کالمز

غاسنگ ،منٹھوکھا میں گندم کا بحران

دنیا میں ہر جاندار کو زندہ رہنے کیلئے غذا کی ضرورت ہوتی ہے جب تک انسان زندہ رہتاہے زندگی کیلئے غذاکاتعلق حالت صحت کوقائم رکھنے کیلئے بھی ہے اور حالت مرض کودور کرنے کے لیے بھی ہے ۔ اگر ہم گلگت بلتستان کے تناظر میں دیکھیں جس دن سے گندم سبسڈی شروع ہوئی اُس دن کے بعد سے لیکر آج تک اس زرعی خطے کے لوگوں نے زراعت کو خبر باد کہہ کر وفاق سے ملنے والے گندم پرمنحصر کر ناشروع کیا کیونکہ اقوام متحدہ کی قوانین کے مطابق متازعہ حیثیت کی وجہ سے ان علاقوں کے باشندوں کیلئے اشیاء خوردنوش مارکیٹ سے کم نرخ پر فراہمی انتظامیہ کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔اقوام متحدہ کے13اگست 1948کی قراردادکے مطابق جموں کشمیر اورگلگت بلتستان کوخوراک کی ترسیل کے سلسلے میں سبسڈی دینے کی منظوری ہوئی جس کے تحت سرحد کے آر پار دشوارگذارعلاقوں میں ترسیل پر آنے والے اخراجات انتظامیہ برداشت کرے گی اس کی ابتداء 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو نے کیا ۔ لیکن بدقسمتی وفاق نے مرحلہ واراس رعایت پرسے اپنا ہاتھ کھینچنا شروع کیا یوں 100کلوکی گندم کی بوری 850سے بڑھ کر1650روپے تک پہنچ گئی۔ اسی طرح آٹے کاچالیس کلوکا تھیلاجب 430سے بڑھ کر750تک پہنچا تو اس سبسڈی کے خاتمے کا اثر براہ راست عام آدمی تک بھی دکھائی دیا۔ یہی وجہ تھی سابق حکومت کے دور میں گندم کی بڑھتی قیمتوں نے اپنا رنگ دکھایا اور احتجاجی مظاہرے ،ریلیاں اوردھرنے شروع ہوئے ، جس کے نتیجے میں عوامی ایکشن کمیٹی کا قیام عمل میں آیااس کمیٹی میں تاجر،شہری،طلباء سول سوسائٹی کے لوگ شریک ہوئے عوامی سطح پر احتجاج زورپکڑتاگیا جس کے بعد اُس وقت وفاق اورمقامی حکومت نے باہمی مشورے سے 2013کے اختتام پر اس سبسڈی کا کچھ حصہ پھر بحال کرکے100 کلو کی گندم کی بوری کی قیمت 1650سے نیچے لاکر1100پر فکسڈ کردی گئی۔بدقسمتی سے اُس وقت کسی کے ذہین میں نہیں آیا کہ گندم کی منصافانہ تقسیم کے حوالے سے بھی کوئی قواعد اور ضوابط طے کرنا چاہئے یہی وجہ تھی کہ مہدی شاہ دور میں جس نے جہاں موقع ملا گندم کرپشن کے ذریعے مال بنایا، محکمہ سول سپلائی کے ذمہ دران کی کرپشن کا ذکر کریں تو یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی میں وزیر خوارک سے لیکر ایک سپلائی عہدہ دار تک گندم کی کرپشن میں ملوث رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی کئی علاقے ایسے ہیں جہاں گندم کی سپلائی نہ ہونے کے سبب عوام کو شدید پریشانیوں کا سامنا ہے۔آج کے کالم میں ہم ان علاقوں میں گندم کے قلت کا ذکر کریں گے جو ایک بار پھر سیاسی طور پر اگلے پانچ سال کیلئے لاورث ہوچکے ہیں کھرمنگ ضلع کی اعلان کے بعد سکردو حلقہ تین کے کچھ علاقے کھرمنگ میں شامل ہوچکے ہیں اور ماضی میں بھی یہ علاقے مسلسل سیاسی تبدیلوں کی وجہ سے نظرانداز ہوتے رہے ہیں۔