کالمز

کورونا وائرس اور پاک چین سرحدی تجارت

 تحریر: دیدار علی شاہ

ایک چینی کہاوت ہے کہ ”امیر ہونا ہے تو سڑکیں تعمیر کرو“ اسی کہاوت پر عمل کرتے ہوئے پوری دنیا نے ماضی میں ضروریات زندگی پوری کرنے کے لئے لین دین شروع کی۔ شروع میں اس لین دین کا کچھ خاص اصول نہیں تھے لیکن رفتہ رفتہ یہ منظم اور وسیع ہوتا گیا۔اُس زمانے میں مختلف ممالک اور براعظموں کا آپس میں رابطہ تھا اور مختلف تجارتی راستے تھے۔ اُن تجارتی راستوں کی بدولت مختلف مصنوعات کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ انہی راستوں میں سے ایک تجارتی راستہ شاہرہ ریشم یا سلک روٹ کے نام سے جانا جاتا ہے جو اٹھارویں صدی عیسوی تک ایشیا اور یورپ کے درمیان دنیا کی اہم ترین شاہراہ تھی۔

شاہراہ ریشم کی یہ اصطلاح بعد میں شاہراہ قراقرم کا سبب بن گیاجوکہ خنجراب ہنزہ کے راستے پاکستان اور چین کے مابین تجارتی گزرگاہ ہے۔پاکستان اور چین کے مابین شاہراہ قراقرم کے زریعے تجارت اور چین پاکستان اکنامک کوریڈور یعنی سی پیک کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ میں جانا ہوگا۔ اور پرانا شاہرہ ریشم سے اپنا گفتگو کا آغاز کریں گے۔

شاہرہ ریشم جو عہد قدیم کے تجارتی راستہ تھا چین کو مغرب و بحرہ روم کے ممالک سے ملاتے تھے۔ یہ گزرگاہیں تقریباً 8 ہزار کلومیٹر یعنی 5 ہزار میل پر پھیلی ہوئی تھیں۔اُس زمانے میں یہ شاہرہ چین سے شروع ہو کر کلک پاس مسگر ہنزہ سے ہوتا ہوا گلگت سے گزرتاتھا۔ یہ شاہرہ خاص طور پر ریشم کی تجارت کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔

شاہرہ ریشم کی اصطلاح پہلی بار جرمن جغرافیہ دان فرڈ یننڈون رچوٹفن نے 1877 میں استعمال کی تھی۔ محققین بتاتے ہے کہ شاہرہ ریشم مغرب، چین، مصر، فارس، برصغیر اور روم کی تہذیبوں کی ترقی کا اہم ترین عنصر تھی اور جدید دنیا کی تعمیر و ترقی میں اس کا بنیادی کردار رہاہے۔

مصنف ڈاکٹر برکت علی کے مطابق ”قدیم شاہرہ ریشم کے دھندلے خدوخال سے پتہ چلتا ہے کہ کسی زمانے میں ہزاروں اونٹ اور بار برداری کے دیگر چوپائے روم سے چین تک چار ہزار میل کی مسافت طے کرتے تھے۔اس مسافت کے دوران دن کو اوسط 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا جا سکتا تھالہذا ہر 40میل بعد کاروان سرائے تعمیر کیا گیا تھایہاں پر تھکے ماندے مسافروں کے آرام اور استراحت کا پورا انتظام موجود تھا۔ یہ کاروان سرائے جو بعد میں رفتہ رفتہ شہروں کی شکل اختیار کر گئے“۔ ڈاکٹر صاحب مزید لکھتے ہے کہ”شاہراہ ریشم پر صرف اشیائے ضرورت اور خوردونوش کی خریدو فروخت اور نقل و حرکت نہیں ہوتی تھی، بلکہ اس تاریخی شاہرہ نے افکار، نظریات اساطیر، عقائد، ادب، آرٹ، زبانوں اورثقافتوں کی اتصال میں انتہائی اہم کردار ادا کیا“

