کالمز

مولانا فضل الرحمن اور مسلہ گلگت بلتستان

مولانا فضل الرحمن کا فرماناہے کہ گلگت بلتستان تنازعہ کشمیر کا حصہ ہے اور کشمیر کو متنازعہ علاقہ قراردینا پاکستان کا اصولی موقف ہے ہندوستان نے کشمیر پر اپنا تسلط قائم کیا ہے جس کی وجہ سے وہ نہ اس سے آگے بڑھ سکتا ہے اور نہ پیچھے ہٹ سکتا ہے جو کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے خلاف ہے۔ یو این او کی قراردادوں کے مطابق انڈیا اور پاکستان کسی بھی متنازعہ خطے کو اپنا آئینی حصہ نہیں بناسکتے، حق خودارادیت کشمیر اور اس تنازعہ کے شکار لوگوں کا حق ہے جس کی بنیاد پر ہی وہ کہہ سکیں گے کہ وہ کس ملک کے ساتھ دیتے ہیں مضبو ط جغرافیائی اور مذہبی روایت اور قربت کی بناء پر ہمیں اطمینان ہے کہ جب بھی حق خودارادیت استعمال ہوگا وہ مملکت پاکستان کے حق میں آئیگا ۔اُنکا یہ بھی کہنا تھا متنازعہ علاقے کو اپنا آئینی صوبہ کوئی بھی ملک نہیں بناسکتاہے اور اسی وجہ سے پاکستان نے اپنے اصولی موقف کی بنیاد پر کشمیر کو آزاد حکومت اور گلگت بلتستان کو صوبے کی حیثیت دی ہے۔ صوبہ ہونے اور حیثیت دینے میں بڑافرق ہے ۔

یہ تو ہوگئی مولانا صاحب باتیں، اب نہایت ادب کے ساتھ بصد احترام گزارش ہے کہ مان لیتے ہیں کہ آپ کشمیر کمیٹی کے چیرمین ہیں لیکن آپکو یہ بات ماننی پڑے گی  کہ گلگت بلتستان کی تاریخی حیثیت کے حوالے سے آپ ذرا سا بھی اگہی نہیں رکھتے۔

حضور والا ہم رواں ہفتے یوم آذادی گلگت بلتستان سرکاری طور پر مناچُکے ہیں یہ تو قاری صاحب کا احسان ہے کہ محرم الحرام کے احترام میں انہوں نے اس دن کو سادگی سے منایا ورنہ حافظ صاحب کے دور حکومت میں پہلی بار یوم آذادی منانے کا انداز دیکھنے کے لائق ہوتا۔ دوسری بات گلگت بلتستان کی سیاست میں آپ کی پارٹی کا سیاسی وجود نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہ تو علامہ راجہ ناصر جعفری اور علامہ ساجد نقوی صاحب کا آپ پر احسان ہے کہ اُن کے درمیان اختلافات کی وجہ سے آپ کی جماعت کو قانون ساز اسمبلی میں قائد اپوزیشن لاٹری میں نکل آیا۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ آپ گلگت بلتستان کی تاریخ کو مسخ کرنے کی بات کریں کیونکہ یکم نومبر گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔

مولانا صاحب آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ اُس جنگ کو مقامی لوگوں نے بغیر کسی غیر ریاستی امداد کے جیت کر ایک تاریخ رقم کی تھی۔ جبکہ اُس وقت آذاد کشمیر فتح کرنے کیلئے مقامی لوگوں کے بجائے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے لشکروں نے کردار ادا کیا تھا۔آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ اُس جنگ کے بعد فاتح گلگت کرنل مرزا حسن خان نے ایک عبوری کابینہ تشکیل دیا تھااور ایک آذاد اور خود مختار ریاست کی حیثیت سے یہ فیصلہ کرنا باقی تھا کہ اگلے مرحلے میں کیا کرنا ہے ۔ تاریخ کے صفحات کو پلٹیں تو شائد معلوم ہوجائے کہ اُس وقت چونکہ کئی علاقے ایسے بھی تھے جہاں باغی فوج نے رٹ قائم کرنا تھا یہی وجہ تھی کہ کرنل حسن خان انتظامی معاملات عبوری کابینہ کے سپرد کرکے آرمی کمانڈ کرتے ہوئے اگلے محاذ کی طرف روانہ ہوئے۔بدقسمتی سے اُس وقت گلگت میں مقیم برطانوی میجر بروان جو کہ کرنل حسن خان سے ذاتی طور پر اختلافات رکھتے تھے اُنہوں نے اپنے حواریوں سے ملکر سازش کی، جس میں اُنہیں کامیابی ملی،

