کالمز

تہمینہ کی دلسوز کہانی میں چھپے صنفی تعصب و تشدد کے دلخراش رویے

گزشتہ دنوں راولپنڈی میں چند بے رحم افراد نے چکوال کی بیس سالہ لڑکی تہمینہ کو اجتماعی جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا اور سنگدلی کے ساتھ اسے تین منزلہ گھر کی چھت سے دھکا دے کر قتل کردیا ۔ جب اس کی لاش کو اپنے گاؤں پہنچا دیا گیا تو گاؤں میں اس کی میت کو کاندھا دینے کے لیے کوئی تیار تھا اور نہ ہی اسے دفنانے کے لیے۔ اس میت کو اپنے ہی گاؤں میں دفن ہونے کی دو گز زمین بھی میسر نہ آئی چنانچہ ورثا نے اسے جنگل میں دفنا دیا۔

اس واقعے میں گاؤں کے لوگ ایک اجتماعی زیادتی کا شکار ہو کر قتل ہونے والی ایک لڑکی کے خلاف خود مدعی، وکیل اور خود ہی منصف بنے۔ یہ حرکت جہاں قانون اور انصاف کا سر عام قتل ہے، وہاں انسانی تہذیب اور انسانی ہمدردی پر ایک بد نما داغ ہے اور درندگی ، انتقام اور اشتعال کی بدترین مثال ہے۔

اگر اس کہانی پر غور کیا جائے تو یہ ہماری منافقت، درندگی، صنفی تعصب اور بطور قوم ہماری تشدد مزاجی کی عکاس ہے۔ اگر یہ کسی بڑے جاگیردار، سیاست دان، سول یا فوجی آفیسر یا تاجر کی بیٹی ہوتی تو کیا اس کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا؟ یہی سمجھ آتی ہے کہ ہمارے سماج میں غیرت کی نام نہاد آگ ہمیشہ کمزوروں اور غریبوں کے خلاف ہی بھڑکتی ہے۔ صنفی تعصب اور تشدد ہمارے رویوں میں اس قدر راسخ ہو چکا ہے کہ اپنے ہمیں وہ محسوس بھی نہیں ہوتا۔ گھر میں بیٹی پر بیٹے کی ترجیح، بہن پر بھائی کی فوقیت، بیوی پر خاوند کی برتری کا سبق ہم روز پڑھاتے، سکھاتے اور دکھاتے ہیں۔ بیٹیوں، بہنوں، بیویوں اور ماؤں کی ضروریات اور تمنائیں والد، بھائی، خاوند اور بیٹوں پر قربان کی جاتی ہیں۔ گھر میں بیٹے اور بیٹیوں کے درمیان تفریق کا یہ عالم معاشرے میں عام دیکھا جا سکتا ہے کہ بیٹی کی پیدائش پر خوشی کے بجائے دکھ کا اظہار کیا جاتا ہے جب کہ بیٹے کی پیدائش پر خوشی کا اظہار۔ بیٹیوں کو والدین پر بوجھ سمجھا جانے لگا ہے، جبکہ بیٹوں کو ماں باپ کا آسرا، گھر میں بیٹی جب سے ہوش سنبھالتی ہے تب سے وہ یہی سنتی رہتی ہے کہ اس نے بڑی ہو کر کسی اور کے گھر ہی جانا ہے لہذا اسے خدمت کے رموز ہی سکھائے جاتے ہیں۔ بیٹی کی تعلیم و تربیت کو اسی بنیاد پر زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی کہ اس نے یہاں نہیں رہنا۔ بیٹی کو آخر میں بچا ہوا کھانا دیا جاتا ہے، جبکہ بیٹے کو پہلے اور اچھا دیا جاتا ہے۔ بیٹے کا کھانا دسترخوان پر جب کہ بیٹی کو کچن کے کسی کونے میں دیا جاتا ہے۔