یہ بات یاد رکھیں کہ اُس زمانے میں اشیاء کے بدلے اشیاء کو بیچا جاتا تھا۔ اسے ”بارٹر سسٹم“ کہتے تھے۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ تکنیکی مشکل کی وجہ سے انسان نے جلد ہی کرنسی کے تصور پر غوروفکرشروع کر کے اسے ممکن بنادیا۔لیکن ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ چپورسن گوجال ہنزہ کے کچھ کاروباری لوگوں نے یہ بارٹر سسٹم آج بھی زندہ رکھا ہوا ہے۔ ضلع ہنزہ کے آخری گاوں چپورسن کوہ قراقرم پر ارشاد پاس کے راستے افغانستان کے علاقے واخان سے ملتی ہے۔ جو کہ سطح سمندر سے 16500 فٹ کی بلندی پر واقع قدیم گزرگاہ ہے۔ یہ راستہ صدیوں سے تجارت اور نقل مکانی کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ افغانستان میں واخان، پاکستان میں گوجال ہنزہ اور چین میں صوبہ سنکیانگ کے لوگوں میں آج بھی رشتہ داریاں موجود ہے اور ان کی ثقافت اور زبان ایک ہی ہے۔ وخی زبان اور قبیلے کے یہ لوگ عقیدے میں شیعہ امامی اسماعیلی مسلمان کہلاتے ہیں۔ اور صدیوں سے ان علاقوں میں آباد ہے۔ چپورسن گوجال کے یہ کاروباری لوگ مال کے بدلے مال (بارٹر سسٹم) کے تصور اور طریقے کو لے کر تین یا چار دن پیدل مسافت طے کر کے واخان افغانستان پہنچ جاتے ہے۔یہ لوگ اپنے ساتھ آٹا، چائے، گرم ٹوپیاں، جراب، گھڑیاں، خواتین کے لباس، سگریٹ وغیرہ لے جاتے ہے۔ اس مال کے بدلے میں وہاں سے خوش گائے(یاک)، گھوڑا، مکھن، بھیڑ بکریاں وہاں سے لے کر آتے ہے۔اس لین دین میں انھوں نے مال کے بدلے مال کے لئے مقدار اور طریقہ واضع کیا گیا ہے۔

شاہراہ ریشم کے حوالے سے سلمان رشید صاحب جو کہ سیاحت، جغرافیہ،تاریخ اور آثار قدیمہ کے ممتاز لکھاری ہے۔ آپ لکھتے ہے کہ” ہنزہ اور گلگت کبھی کوئی بڑی تجارتی گزرگاہ نہیں رہی ہے،کیونکہ تاریخ میں کہی زکر یا ریکارڈ نہیں ملتا کہ ریشم کا کاروبار ہنزہ اور گلگت کے راستے سے گزری ہو۔ ہنزہ و گلگت میں سرے سے ریشم کی تجارت کا بھی کوئی نشان نہیں ملتا۔ اگر قدیم شاہراہ ریشم اس خطے میں آتی تو سٹریٹجک اعتبار سے اہم مقام پر واقع گلگت کو ریشم کے نمایاں تجارتی مرکز کی حیثیت حاصل ہوتی۔یا ریشم کے گودام وغیرہ موجود ہوتے جس کا تاریخ میں کوئی زکر نہیں ملتا۔“ آپ لکھتے ہے کہ ہنزہ اور گلگت میں سیاحت کے فروغ کے لیے شاہراہ ریشم کا نام استعمال کر کے اسے مشہور کیا گیا ہے کہ یہی شاہرا ہ ریشم ہے۔

