کالمز

لبرل جمہوری پاکستان کاخواب چکناچور

کریم اللہ
چارنومبر2015ء کو اسلام آباد میں سرمایہ کاری کانفرنس سے خطاب کے دوران وزیراعظم پاکستان نوازشریف نے کہا کہ ’’عوام کا مستقبل جمہوری اورلبرل پاکستان میں ہے،پاکستان نے انتہاپسندی اور دہشتگردی پر قابوپانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے ،قوم نے یہ فیصلہ کرلیا ہے کہ ہم اپنے معاشرے کے کسی طبقے میں بھی انتہاپسندی اوردہشتگردی کے کینسر کو پھیلنے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘۔ اس کے چند روز بعد کراچی میں دیوالی کے موقع پر ہندو برادی کی اجتماع میں شریک ہوئے یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی اعلیٰ حکومتی اہلکاراقلیتی برادری کے کسی مذہبی تہوار میں شرکت کی ہو، اجتماع سے مخاطب ہوکر وزیراعظم نے کہا’’میں مسلمانوں کے علاوہ ہندووں،سکھوں،عیسائیوں اور پارسیوں کا بھی وزیر اعظم ہوں۔میں آپ کا ہوں ،اور آپ میرے ہیں۔مجھے ہولی پر بلائیں اورجب میںآؤں تو مجھ پررنگ ضرور پھینکیں‘‘۔ان کا کہنا تھا کہ ’’قوم میں اتحاد اور اتفاق پیداکرنا میرامشن ہے ،تمام مذاہب کے لوگ ہم آہنگی کوفروع دیں،ظالم کے خلاف آپ کے ساتھ کھڑارہوں گا،اگر ظالم مسلمان بھی ہوتو میں مظلوم کا ساتھ دونگا‘‘۔
وزیر اعظم کی ان بیانات کے بعد ملک کے نیولبرل ،روشن خیال طبقات میں خوشی کی لہردوڑ گئی کہ چلو’’دید آید درست آید‘‘بالآخر دائین بازو کے سخت گیر مذہبی سوچ کے حامل مسلم لیگ (ن) کے سربراہ کو ارضی حقائق کا ادراک ہوگیا، اور شائد اب پاکستان ماضی کی تاریکیوں سے نکل کر روشن خیالی اوراعتدال پسندی کی راہ پر گامزن ہوگا۔البتہ بعض روشن خیال دانشوراس خدشے کا بھی اظہار کررہے تھے کہ کہیں وزیراعظم ملکی سیاسی فضاء کی صورت حال کو بھانپ کر سن 2018ء کے پارلیمانی انتخابات میں لبرل طبقات کی حمایت حاصل کرنے کی غرص سے یہ شوشہ تونہیں چھوڑ دیا ہے ۔لیکن عمومی طورپر وزیراعظم پاکستان کے ان دونوں بیانات سے یہ تاثر ا بھراتھا کہ شاید نواز شریف کی قیادت والی موجودہ حکومت حقیقی انداز سے ملک میں انقلابی تبدیلی لانے کے خواہاں ہے اور ملک کوحقیقی لبرل معاشرے میں تبدیل کرنے کا آغاز آئینی نظام کو سیکولر بنیادوں پر استواء کرکے شروع کیاجائے گا،جبکہ ریاست کے موجودہ آئین کے دیباچے سے قراردادِمقاصد کوحذف کرکے اسکی جگہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی 11اگست 1947ء کو قانون ساز اسمبلی میں کی جانے والی اس تاریخی تقریر کو شامل کیاجائے گا جسمیں انہوں نے مکمل وضاحت کے ساتھ امورِ مملکت سے مذہب کو علیٰحدہ رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔لیکن لبرل طبقے کی خوابوں کا شیش محل اس وقت ’’حقائق کی بے رحم سنگ باری ‘‘ میں چکناچورہوگیا جب پنجاب کے شہر جہلم میں مشتغل بلوائیوں نے احمدی برادری کی ایک فیکٹری کو آگ لگادی ۔رپورٹوں کے مطابق فیکٹری کے ڈرائیور نے ایک ملازم پر الزام عائد کیا ،کہ انہوں نے قرآن کریم کو نذرِ آتش کردیا ہے ۔ اس الزام کے بعد سکنڈوں میں ہزاروں بپھرے ہوئے افراد جمع ہوکر فیکٹری کی جانب بڑھے ،گیٹ توڑ تے ہوئے اندرداخل ہوکر فیکٹری کو نذرِ آتش کردیا ۔فیکٹری کے اندر موجود 15 ملازمین اور مالک بمشکل جان بچاکر وہاں سے بھاگنے میں کامیاب ہوئے ۔ خوش قسمتی سے اس دہشتگردانہ واقعے میں کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔سانحے کے اگلے روز ایک مرتبہ پھر مشتغل ہجوم نے فیکٹری کے قریب واقع جماعت احمدیہ کی عبادت گاہ پر دھاوا بول دیا، وہاں موجود سامان کو باہر لاکر جلاڈالااور عبادت گاہ کو غسل دے کر وہاں نماز اداکی۔ اس ساری صورتحال میں پولیس کاکردارخاموش تماشی کا رہا۔