غاسنگ ،منٹھوکھا سیاسی حوالے سے تو خاص اہمیت رکھتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ان دونوں گاوں میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ہم سب عمائدین سے نیچے کا عہدہ قبول کرنے کیلئے تیار نہیں، یعنی اس وقت ہمارے ہاں چار قلی اسی میٹ والی کہانی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کے معاشرتی مسائل حل ہونے کے بجائے بڑھتی بگڑتی جارہی ہے لیکن عمائدین کے نام پر سرکاری منصوبے ہڑپ کرنے والوں، کرپشن کرکے خود کو عزت دار کہلانے والوں کو فکر ہی نہیں کہ گنتے کے چار قلی اس وقت کس حالت میں زندگی گزار رہے ہیں۔افسوس اس وقت ہمارے ہاں کسی کو پراہ ہی نہیں کہ محلے کے سکول میں بچوں کو بچھانے کیلئے ٹاٹ موجود ہے کہ نہیں،خبر ہی نہیں کہ محلے کا ڈسپنسر اپنے فرائض انجام رہے رہے کہ نہیں،کسی کو فکر ہی نہیں کہ بجلی جو کہ یہاں وافر مقدار میں دستیاب ہونے کے باوجود عوام کیلئے کیوں نہیں، یہ بھی نہیں پتا کہ معاشرہ اور نئی نسل کس راہ پرچل نکلے ہیں کیونکہ بدقسمتی سے میرے دونوں گاوں میں مفاد پرستی معاشرے کا اہم جزو بن چُکی ہے۔اس طرح گندم کی عدم فراہمی ہمارے علاقے میں گزشتہ ایک سال سے سنگین صورت حال اختیارکیا ہوا ہے جس کی اصل وجہ کرپشن ہے لیکن محکمہ سول سپلائی کرپشن اپنے ہی ملازمین کا نزلہ عام آدمی پر گرا رہے ہیں اُنکا کا کہنا ہے کہ سرکاری اعداد شمار کے مطابق منٹھوکھا گندم ڈپو میں اس وقت عوامی ضرورت سے بھی ذیادہ سٹاک موجود ہیں یعنی ماضی میں اس ڈپو کے نام پر خوب کرپشن ہوئی اور گندم بلیک مارکیٹ میں فروخت کرکے سرکاری خزانے میں پیسے جمع نہیں کرائے گئے۔لیکن اس کا ذمہ دار عوام تو نہیں عوام بروقت ادائیگی کرکے ہی گندم خریدتے کرتے ہیں اور اس وقت 400 نفوس پر مشتمل اس علاقے کیلئے 120بوری گندم سپلائی کرکے عوام کو لڑانے کی سازش کیوں؟۔ لہذا وزیر خوارک کو اس حوالے سے ایکشن لینے کی ضرورت ہے کیونکہ گندم کرپشن میں جو بھی ملوث ہے اُس سے عوام کا کوئی واسطہ نہیں عوام کو بروقت گندم کی فراہمی حکومت وقت کی ذمہ داری ہے ۔ اب ہم عوامی منتخب نمائندے کی بات کریں اُنہوں نے پہلے ہی اس عذر کے ساتھ معذرت کیا ہے چونکہ اس سال تمام فنڈز سیلاب میں لگاچُکے ہیں اور اب میرا اور آپ کا حلقہ بھی الگ ہوگیا ہے لہذا میرے لئے یہ ممکن نہیں کہ میں آپ لوگوں کے مسائل کی حل کیلئے کچھ کر سکیں اب غریب عوام کس کے در پر فریاد لیکر جائیں ؟۔ عوام کو کوئی پرسان حال نہیں جبکہ اثررسوخ والے یعنی کرپٹ مافیا تو کہیں نہ کہیں سے سیاسی تعلقات کی بنیاد پر گندم حاصل کر لیتے ہیں لیکن یہاں پریشانی کا سامنا ہے تو عوام آدمی کو،لہذا محکمہ خوراک کے ذمہ داران کو اس اہم ایشو کو جلدازجلد حل کرنے کی ضرورت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

شیر علی انجم

شیر علی بلتستان سے تعلق رکھنے والے ایک زود نویس لکھاری ہیں۔ سیاست اور سماج پر مختلف اخبارات اور آن لائین نیوز پورٹلز کے لئے لکھتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button