یہ روٹ یعنی شاہراہ ریشم کی اہمیت کا اندازہ تاریخ میں ان واقعات سے لگایا جاتا ہے کہ کشمیر کے ڈوگرہ قیادت نے 1851 کو گلگت اور چلاس پر قبضہ کیا یعنی شاہراہ ریشم کے اہم حصے کو قبضے میں لے لیا۔اس کے علاوہ برصغیر پر قابض انگریز بھی اس روٹ میں دلچسپی لے رہاتھا۔ اس کی وجہ شمال میں دو طاقتیں چین اور روس کا وجود تھا اور انگریز کو خبر ملی تھی کہ روس شاہراہ ریشم کے راستے پیش قدمی کر رہا ہے اور ہنزہ کے ساتھ رابطے میں ہے۔1880 کے بعد سے انگریز نے اس علاقے میں اپنا اثروسوخ بڑھایا۔ اس دوران انگریز نے ہنزہ اور نگر کی ریاستوں سے معاہدہ کرلیاکہ انگریز حکومت کو ہنزہ کے راستے چین اور روس جانے دیا جائے، شروع میں ان ریاستوں نے معاہدہ تسلیم کرلیا مگر بعد میں اس کو رد کردیا گیا۔ جس کے نتیجے میں انگریز نے 1891 کو ہنزہ اور نگر پر حملہ کر کے انھیں اپنے طابع میں لایا۔پھر کافی عرصے بعد انگریز نے 1935 میں گلگت کو ڈوگرہ سے لیز پر لیا اور پاکستان بننے سے کچھ عرصہ پہلے واپس ڈوگرہ کے حوالے کیا،پاکستان بننے کے بعد گلگت بلتستان کے مقامی لوگوں نے ڈوگروں کو مار بگایا اور پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔

پھر پاکستان اور چین نے میر آف ہنزہ کے تعاون سے درہ خنجراب میں شاہراہ قراقرم کا سروے شروع کیا گیا۔1966 میں باقاعدہ تعمیر کا آغاز ہوا اور تقریباً بیس سال کے عرصے میں یعنی 1986 میں مکمل ہوئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک شاہراہ قراقرم کے زریعے تجارت دونوں ملکوں کے مابین جاری ہے۔

2013 میں چین نے ون بیلٹ ون روڈ کے تحت پاکستان چین اقتصادی راہداری کا اعلان کیا، یہ راہداری چین کے شہر کاشغر سے شروع ہو کر شاہراہ قراقرم کے زریعے خنجراب ہنزہ، گلگت، راولپنڈی سے ہوکر گوادر سی پورٹ پہنچ جاتا ہے۔ جس پر زوروشور سے کام جاری ہے۔

جب شاہراہ قراقرم کی تعمیر ۶۸۹۱ میں مکمل ہوئی تو گلگت بلتستان کے لوگوں نے پڑوسی ملک چین کے ساتھ کاروبار شروع کیا۔یہ کاروبار شروع شروع میں چھوٹے پیمانے پر تھا مگر وقت سے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا گیا۔کیونکہ یہاں کے لوگوں میں بیزنس سینس ڈویلپ ہوتا گیا اور ان لوگوں نے تجربے سے کاروبار کو بڑھاتے گئے۔ اس چھوٹے پیمانے کاروبار میں خاص کر ضلع ہنزہ میں سب ڈویژن گوجال کے لوگوں کی وابستگی زیادہ ہے۔

پاک چین سرحد خنجراب پاس ہر سال ۸ ماہ کے لئے یکم اپریل سے ۰۳ نومبر تک کھلا رہتاہے۔باقی چار ماہ دسمبر سے مارچ تک خنجراب میں شدید برف باری کی وجہ سے بند رہتاہے۔ان ۸ ماہ کے دوران یہاں کے کاروباری حضرات گلگت بلتستان کی ضروریات کے مطابق چین سے سامان یہاں پہنچاتے ہے۔اور زیادہ تر لوگ کیریر کا کام کرتے ہے یعنی بڑے بیوپار سے سامان ٹھیکہ پر اُٹھاتے ہے، سوست ڈرائی پورٹ پہنچاتے ہے، ٹیکس وغیرہ کا کام کر کے لاہور، راولپنڈی اور کراچی پہنچاکر اُن کے حوالے کئے جاتے ہے۔

جب کرونا وائرس نے دنیا کو اپنے لپیٹ میں لیااور نظام زندگی کو مفلوج کر کے رکھ دیا لیکن اب اس کی شدت میں کمی تو آرہی ہے مگر ابھی تک خنجراب بارڈر نہیں کھولا گیا ہے۔