کام کاج کامعاملہ ہے تو وہ کونسا کام ہے جو بیٹیوں، بہنوں اور بیویوں سے نہیں لیا جاتا ، گھر کو جھاڑو دینے، کھانا تیار کرنے، برتن دھونے، کپڑے دھونے سے لے کر گھر کی صفائی ستھرائی وغیرہ تک۔ گھر سے باہر کے کام خاص طور پر دیہات میں مال مویشیوں کی دیکھ بال ہو یا کھیتوں میں کام ، غرض عورت ہر وقت خدمت کے لیے تیار رہتی ہے۔ لیکن نہ آفرین، نہ حوصلہ افزائی اور نہ ہی کوئی صلہ، نہ لاڈ نہ پیار!!! جبکہ بیٹے، بھائی اور شوہر شہزادے ہوتے ہیں۔ ماں کی بیتے کے لیے تکالیف کی کہانی بیٹے کے دنیا میں آنے سے پہلے ہی شروع ہوتی ہے اور یہی ماں اپنی آخری سانس تک بیٹے کی آرام دہ زندگی کے لیے تڑپتی رہتی ہے۔ اسی طرح بیوی اپنی زندگی کو اپنے خاوند کے حوالے کر دیتی ہے، دکھ سکھ، غمی خوشی، ہر مشکل اور مصیبت سہنے کے لیے تیار رہتی ہے، اس کے لیے بے پناہ قربانیوں پیش کرتی ہیں !! یہ تو ہو گئی گھر کی مختصر کہانی!!! اب سماج میں عورت کے ساتھ کیا برتاؤ کیا جاتا ہے، اس کو ذرا دیکھتے ہیں۔ ماؤں کو اپنی بیٹیوں کے بارے میں یہ خوف ہر وقت ستاتا رہتا ہے کہ اُن پر کسی سنگ دل مرد کی بے شرمانہ نظریں نہ پڑیں۔

سماج میں روز پیش آنے والی اور ذرائع ابلاغ پر دکھائی جانے والی دل خراش کہانیوں اور واقعات کو دیکھ کر ماں ہر وقت اسی اضطراب کے ماحول میں اپنے دن رات گزارتی ہے کہ کہیں یہی خبریں میری آنگن سے نہ نکلیں!!!! لڑکوں کی دھوکہ دہی، استحصال، بلیک میلنگ اور شادی اور دوستی کے جھوٹے وعدوں کے شکار ہونے والی لڑکیاں نہ اپنے گھر کی رہ جاتی ہیں اور نہ ہی انہیں سماج قبول کرتا ہے۔ اُسے ناقص العقل، بے وقوف اور طرح طرح کے طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اب تو کوئے یار میں ایسی کسی ملزم اور مقتول کے لیے دو گز زمین بھی میسر نہ رہی۔ ۔ لیکن اصل مجرموں ( عفت ریزی اور عصمت دری کرنے والوں) کو گھر میں بھی قبول اور سماج میں بھی انہیں ہیروز کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے گرد لڑکے جمع ہو کر کہنے لگتے ہیں ”سانوں وی دسو یار کہ کڑیاں نوں کیویں پھنسانا ہے؟ (ہمیں بھی بتاﺅ کہ لڑکیوں کو کیسے زیر دام لاتے ہیں) وہ پھر بڑے احساس تفاخر سے اپنی فاتحانہ کرتوت سنانے لگتے ہیں۔ کسی کی بیٹی یا بہن کی عصمت دری کی قصہ خوانی کے دوران نہ سننے والوں میں شرم اور نہ سنانے والوں میں حیا کی کوئی رمق!

ہمارا سماج بھی ایک مردانہ سماج ہے جہاں ہر طرح کی اخلاقی، مذہبی اور سماجی فوقیت مرد کو ہی حاصل ہے جبکہ عورت کمزور، لاچار، بے آسرا اور بے بس اور مرد کی خدمت گار مخلوق کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کی بے بسی کی دل سوز کہانیاں بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے مختلف روپ اور کرداروں میں آپ روزانہ سن اور دیکھ سکتے ہیں۔ تہمینہ کی کہانی کی طرح آبرو ریزی کی کہانیاں آپ کو اپنے ہی اطراف میں ملیں گی۔

خداوندان سماج سے میرے دس سوالات ہیں:

1. کیوں مرد (بیٹا، بھائی، شوہر) ہونے پر احساس برتری ہوتا ہے اور عورت (بیٹی، بہن اور بیوی) ہونے پر احساس کم تری؟ کیا ہمارے سماج میں صنف ہی احساس برتری جتلانے کا ذریعہ قرار پائی ہے؟

2. گھریلو تنازعات سے لے کر سماجی برائیوں تک کیوں ہر سماجی برائی، فتنہ فساد، جھگڑے اور لڑائی میں کوئی ہاتھ ہو نہ ہو، ذمہ دار عورت کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے؟

3. مرد کے دھوکے، للچائی نظروں، جھوٹے وعدوں اور جنسی جرائم کو سماجی قبولیت کیوں حاصل ہے جبکہ عورت کے چہرہ اور کلائیوں اور پنڈلیوں کے نظر آنے پر ہر دم سماجی و مذہبی فتاوی کی بھرمار؟

4. حیا، غیرت اور عفت وغیرہ کے عناوین صرف عورت کے ساتھ کیوں مختص کیے گئے ہیں؟ اس اخلاقی تفریق کا جواز کیا ہے؟ کیوں اخلاقی معیارات پر مرد کو برتری دی گئی ہے؟ مرد کی جابرانہ بے حیائی چھوٹی اور عورت پر ہونے والی زیادتی بھی عورت ہی کے لیے سماجی بے قدری کی وعید!!! مرد کا گنا ہ چھوٹا اور عورت کا گنا ہ بڑا کیوں اور کیسے ہے؟ کیوں مرد عورت پر زیادتی کے بعد ہیرو قرار پاتے ہیں اور عورت ایک بالجبر گناہ کے بعد زندگی بھر کے لیے آنکھ اٹھا کر چلنے سے بھی قاصر ہو جاتی ہے؟

