کالمز

’’اقلیتیں اور پاکستان‘‘

پاکستانی معاشرہ میں دن بدن پر تشدد واقعات میں اضافہ ہی ہوتا چلا آرہا اگر کسی دوکان میں کوئی چور چوری کرتے ہوئے پکڑا گیا لوگ خود ہی تشدد کا نشانہ بنا بنا کر مار ڈالتے ہیں۔ کبھی سیالکوٹ کی گلیوں میں دو بھائیوں کو حکومتی مشنری کے سامنے مار مار کا ہلاک کر دیا جاتا ہے یہ تو ہے معاشرتی پہلو مگر اگر ویسے بھی دیکھا جائے تو پاکستان میں مذہبی الزامات لگا کر قانون کو ہاتھ میں لے کر تشدد کرنے کا رواج عام ہے جیسے کبھی لاہور میںیو حنا آباد کو جلا دیا جاتا ہے کبھی خانیوال میں شانتی نگر کو جلا دیا جاتا ہے ۔ کبھی گوجرہ میں عیسائیوں کو مارا جاتا ہے اور ان کے گھروں کو جلایا جاتا ہے۔ کبھی ہندؤں کے مندروں کو جلا دیا جاتا ہے ہمارے ایسے ہی رویوں کے وجہ سے کبھی بھرے بازار میں گورنر پنجاب سلیمان تاثیر کو اس کا محافظ گولیاں مار کر جان باحق کر دیتا ہے اور کبھی وفاقی حکومت کا وزیر شہباز بھٹی مار دیا جاتا ہے کبھی کسی ذاتی رنجش کی وجہ سے توہین رسالت کا الزام لگا کر ایک عیسائی جوڑے کو بھٹے میں زندہ جلادیا جاتا ہے کبھی جامعہ کراچی میں ڈاکٹر شکیل اوج کو قتل کردیا جاتا ہے اور کبھی صفورہ چورنگی میں اسماعیلیوں کو قتل کردیا جاتا ہے اور اس موقعہ پر حکومتی ادارے کیا پولیس اورکیا باقی ادارے صرف خاموش تماشائی بنے نظر آتے ہیں اور حکومتی ذمہ دار اس وقت جاگتے ہیں جب سانپ گزر جاتا ہے اور پیٹنے کو صرف لیکر رہ جاتی ہے ۔ اسی لئے ہمارا پاکستانی معاشرہ انتہائی انتشار کا شکار ہے ۔
بانی پاکستان کا خواب ایک پر امن اور ایسے پاکستان کا تھا جس میں تمام شہریوں کو آزادی حاصل ہو اور اسی کی عملی تصویر ہمیں قائد اعظم کی کابینہ میں نظر آتی ہے مثلاً قائد اعظم خود ایک اسماعیلی گھرانے میں پیدا ہوئے اور پاکستان کے پہلے وزیر قانون ہندو پاکستان کے پہلے چیف جسٹس عیسائی اور پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ احمدی تھے اور قائد اعظم بلکل ایساہی پاکستان چاہتے تھے جس میں تمام شہریوں کو برابر کے حقوق ملیں چنانچے قائد اعظم نے قانون ساز اسمبلی کے اجلا س میں اپنی ۱۱ اگست ۱۹۴۸ کی تقریر میں فرمایا تھا کہ۔
’’یہاں ایک فرقہ یا دوسری فرقہ میں تمیز نا ہو گی ہم اس بنیادی اصول کے تحت کام شروع کر رہیں کے کہ ہم ایک ریاست کے باشندے اور مساوی باشندے ہیں آپ آزاد ہیں آپ اس لئے آزاد ہیں کہ اپنے مندروں میں جائیں آپ آزاد ہیں کہ اپنی مسجدوں میں جائیں یا ماکستان کی حدود میں اپنی کسی عبادتگاہ میں جائیں آپ کا تعلق کسی مذہب کسی عقیدے یا کسی ذات سے ہو اس کو مملکت کے مسائل سے کوئی تعلق نہیں میرا خیال ہے کہ ہمیں یہ بات بطور نصب العین اپنے سامنے رکھنی چاہیے ۔‘‘
مگر موجودہ پاکستان قائد اعظم کے نظریات کا پاکستان معلوم نہیں ہوتا ہے ۔ آج پاکستان میں ویسے تو کوئی بھی محفوظ نہیں ہے مگر پاکستان میں اقلیتوں کے صورتحال تو انتہائی تشویش ناک ہے اور مجموعی طور پر سبھی اقلیتیں عدم تحفظ کا شکار ہیں مگر ان اقلیتوں میں سے سب سے زیادہ غیر محفوظ احمدیہ جماعت ہے۔ حلانکہ سے اس کمیونٹی نے پاکستان کی تعمیر و ترقی میں غیر معمولی حصہ ڈالا ہے نوبل انعام یافتہ سائنس دان ڈاکٹر عبد السلام،1965 کی پاک بھارت جنگ کے ہیرو، جنرل افتخار جنجوعہ، جرنل عبد العلی ملک کا تعلق بھی جماعت احمدیہ سے تھا ۔ اور آج اس کمیونٹی کے تعلق رکھنے والے لوگوں کو پاکستان میں نا تو مذہبی اور نا ہی معاشرتی آزادی حاصل ہے ۔
جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والوں پر مظالم کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے بلکہ پاکستان میں 1953 سے لیکر اب تک سینکڑوں احمدیوں کو مذہبی بنیادیوں پر قتل کیا جا چکا ہے اور اربوں روپوں کی املاک کو نظر آتش کیا جا چکا ہے مگر نا تو ان کے کے دکھ میں حکومت شامل ہوتی ہے اور نا تو ان کی آواز کو میڈیا پر نشر کیا جاتا ہے سن 2010 میں لاہو ر میں دو احمدی عبادتگاہوں میں 100 کے قریب احمدیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور جب اس صورتحال میں میاں نواز شریف نے یہ کہا کہ احمدی ہمارے بھائیں تو عوام ان کے پیچھے پڑ گئی کہ میاں صاحب کو ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا اور میاں صاحب بیچاروں کو وضاحتیں دینی پڑیں اور یوں میاں صاحب کی جان کی خلاصی ممکن ہوئی پچھلے سال کی بات ہے کہ رمضان کے مہینہ میں تین احمدی خواتین کو توہین رسالت کا الزام لگا کر گوجرانوالہ میں زندہ جلا دیا گیا اور بعد میں تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی کہ یہ الزام بے بنیاد تھا۔ انہیں مظالم کی ایک کڑی کا ایک واقعہ کل 20 تاریخ کو پنجاب میں جہلم شہر کے قریب 50 سال سے واقع ’’پاکستان چیپ بورڑ فیکرٹری ‘‘ میں پیش آیا جس کو ایک مشتعل ہجوم نے نذر آتش کردیا کیوں کے اس کا مالک ایک احمدی تھا اس واقعہ کی ابتدا ایک افواہ سے ہوئی کہ اس فیکرٹری میں مقدس اوراق کی بے حرمتی ہوئی ہے قبل اس کے کہ تحقیقات ہوتیں اس افواہ پر ہی مقامی مذہبی علماء نے اعلانات کر کے عوام کو مشتعل کیا اور اس کارخانے کو نذر آتش کردیا جس سے اربوں رپوں کو نقصان ہوا اور اس فیکرٹری میں موجود فیلیوں کو بڑی مشکل سے زندہ جلنے سے بچایا جا سکا اس سارے واقع میں پولس اور رینجرز بے بس نذر آئی اور کسی نے اس مشتعل ہجوم کو نا روکا اس کے بعد اس ہجوم نے قریب واقع کالا گجر نامی جگہ پر احمدیوں کی عبادت گاہ پر حملہ کر دیا اور اس عبادت گاہ کو نذر آتش کر دیا اور یہ پوری کاروائی دن رات جاری رہی مگر اس دوران نا تو کوئی صوبائی حکومت کے اہلکار جاگے اور نا ہی مرکزی حکومت کوہوش آئی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ قانون حرکت میں آتا اور الزام کی چھان بین کرتا اور تحقیقات ہوتیں مگر ایسا نا ہوا اور قانون صرف تماشا دیکھتا رہا ۔اور جب ایک فیکٹری پوری طرح خاکستر ہو گئی احمدیوں کی عبادت گاہ کو تباہ کردیا گہا تو وزیر داخلہ جاگے اور فوج کو حالات کنٹرول کرنے بھیجا گیا ۔ حانکہ اگر وقت پر حکومت جاگتی تو حالات کا کنٹرول کیا جا سکتا تھاجب 1953 میں لاہور میں فسادات ہوئے تو اس اس کے بارے میں ایک کمیشن بیٹھا جس کا کو جسٹس منیر نے ہیڈ کیا اس کمیشن کی مکمل کاروائی بعد میں ’’ جسٹس منیر انکوئری‘‘ کی صورت میں شائع ہوئی اور بلاشبہ یہ انکوئری پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اس انکوئری میں دیگر باتوں کے ساتھ ساتھ اس بات کا اظہار بھی کیا گیا کہ اگر اس واقعہ میں پولیس اپنا دیانتداری سے کام کرتی تو بڑے حادثے سے بچا جا سکتا تھا۔
ہر معاملہ شروع میں چھوٹا ہوتا ہے مگر اگ اس کو ہینڈل کرنے میں دیر کر دی جائے تو وہ بہت بڑا ہو جاتا ہے حکومت کو چاہیے تھا کہ اس واقعہ کا فوری نوٹس لیتی تاکہ بڑے نقصان سے بچا جا سکتا ۔ حکومت چاہیے ہے کہ ایسا واقع کہیں بھی ہو تو فوری نوٹس لیا کرے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کے جان و مال کی حفاظت میںآگے آیا کرے کیوں کہ یہ وطن سبھی نے محنت سے حاصل کیا ہے اور اس وطن پر سبھی کا حق ہے خواہ کوئی مسلم ہو یا غیر مسلم اور کسی کو اس کا امن خراب کرنے کا حق نہیں خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ہو ۔ اللہ پاکستان کی حفاظت کرے (آمین)

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button