کالمز

انسانیت کے غم خوار

فرانس  حملے کے بعد سوشل میڈیا  میں اس واقعہ  کے خلاف ہمدردی اور حمایت کے لئے  لوگوں نے فرانس   کے جھنڈے کی ڈی پی  دھڑا دھڑ اپنے اپنے  پروفائل میں  لگا دئے ہیں ۔ہمیں اس سے اختلاف نہیں  کہ ایسا لوگ کیوں کرتے ہیں ۔ انسان ہونے کے ناطے مجھے بھی اس واقعے سے شدید صدمہ ہوا ہے۔ اختلاف ہے تو صرف اس بات کا کہ   ہم  بغیر سوچے سمجھے  مغرب والوں  کی تقلید میں چل پڑتے ہیں ۔ نہ ہم مستقبل کا سوچتے ہیں اور  نہ  ہم ماضی کو یاد کرتے ہیں ۔۔ماضی تو ہم بہت جلد بھول جاتے ہیں ۔  اگر کسی کو یاد ہو  تو   ستمبر  کے ورلڈ ٹریڈ سنٹر  پر حملے  جسے بعد میں  نائن الیون کا نام دیا گیا ۔کے فوراً بعد جارج بش کا ایک بیان   جس میں  اس نے صاف کہا تھا کہ   یہ صلیبی جنگ ہے ۔۔جس سے اس کی اصل نیت واضح ہوئی تھی  اگرچہ بعد میں اس لفظ کو استعمال نہیں کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ دو تہذیبوں کی جنگ نہیں ہے بلکہ  دہشت گردی کے خلاف ہے ۔دہشت گردی کے خلاف جنگ کے جواز  میں پہلا نشانہ افغانستان بنا۔ اس کے بعد عراق    اور اب تک مسلسل  اسلامی ممالک  کو امریکہ نشانہ بنا رہا ہے ۔۔اور اب پیرس حملے کی ہلاکتوں  کے بعد  ۔  فرانس کے صدر کے بیان کے  مطابق  اس حملے کی منصوبہ بندی بیرون ملک تیار کی گئی ہے ۔ اور واقعہ کی جگہ سے شامی پاسپورٹ برآمد ہوا ہے۔  ۔ ان خبروں  کے حوالے  سے یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں کہ   ایک اور بگل دہشت  گردی کے خلاف  جنگ  کا بجنے والا ہے بجنے والا کیا ہے بلکہ  شروع ہوا ہے ۔کہانی کا پلاٹ وہی ہے جو ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا تھا صرف منظر کی تبدیلی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کون سے اسلامی ملک  امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا نشانہ بنتے ہیں ۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے زمین بوس ہونےسے لیکر فرانس  کے حملے تک کے واقعات کا تجزیہ کیا جائے تو   یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ امریکہ اپنی اس مہم میں مخلص نہیں ہے اور وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کا استعمال اپنے مفاد اور اپنی دشمنی نکالنے کے لئے کررہا ہے ۔ اور فرانس کے حملے نے  یہ بات ثابت کر دی  ؎ کہ  دہشت گردی کے خلاف جنگ بالکل ناکام رہی ہے اور دہشت گردوں کو ختم کرنا تو دور کمزور بھی نہیں کیا جاسکا ۔ دہشت گردی کا خاتمہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک امریکہ  اپنی سوچ اور طریقوں میں  تبدیلی  نہیں لاتا ۔اسلامی ممالک  پر جنگ تھوپ کر  اور صرف اور صرف مسلمانوں کو ہی دہشت گرد سمجھ کر اور انہیں حرااساں کر کے  امریکہ  یہ جنگ  کسی صورت نہیں جیت سکتا ۔ امریکہ کی یہ دوغلی پالیسی   دہشت گردی میں کمی کے بجائے  دہشت گردی کے فروغ کا سبب بنی ہے ۔کسی بھی سچے مسلمان کو اس بات سے انکار  نہیں ہو سکتا کہ   یہودی اور نصارا   کے ہاں  اسلام اور مسلمانوں  کے خلاف  تعصب اور نفرت  اور حقارت  آج سے نہیں بلکہ یہ تو  صدیوں پر محیط ہےیہودی اور اس کے حواری عیسائی  اسلام کے خلاف  تعصب اور نفرت میں  سر تا پا  ڈوب چکے ہیں ۔یہ اسلام دشمن عناصر نت نئت طریقوں سے  مسلمان اور  اسلام کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔ان کی دہشت گردی کی داستانیں نبی کریم ﷺ کے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت سے لیکرا سلام کے خلاف توپوں کے منہ کھولنے تک ۔کس کس  کا ذکر کریں  لا منتہا دہشت گردی   دنیا کے ان بڑے دہشت گردوں کے ہاں دہشت گردی کے حوالے سے  ڈبل سٹینڈرڈ پایا جاتا ہے۔دہشت گردی  کی کوئی حمایت نہیں کرتا  لیکن  جب ایک بڑا دہشت گرد اپنی دہشت گردی کو چھپانے کے لئے  دوسروں کو دہشت گرد قرار  دے تو  تکلیف اس وقت ہوتی ہے۔یہی بات مسلمانوں کی سمجھنے کی ہے۔حالیہ فرانس  دہشت گردی  افسوناک ہے  لیکن  اوباما کا یہ بیان کہ  فرانس  کا حملہ پوری انسانیت پر حملہ ہے۔تو اس پہلے   جو بر بریت  اور ظلم  سفاکی مسلم ممالک  میں ہوئی  اور مسلم ممالک میں لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹا گیا   ۔اس  بارے  تو کبھی اوباما کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔عیسائیوں اور یہودی مر جائیں تو وہ انسانیت پر حملہ۔ڈنمارک ،ناروے، ہالینڈ ، جرمنی، فرانس اور دیگر ممالک کے اخبارات نے حضور ﷺ کے گستاخانہ خاکے شائع کیے۔توہین آمیز اسلام مخالف فلمیں تیار کیں۔اسلام مخالف کتب اپنے عوام میں مفت تقسیم کیں۔بھارت اور دیگر مغربی ممالک نے بھی ڈنمارک کے عمل کو دہرایا۔مسلمان خواتین کے باپردہ لباس، حجاب اور برقے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔اس دہشت گردی کو  اظہار رائے کی آزادی کا نام ۔بنگلہ دیش میں 28 فروری 2013 میں مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر دیا گیا ۔۔مِصر میں 14 اگست 2013 کواحتجاج  کے دن 1500 مسلمانوں کو شہید کیا گیا۔۔۔ 8 جولائی 2014 کو غزہ فلسطین میں22500 مسلمانوں کو فضائی حملے میں شہید کیا گیا ۔۔۔؟فلسطین،کشمیر،عراق،شام اور افغانستان کے مسلمانوں کو اب تک موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے  کسی بھی عیسائی اور یہودی یا ان کے  حواریوں کے منہ سے مذمت کا  ایک لفظ  نہیں  نکلا۔کیا یہ سچ نہیں؟ ۔اگر ہے تو   انسانیت کے غم خواروں  کو  اس سچ کے بارے غور کرنا چاہئے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button