مئی 2020 میں چینی تجارتی ماہرین کے ایک وفد نے قراقرم میں دوطرفہ تجارت کو فروغ دینے کے لئے پاکستان کا دورہ کیاتھا۔اس تین روزہ دورے میں پاکستان کے عہدداروں سے موجودہ تجارتی حجم کا جائزہ لیا تھا۔ اس سرحدی تجارتی معاہدے کے تحت اس میں مزید نئی اشیاء کو شامل کرنے کی تجویز تھی۔اسی سلسلے میں ان ماہرین نے گلگت بلتستان کے مارکیٹوں کا بھی دورہ کیا تھا۔ اس دورے سے گلگت بلتستان کے تاجروں میں ایک امید پیدا ہوئی تھی۔ مگر بارڈر نہ کھولنے کی وجہ سے یہ تاجر برادری پریشان اور مایوسی کی عالم میں ہے۔ بعض تاجروں کے پچھلے سال کے سامان بھی ابھی تک چین میں پھنسے ہوئیں ہے۔

گلگت بلتستان کے زیادہ تر لوگ زراعت سے وابستہ ہے۔ اس کے علاوہ ٹورزم،اور چین کے ساتھ کاروبار شامل ہے۔ مگر کرونا وبا کے بعد ان سب چیزوں پر منفی اثرات مرتب ہوئی ہے۔اسی سلسلے میں یہاں کے امپورٹ ایکسپورٹ اسوسیشن، چیمبر آف کامرس اور اس کاروبار سے منسلک دوسرے انجمن کا یہی موقف رہا ہے کہ دوسری جگہوں میں کاروبار کو کھولا گیا ہے مگر پاک چین بارڈر کے نا کھولنے سے معاشی طور پر کمزور ہورہے ہیں۔جس میں خاص کر ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد، مزدور، ڈرائی پورٹ کے ملازمین، ہوٹل کے مالکان اور ان سے وابستہ افراد سب مالی مشکلات، مایوسی اور پریشانی میں ہے۔ان تمام صورت حال کو دیکھ کر وفاق کو چاہیے کی سخت ایس او پیز کے ساتھ پاک چین بارڈر کو کھولا جائے۔

گلگت بلتستان میں کاروبار کے حوالے سے ایک حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ WWF Pakistan نے بورڈ ر ٹریڈ فیئر کا انعقاد ICIMOD کے تعاون سے اگلے سال گلگت بلتستان میں منعقد کرنے جارہا ہے۔ اس کا انعقاد اسی سال ہونا تھا مگر کرونا وائرس وبا کی وجہ سے اسے اگلے سال رکھا گیا ہے۔ اس بورڈر ٹریڈ فیئر میں پاکستان، چین، افغانستان اور تاجکستان شامل ہے۔اس ٹریڈ فیئر کے تحت ان ممالک کے ٹریڈرز اسٹال کے زریعے سے اپنے ملک کے صنعتی اور دیگر اشیاء کے ساتھ اپنے ثقافت کو بھی نمایاں کرئیں گے۔اور ان ٹریڈرز کو یہ مواقع فراہم کیا جائے گا کہ وہ آپس میں مل کر معاشی و کارباری روابط کو بڑھائیں اور اپنے کاروبار کو وسعت دیں۔ایک اور فائدہ اس سے سیاحت کے لیے ہوگا اگر یہ ممالک آپس میں سیاحت کو فروغ دیں تو اس علاقے میں سیاحتی تبدیلی آئے گی گوکہ حکومت پاکستان سیاحت کے حوالے سے اچھے اقدامات کر رہا ہے۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت ٹوریزم ڈپارٹمنٹ اور دیگر حکومتی اداروں کے زریعے اس بارڈرٹریڈ فیئر میں اپنا مثبت رول ادا کریں تاکہ اس سے آنے والے وقتوں میں گلگت بلتستان اور پاکستان کو معاشی، ثقافتی اور سیاحتی فائدہ پہنچ جائیں۔

گلگت بلتستان میں کاروباری حضرات اور ادارے کرونا وبا کے اس بڑے امتحان سے سبق سیکھنا ہوگا۔اوراس وبا کے ردعمل میں کوتاہیوں اور خامیوں کے جواب میں اپنے کاروباری نظام کو بہتر بنانا ہوگا جس میں چیمبر آف کامرس، انجمن تاجران کی تنظیمیں، حکومتی ادارے شامل ہے۔ ان سب کو مل کر اب گلگت بلتستان میں ای کامرس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button