کالمز
صدا بصحرا ۔۔۔۔۔۔۔۔ بھولی بسری یادیں
چاق و چوبند فرنٹیر کور کے چترال سکاؤٹس کا نعرہ ہے۔ انگریزی میں اسکو ماٹو کہا جاتا ہے۔ 90سال سے اوپر کی عمر کے تین چاق و چوبند ا و ر صحت مند بزرگو ں کو ان کے یو نٹ ہیڈ کوارٹر میں کما نڈ نگ آفیسر کے ساتھ چا ئے پر بلا یا گیا تو بھو لی بسری یادیں تازہ ہوگئیں۔ ان یادوں میں قیام پاکستان سے پہلے چترال ، وزیرستان، وانا،جنڈولہ، خیبراور پشاور کی یادیں بھی شامل تھیں۔قیام پاکستان کے بعد کشمیر،لداخ،سکردو،تراگبل،استور،منی مرگ اور گلگت کی یادیں بھی نمایاں تھیں۔یہ ایک یادگار ٹی پارٹی تھی۔
اس کے منتظم لیفٹنٹ کرنل (ر)سردار محمد خان اور میز بان کر نل نظام الدین شاہ تھے۔مہمانوں میں 92سال کے بزرگ سردار حسین اور 91سال کے بزرگ لانس نائیک اشرف خان اور 90سال کے بزرگ لیفٹنٹ (اعزازی)ظفرعلی خان شامل تھے۔ان بزرگوں نے قیام پاکستان سے پہلے انگریزوں کے دور میں چترال سکاوٹس میں شمولیت اختیار کی۔ قیام پاکستان کے وقت خدمات انجام دیں اور قیام پاکستان کے بعد جہاد کشمیر میں عملی طور پر حصہ لیا۔ سردار حسین کا تعلق حکمران خاندان کٹورے قبیلہ سے ہے۔ ناخواندہ ہونے کی بنا پر انہیں ان کے بلند قد کی وجہ سے آرٹلری میں بھرتی کیا گیا۔ اگر خواندہ ہوتے تو انہیں جونیئر کمیشن مل سکتا تھا۔ انہوں نے کمانڈنگ آفیسر کے ساتھ پرانی یادوں کا تبادلہ کرتے ہوئے کہا۔ میں چترال سکاؤٹس میں بھرتی ہوا۔ تو میجر وائٹ بڑے آفیسر تھے۔ انکو چترالی زبان کھوار بھی آتی تھی۔ ناخواندہ جوانوں کے ساتھ انکی مادری زبان میں بات کرتے تھے۔ انکا بڑا رعب اور دبدبہ تھا۔ ہز ہائنس ناصر الملک ریاست کے حکمران میتا ر تھے۔ بعد میں ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ کاغذات میں کمانڈنٹ کا عہدہ ہز ہائنس کے پاس تھا۔ اور یہ بہت کم لوگوں کو معلوم تھا۔ آرٹلری میں بہت سے گن تھے۔ کچھ گن وہ بھی تھے۔ جو 1919کی جنگ میں افغان فوج کی شکست کے بعد مال غنیمت میں آئے تھے۔ گن کا گولہ نالی کے منہ سے لوڈ کیا جا تا تھا۔ میں اپنے گن کے ساتھ کشمیر کے محاذ پر گیا۔ او پی کے اشارے پر کامیاب گولے داغے گئے۔ گن فائر سے دشمن کو بہت نقصان ہوا۔ چترال سے گن کو خچروں کے ذریعے کھینچ کر کئی پہاڑی دروں کو عبور کر کے 27دنوں میں کشمیر کے محاذ پر پہنچایا گیا۔ سردی کا موسم ہم نے برفانی دروں میں گزارا۔ گویا انکا کہنا تھا کہ “ہمارا خون بھی شامل ہے تزئن گلستان میں “لانس نائیک اشرف خان نے اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کرنل ضیاء الدین شاہ کو بتا یا کہ 1943میں ان کی ریکروٹمنٹ ہوئی۔ پہلے رول کال میں میجر وائٹ نے کہا۔ پڑھے ہوئے جوان ہاتھ اٹھائیں۔ میں نے بھی ہاتھ اٹھایا۔ کسی نے چوتھی جماعت، کسی نے چھٹی جماعت تک پڑھا تھا۔ میں نے صرف قرآن پڑھا تھا۔ ہم 8جوان تھے۔ مقامی جے سی او نے کہا اس نے صرف قرآن پڑھا ہے۔ اس کو ناخواندوں میں واپس بھیج دو۔ میجر وائٹ نے یہ بات سنی تو کھوارمیں بولا قران بھی کتاب ہے۔اس کو خواندہ شمار کرواورسگنلز میں داخل کرو۔ریکروٹس کی تربیت کے دوران ایک سال کے اندر میں نے چھٹی جما عت کے برابر لکھنے پڑھنے کی استعداد پیدا کی اور سگنلز کی ٹرنینگ کے لئے پہلے لوکہا رٹ لین پشاور چھاونی اور پھر جنڈولہ وزیرستان چلا گیا۔چند سال بعد مجھے انسپکٹربنا کرشا گئی خیبر ایجنسی بھیج دیا گیا۔جہاد کشمیر کے دوران تراگبل،استور اور منی مرگ کے محاذوں پرکیپٹن محمد طفیل کے ساتھ وائرلیس اوپریٹر کی حیثیت سے ڈیوٹی دی۔ بعد میں مشرقی پاکستان کے اندر ایک سرحدی جھڑپ میں میجر محمد طفیل شہید ہوے اور انہیں نشان حیدر ملا۔وہ نہایت شفیق،ملنسار اور دیانت دارآفیسر تھے۔اس زمانے میں ایک پاؤ راشن اور ایک کارتوس اِدھراُ دھر ہوجاتا تو چار عہدیداروں کو ڈسمس کیا جاتا تھا۔وہ ایسا دور تھا۔لانس نائک اشرف خان نے بتایا کہ ریٹایرمنٹ کے بعد ریاستی سکول میں مجھے ٹیچر لگایا گیا۔میرا پہلاشا گرد اکرام خان پاک فوج سے کرنل ریٹائر ہوا۔ میرے ایک اور شاگرد نے تاریخ میں پی ایچ ڈی کیا۔دیگر شاگردوں میں وکیل،صحافی،انفارمیشن آفیسر اور پو لیس آفیسر شامل ہیں۔لیفٹنٹ ظفر علی خان(تمغہ خدمت)نے اپنی یا دوں کے چراغ روشن کرتے ہوئے کہا کہ مجھے 1942ء میں بحیثیت جے سی او کمیشن ملا۔رائل فیملی سے تعلق رکھنے والے خواندہ جوانوں کو یہ سہولت حا صل تھی۔میں نے وانا جنوبی وزیرستان میں دو سال تربیت حا صل کی۔اس زمانے کا وزیرستان آج کل کے مقابلے میں زیادہ پُر ا من تھا۔سروس کا پورا عرصہ میں نے ہیڈ کوارٹر دروش میں گزارا۔مجھے یہ ا عزاز حاصل ہے کہ 14اگست1947کے دن میں ڈیو ٹی پر تھا۔برطانوی جھنڈا یونین جیک میں نے اتارا۔ اس روز پاکستان کا جھنڈادستیاب نہیں تھا۔اس کی جگہ یو نٹ کا مارخور والا پرچم لہرایا گیا۔ایک ماہ بعد پاکستان کا جھنڈا لایا گیا۔تو اتفاق سے پھر میری ڈیوٹی کا دن تھا۔ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم یونٹ کے ہیڈکوارٹر پر پہلی بار لہرانے کا اعزاز بھی مجھے حاصل ہوا۔ چترال سکاؤٹس کے کمانڈنٹ کرنل نظام الدین نے یونٹ کے بزرگ پنشنروں کا شکریہ ادا کیا۔ بزرگوں نے جوابی شکریہ ادا کرتے ہوئے اس دن کو تاریخی دن قرار دیا۔ اس موقع پر مہمانوں کو تحائف دے کر رخصت کیا گیا۔
اب اپنی حقیقت بھی ساغر بے ربط کہا نی لگتی ہے۔
دنیا کی حقیقت کیا کہیئے کچھ یاد رہی کچھ بھول گئی۔