پنجاب پولیس کا بھیانک چہرہ:
پولیس کی ذمہ داری درحقیقت معاشرے میں قانون کا نفاذ اور شہریوں کی جان ومال اور عزت آبرو کی حفاظت ہوتی ہے ۔لیکن پنجاب پولیس کا تاریخی کردار زیادہ حوصلہ افزا ء نہیں رہاہے۔کیونکہ پولیس کی موجودگی کے دوران شدت پسندوں کی جانب سے بے گناہ شہریوں کو سرے عام موت کی گھاٹ اتارنے کے واقعات اکثر رونما ہوتے آئے ہیں ۔چند دبرس پہلے رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں سیالکوٹ کے ایک بااثر گروہ نے دوبھائیوں کو پولیس کی موجودگی میں موٹرسائیکل سے اتار کر چوری کے الزام میں لاٹھیوں سے مارمار کر ہلاک کردیا ان کی لاشوں کو ٹرک کے پیچھے باندھ کر پورے شہر گھومانے کے بعد چوک میں لٹکادیا گیا ۔لیکن پولیس کو ان دہشتگردوں کا ہاتھ روکنے کی زحمت نہ ہوئی ۔ایک برس قبل لاہور ہائی کورٹ کے احاطے میں غیر ت کے نام پر باپ اور بھائیوں نے خاتون کو پتھر مارمار کر ہلاک کردیا جبکہ پولیس سمیت عوام کا ہجوم تماشہ دیکھتے رہے ۔لاہور کے جوزف کالونی کو جلانے،احمدیوں کے قتلِ عامِ ،کورٹ رادھاکشن میں مسیحی جوڑے کو زندہ جلانے ،پچھلے سال ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد کے موقع پر لاہور ہی میں تحریکِ منہاج القرآن کے کارکنوں کو گھیر کر ان کے خلاف جلیانوالہ باغ جیسے قتلِ عام میں پنجاب پولیس کاکردارنمایاں نظرآتاہے ۔ اب جہلم کے سانحے میں پولیس اپنی ماضی کی روایات کو دھراتے ہوئے دہشتگردوں کے سامنے بے بس یاپھر ان کے حمایتی نظر آئے ۔ڈی پی او جہلم اس واقعے کے بعد اپنے انٹرویومیں کہا ’’جب مشتعل ہجوم فیکٹری کی جانب بڑھ رہے تھے تو پولیس نے فیکٹری میں موجود ملازمین کو بھاگنے میں مدد دی ورنہ کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ رونما ہوسکتاتھا‘‘۔اس بیان سے واضح ہوگیا ہے کہ پولیس قانون نافذکرنے کے اپنے فرائض کی ادائیگی میں مکمل طورپر ناکا م ہوچکی ہے کیونکہ جب صورتحال بہت زیادہ خراب ہوگئی تو شہر میں امن وامان کو برقرار رکھنے کے لئے فوج کو طلب کرنا پڑا۔
جہلم سانحے کا پیغام:
جہلم میں رونما ہونے والی دہشتگردی کے اس واقعے سے وزیر اعظم نواز شریف کے لبرل جمہوری پاکستان کے دعوے زمین بوس ہوگئے ہیں،اس سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیاجاسکتاہے کہ نیشنل ایکشن پلان،آپریشن ضربِ غضب اوردہشتگردی کے خلاف جنگ کے بلندوبانگ دعوے اصل میں وہ لالی پوپ ہے جس کے ذریعے حکمران عوام کی آنکھوں میں دھول جونک رہے ہیں۔فوج کے سربراہ جرنیل راحیل شریف نے چند روز قبل کورکمانڈر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاتھا’’دہشتگردی کے خلاف جنگ کے دیر پانتائج کے لئے ضروری ہے کہ حکومت بہتر طرزِ حکمرانی کی جانب توجہ دیں‘‘۔ سپہ سالار کے اس بیان اور حالیہ جہلم واقعے کوسامنے رکھ کردیکھاجائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دراصل موجودہ حکومت بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔واقعہ جہلم سے اس بات کا بھی عندیہ ملتاہے کہ مشتغل دہشتگردجب چاہے حکومتی عملداری کو پاؤں تلے روندکر قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں جبکہ حکومت ایسے مواقع پر خاموش تماشی سے بڑھ کر اور کچھ کرنے کے اہلیت نہیں رکھتے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button