5. عورت بالغہ اور رشید ہ ہونے کے باوجود بہت سے نجی، گھریلو اور سماجی معاملات میں وہ اپنی بہتری کا فیصلہ کیوں نہیں کر سکتی ہے ؟ تعلیمی کیرئیر، ملازمت کے مواقع اور شوہر کے انتخاب وغیرہ جیسے بنیادی اور فیصلہ کن مراحل میں کیوں اسے مرد کے فیصلے (چاہے اسے وہ پسند ہوں یا نہ ہوں، بہتر ہوں یا نہ ہوں) کو ہی قبول کرنا پڑتا ہے؟

6. عورت پر یہ اصرار کیوں کہ وہ صرف اپنے گھر میں ہی کام کر سکتی ہے؟ اسے اعلیٰ تعلیم و تربیت اور مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آگے بڑھنے سے کیوں روکا جاتا ہے؟ اسے کیوں روایت سے بغاوت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے؟ کیوں سماج کی تعمیر و ترقی میں عورتوں کو عضو معطل کی طرح سمجھا گیا ہے؟ تعلیم، صحت اور بہتر کام کے مواقع سے ملک کی نصف سے زیادہ آبادی پر مشتمل عورتیں محروم کیوں ہیں؟

7. عورتوں کی آبادی مردوں کی آبادی سے زیادہ ہونے کے باوجود تعلیمی و تر بیتی ادارے اور سماجی مراکز مرد اور خواتین کے لیے یکساں کیوں نہیں ہیں؟۔ کیوں شہر میں لڑکوں کے بیس سکول اور کالجز اور لڑکیوں کے دو سکو ل اور کالجز ہوتے ہیں؟ کیوں اکیاون فیصد آبادی پر مشتمل خواتین کو ریاستی اور سماجی اداروں میں نمائندگی تیس فیصد بھی نہیں ہے؟

8. دین کی تشریح اور بیان میں خواتین کا تناظر ادارتی سطح پر مورد نظر کیوں نہیں ہے؟ کیا دین کے مختلف پہلوؤں کی تفہیم و تشریح کے جملہ حقوق صرف مردوں کے لیے خاص ہیں؟

9. کیوں مذہب، قانون، ریاست، عدالت ، میڈیا سب کمزوروں کی غلطیاں نکالنے ، انہی پر ہی اپنا دباؤ رکھنے اور انہی کو ہی ہر معاملے میں غلط ٹھہرانے پر لگے ہوئے ہیں؟

10. خواتین کے معاشی، سماجی اور انسانی حقوق پر بات کرنا کیوں مغربی ایجنڈا قرار دیا جاتا ہے؟ کیا مشرقی تہذیب یا اسلام میں عورت کے حقوق اور مقام کا کوئی عملی تصور نہیں ہے؟ ہم کب تک عورت کے کتابی حقوق اور مقام کی مدح سرائی میں زمینی حقائق سے منہ چراتے پھریں گے؟

ہمارے سماج کی ہمہ جہت تعمیر و ترقی کے لیے ضروری ہے کہ کسی خوف و ہراس، صنفی تعصب و تشدد کے بغیر زندگی کے مختلف شعبوں میں مرد و عورت کو اپنے اپنے فرائض سر انجام دینے کے یکساں نہیں تو کم از کم متناسب مواقع اور وسائل دستیاب ہوں۔ اس مقصد کے لیے سماج میں ایسے متوازن رویے پروان چڑھانے کی ضرورت ہے جو ٹھوس اخلاقی بنیادوں پر استوار ہو۔

آپ کی رائے

comments

محمد حسین

محمد حسین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ دینی تعلیم کے علاوہ ایجوکشن میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں ، ایک ماہر نصاب کے طور پر اب تک بارہ کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کیا ہے۔ ایک پروفیشنل ٹرینر کی حیثیت سے پاکستان بھر میں مختلف درسگاہوں اور مراکز میں اب تک ایک ہزار سے زائد اساتذہ، مختلف مسالک و مذاہب سے وابستہ مذہبی قائدین اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں کو فن تدریس، ، قیادت، امن، مکالمہ، حل تنازعات، نصاب سازی ، تعصبات اور مذہبی ہم آہنگی جیسے مختلف موضوعات پر پیشہ ورانہ تربیت دے چکے ہیں۔ ریڈیو ، ٹی وی اور ویب سائٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button