کالمز

گلگت بلتستان جموں و کشمیر مسلے کا حصہ کیوں ہے؟

گلگت بلتستان کے مذہبی اور سیاسی نمائندے کشمیر مسلے کو صرف اور صرف مذہبی ایشو کے طور پر لیتے ہیں اور مختلف بیانات سے اخباروں کے لئے مواد مہیا کرنے کے سوا گلگت بلتستان کی خدمت کے بجائے یہاں کے باسیوں کے لئے نت نئے مسائل کھڑے کر رہے ہیں ۔۔۔۔ان مذہبی اور سیاسی لیڈروں کو کشمیر اور گلگت بلتستان کی تاریخ سے یا تو واقیفیت نہیں یا اگر ہے تو وہ جان بوجھ کر انجان بنے ہوئے ہیں ۔۔۔سچ تو یہ ہے کہ تاریخ میں اٹھارہ سو چھیالیس سے پہلے گلگت بلتستان کا کوئی وجود ہی نہیں ملتا۔۔گلگت بلتستان کا نام بھی مہارجہ کشمیر کا دیا ہوا ہے۔ہمارے سیاسی اور مذہبی رہنمائوں کو یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ جس بلتستان کو آج وہ اپنا حصہ سمجھتے ہیں لداخ کا حصہ تھا یہ الگ بات ہے کہ زمانہ سلف میں گلگت کی طرف سے کچھ لوگ بلتستان میں وارد ہوئے اور یہاں آبادی کی بنیاد رکھ دی۔۔۔اٹھارہ سو چھیالیس سے پہلے کی تاریخ پہ نظر ڈالی جائے تو یہ خطہ چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا نظر آتا ہے۔۔اور ایک قومیت کا عنصر کہیں نظر نہیں آتا۔۔۔ایک قومیت اور ایک اکائی کی شکل اس خطہ کو اس وقت ملی جب اٹھارہ سو سا ٹھ میں یہ علاقے مہارجہ کشمیر کی عملداری میں آئے اور اس خطے(گلگت بلتستان) کو کشمیر کا شمالی سرحدی صوبے کا نام دیا گیا اور جموں و کشمیر کی اسمبلی پراچا سبھا میں نمائندگی دی گئ۔۔۔۱۹۳۴ کی جموں و کشمیر اسمبلی میں سکردو سے فتح علی خان و احمد علی خان نے اور گلگت سے راجہ غلام رضا کان ساکن استور نے نمائندگی کی۔۔۔۔ رہی بات پولیٹکل علاقہ جات جس میں ہنزہ نگر اور دیگر چھوٹی ریاستیں تھی وہ بھی بعد میں مہارجہ کی عملداری میں آئے اور یہ ریاستیں جو بطور جاگیر ان راجوں کو دوبارہ سے مہارجہ نے عطا کیا اور اس کے بدلے میں ان ریاستوں کے حکمران مہارجہ کشمیر کو سالانہ باج (نذرانہ) بطور وفاداری ادا کرتے تھے۔۔مرا مقصد یہ نہیں کہ میں کسی کی طرفداری کروں میرا مقصد صرف یہ ہے کہ ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنما تاریخ کشمیر اور گلگت بلتستان کی تاریخ کو تھوڑا سا کھنگالیں تو انہیں معلوم ہوگا کہ کہ اس خطے کا تعلق کشمیر سے صرف زبانی اور بھڑکوں سے ختم نہیں کیا جا سکتا ۔۔۔۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمیں حقیقت سے آنکھیں چرانے کے بجائے اس کا سامنا کرنا ہوگا صرف کشمیریوں سے نفرت اور مذہبی بنیادوں کی سوچ گلگت بلتستان کے مسائل کو کم کرنے کے بجائے یہاں مزید نفرتوں کو جنم دیگی۔۔۔۔تاریخی حقائق کبھی نہیں چھپتے اور نہ یہ چھپائے جا سکتے ہیں یہ حقائق پانی کی طرح اپنا راستہ خود بناتی ہیں اور آشکارا ہو جاتی ہیں ۔۔۔۔۔گلگت بلتستان کے باسیوں کو اپنی مفاداتی سیاست اور مذہبی جنونیت کو پورا کرنے کے لئے زیادہ دیر تک بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا ۔۔ہمارے سیاسی اور مذہبی قیادتوں کو عوام کو اصل صورت حال سے اگاہ کرنا ہوگا ۔۔۔۔۔ اور یہ بتانا ہوگا کہ گلگت بلتستان کو ایک اکائی کی شکل دینا والا مہارجہ کشمیر ہے۔۔۔۔اور کشمیر کی سو سالہ تاریخ ایک حقیقت ہے۔۔۔۔۔ جموں و کشمیر مسلے کی وجہ سے یہ علاقے متنازعہ ہیں ۔۔۔۔۔ہم جس ریاست کی بات کرتے ہیں وہ بھی اسی ریاست کشمیر کی ہی مرہون منت ہے ۔۔۔۔۔۔۔ہم جس قانونی صوبے کی بات کرتے ہیں وہ ہی تو اسی جموں و کشمیر کا شمالی سرحدی صوبہ ہے۔۔۔۔ہم ستر سالوں سے جس آئنی حق کی بات کرتے ہیں وہ بھی تو اسی ریاست کشمیر کے مسلے سے جُڑا ہوا ہے۔۔۔۔اس سو سالہ تاریخ کو ایک جنبش سے کوئی نہیں مٹا سکتا اور گلگت بلتستان کا آئنی مسلے کا اگر حل موجود ہے تو اسی ریاست کشمیر کے اندر ہے اور اس کو حل کرنے کے لئے ہمیں ریاست کشمیر کا راستہ اپنائے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں اور یہ راستہ اختیار کئے بغیر اس مسلے کا کوئی حل بھی نہیں ۔۔۔یہ چند باتیں اس لئے لکھنی پڑی کہ آجکل اخباروں میں گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ ہے۔۔اور گلگت بلتستان کشمیر کا حصہ نہیں ہے کی تکرار جاری ہے۔۔۔۔گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ نے پچھلے دنوں ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں اینکر کے ایک سوال پر کہ گلگت بلتستاں جموں و کشمیر کا حصہ ہیں جواب میں یہ کہا کہ جموں و کشمیر کا حصہ نہیں بلکہ جموں و کشمیر مسلے کا حصہ ہیں۔۔واہ رے وزیر اعلیٰ صاحب حکومتی وفاداری کا حق کوئی آپ کی طرح نبھائے آپ نے سیاسی جواب سے حکومتی موقف کی خوب نمائندگی کی ہے۔۔۔۔اب وزیر اعلی سے کوئی یہ پوچھے کہ جناب جب گلگت بلتستان جموں و کشمیر حصہ نہیں اور اس خطے کا تعلق جموں و کشمیر سے نہیں تو پھر یہ خطہ جموں و کشمیر مسلے کا حصہ کیوں ہے؟۔۔۔۔یہ کیوں؟ ہی تاریخ ہے جس کو ہمارے مذہبی اور سیاسی رہنما چھپانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button