور ساتھ ساتھ والینٹرزم کو فروغ دی ہیں اور فیصلہ سازی میں خواتین کی بھی بھرپور شمولیت کو یقینی بنایا ہیں،اس ادارے نے اپنے کام میں تیزی لانے کے لیئے مختلف گروپس اور کمیٹیاں تشکیل دی ہیں تاکہ ترقیاتی کام آسانی سے ممکن ہو، دیہی و خواتین تنظیمات کے ساتھ مختلف نوعیت کے میٹنگز رکھتے ہیں تاکہ فیصلہ سازی میں ان کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی ہو، یہ ادارہ اپنے تمام آمدن اور اخراجات کا ریکارڑمحفوظ رکھتا ہیں اس کی اپنی ایچ آر پالیسی اور بینک اکاونٹ موجود ہیں اور ہر سال آڈیٹ کہ جاتی ہیں اور تمام دیہی و خواتین تنظیمات کی ریکارڑز بھی ان کے پاس موجود ہیں، اسی لیے ان تمام پروجیکٹس کو ہنرمندی سے پایا تکمیل تک پہنچایا گیا ہیں۔

اس ادارے کی کامیابی کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ اس نے تمام دیہی و خواتین تنظیمات کو فعال بنا کر ان کے زریعے سے کمیونٹی کی ضرورت کی نشاندہی کر کے کام کرتی ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے کار کردگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنے تمام اسٹاف اور بورڈ ممبران کے کے لیئے ضرورت کے مطابق مختلف ٹریننگز کا انعقاد کرتا ہیں تاکہ ادارے کا کام بہتر ہو اور جدید اور سائنسی بنیادوں پر لوگوں کی ضرورت پوری ہو۔

اس ادارے نے اپنے Sustainabilityکو برقرار رکھنے اور ترقیاتی کامو ں کو جاری رکھنے کے لیئے دوسرے اداروں اور Donorsکے ساتھ روابط پیدا کی ہیں جن سے یہاں پر ترقیاتی کاموں کے لئے مدد ملتی ہیں اور تمام دیہی و خواتین تنظیمات بھی ایل ایس او کی وجود کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔

اس ادارے نے اپنے مالی حسابات سے لوگوں کو باخبر رکھا گیا ہیں اور مالی احتساب بھی کیا گیا ہیں،اس علاقے کی ہر مسائل کو لوگوں کے ساتھ منظم گفتگو کر کے اتفاق رائے سے لائحہ عمل تیار کیا گیا ہیں،بقائدگی سے کمیونٹی میں اجتماعات منعقد کیا گیا ہیں،صحت اور تعلیم کے سلسلے میں لوگوں کی مدد بھی کی گئی ہیں ان تمام وجوہات کی بنا پر یہاں کے لوگ اس ادارے کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔

اس ادارے نے آج تک جو بھی ترقیاتی کام مکمل کی ہیں سب سے پہلے اس کام کی تہہ تک پہنچ کر یعنی اس کام کے مقصد کا مطالعہ کی ہے،منصوبہ بندی کی ہے اورعملی طور پر آپس میں مل کر اسے عملی جامہ پہنایا ہیں،اسی وجہ سے یہاں پر موجود تمام دیہی و خواتین تنظیمات ایل ایس او کے کام اور طریقہ کار سے مطمئن ہیں۔

ان تمام ترقیاتی اور بہتر انتظامی کاموں کے باوجود LSOکو چاہیے کہ وہ تمام اداروں اور لوگوں کہ طرف سے شکایات کے سلسلے میں ایک بہتر اور کارآمد طریقہ کار واضع کریں تاکہ ان شکایات سے اس ادارے کہ کمزوریوں کو دور کیا جا سکے اور اس ادارے میں معذور افراد کو بھی نمائندگی دی جائے تاکہ ان کہ حوصلہ افزائی ہو سکے، اس ادارے کہ یہ بھی ضرورت ہیں کہ وہ اپنے ہر پرجیکٹس اور دوسرے کاموں کے اختتام پر لوگوں سے فیڈبیک ضرور لیں تاکہ آئندہ کہ حکمت عملی میں ان کہ رائے کام آسکے اور ساتھ ساتھ اس ادارے کہ وجود کو برقرار رکھنے کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button