یوں آذادریاست گلگت کانظم نسق سنبھالنے کیلئے ایک بیورکریٹ تشریف لائے اور انہوں نے آتے ہی ریاستی ذمہ داران سے صلاح مشورہ کئے بغیرایف سی آر نافذ کردیااور بغیر کسی دستاویزی معاہدے کے آذاد ریاست پر براجمان ہوئے جسے بعد میں الحاق کا نام دیا گیا۔ پھر معاہدہ کراچی میں گلگت بلتستان کے حقوق کو ایک بار پھر سلب کیا گیا اور عوام سے رائے لئے بغیر اُس معاہدے کے ذریعیریاست کے باشندوں کو مزید اندھروں کی طرف دھکیل دیا۔

اس تمام صورت حال کو دیکھ کر بھارت نے جب قوام متحدہ سے رجوع کیا تو اقوام متحدہ نے حکم دیا کہ مسلہ کشمیر کے حل تک پاکستان گلگت اور مظفر آباد میں خود مختارحکومت قائم کرے، اور ریاستی معاملات مقامی حکومت کے حوالے کرے۔ لیکن وعدہ وفا نہیں ہوسکا۔آگے چل کر سابق ریاست کشمیر کے اس حصے سے سٹیٹ سبجیکٹ رول کو ختم کرایا گیا۔

اسی طرح ضیاء الحق کے دور میں آذاد کشمیر سے ہٹ کر یہاں مارشل لاء نافذ کیا گیا لیکن اُس وقت تو کسی نے نہیں کہا کہ ایسا کیوں کر رہے ہو یہ تو متازعہ کشمیر کا حصہ ہے۔ آج کی تاریخ میں نہ آپ خود مختار ریاست کی بات کرتے ہیں اور نہ ہی یہاں کے بیس لاکھ عوام کے اندر ابھرتی ہوئی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ آخر آپ کا ایجنڈا کیا ہے؟

جس طرح آپ ہر دور میں ا قتدار کی کرسی کو ساتھ رکھنا پسند کرتے ہیں بلکل اسی طرح یہاں کے عوام بغیر شناخت اپنے وجود کو نامکمل سمجھتے ہیں۔ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ گلگت بلتستان چونکہ آئینی طور پر پاکستان کا حصہ نہیں اور خطے کو آئینی دائرہ کار میں لانے کیلئے پاکستان کو مشکلات درپیش ہیں کیونکہ ایک طرف اقوام متحدہ کی قراداد ہے تو دوسری طرف اس فیصلے سے پاکستان کی خارجہ پالیسی اور مسلہ کشمیر پر منفی اثر پڑنا خارج ازامکان نہیں لہذایہاں کے عوام کی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے گلگت بلتستان کی تاریخی ، قانونی حیثیت اور انقلاب گلگت کی حقیقت اور اُس وقت کے غلط فیصلوں کو سامنے رکھتے ہوئے مثبت فیصلے کریں کیونکہ نظریاتی جعرافیائی اور مذہبی رشتوں کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تواس خطے کو پاکستان سے الگ کرناگلگت بلتستان اور پاکستان دونوں کے مفاد میں نہیں لیکن افسوس یہاں بھی آپ کچھ سمجھنے کیلئے تیار نظر نہیں آتے۔

جناب مولانا صاحب کہتے ہیں کہ آپ ایک صاحب بصیریت اور دور اندیش سیاست دان کے طور پر جانے جاتے ہیں لیکن گلگت بلتستان کے حوالے سے آپ کی دور اندیشی سکڑنے کی وجہ کیا ہے؟یہاں کے عوام آپ سے توقع رکھتے تھے کہ آپ وفاق سے کہیں گے گلگت بلتستان کے عوام کی احساس محرومی کو ختم کرنے کیلئے کچھ کڑوے گھونٹ پی کر فیصلہ کریں جس میں خطے کو مکمل شناخت کی ضمانت اور پاکستان کی سا لمیت کی بقاء شامل ہو۔ لہذا برائے مہربانی وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور سفارش کیجئے کہ پاکستان کے مفاد کو سامنے رکھتے مسلہ کشمیر کی ممکنہ حل تک اس خطے کو یکم نومبر 1947کے پوزیشن پر بحال کرکے مکمل داخلی خود مختاری دیکر یہاں سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی کو یقینی بنائی جائے،تمام تجارتی راستے کھول دیئے جائیں، خاص طور پر سکردو کارگل روڈ کی بحالی کو یقینی بنا منقسم خاندانوں کو ایک دوسرے ملنے کی اجازت دی جائے۔

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button