کالمز

بر ملا اظہار : شہرِ اقبال اور خوابِ اقبالؒ 

 فدا علی شاہ غذریؔ

آج سے غا لباً ۶ سال قبل اقبال کے شہر سیا لکوٹ میں بے اقبال درندوں نے اقبال کے دو شا ہینوں منیب اور مغیث کو درد ناک اذیت دے کر اُن کی رو حیں راہ عدم کی

جا نب روانہ کر دیئے تھے۔۔۔بھرے ہجوم میں ریاست کے چہرے پر بد نما دا غ اپنی درندگی سے دو معصوم جا نوں کی زندگی کا چرا غ پا وں میں روند کر گل کر رہے تھے تو شہر اقبال کے درد دل با سی اُن کی تصویریں اور فلم بنا ر ہے تھے۔۔ اور اللہ کا کر نا یہ ہوا کہ اُن تصویروں اور ویڈیوز کی مدد سے ریا ست کے کچھ مہر بان پو لیس آفیسر ملزموں

کو نہ صرف پہچان لئے بلکہ گر فتار کر کے کیفر کردار تک پہنچا دیا۔اُن میں سے دو کو پھا نسی چند ایک کو بھاری جر ما نے کے ساتھ کم ازکم ۲ سال قید کی سزا سنا دی گئی لیکن معلوم نہیں کہ اس کے بعد کیا ہواکیو نکہ اُن کی سزا کے اعلان کے بعد میرا کلیجہ ٹھنڈا ہوا اور اس واقعے کو فا لو کر نا چھو ڑ دیا۔۔۔لیکن کل سو شل میڈیا اور پھر چینل پر شہر اقبال میں

رو نما ہو نے والا ایک اور دل سوز واقعے نے نہ صرف دل ہلا کر رکھ دیا بلکہ منیب اور مغیث کا غم تازہ کر دیا ۔۔۔رات بھر نیند نہیں آئی اور صبح تک ایک بے بس ، محکوم ، لا چار اور مجبو ر خوا جہ سراکی دہا ئی کانوں کو بے چین کرتی رہی اور دل ماتم کر تا رہا۔۔ نہ جا نے ہم سے کو نسی بھول ہو ئی ہے جس پر قدرت ہمیں ہر آئے روز نئے امتحان سے دو چار کر تی ہے۔۔۔ایک واقعہ کے بعد سا نحات جنم لیتی ہیں اور یوں ہمیں سکھ کا چہرہ نصیب نہیں ہو تا۔ ابھی کو ئٹہ میں شہید ہو نے والے اپنے جا نبا زوں کو نہیں بھو لے تھے کہ شاہ نو را نی کے زائر ین کے بے گناہ لہو نے شاہ نو را نی کے دربار کا امن و سکون و آشتی بھی سا تھ بہا کر لے گیا اور آج دربار کے کبو تر بھی خوف کے مارے اُ ترتے نہیں جہاں وہ سکون کی زندگی اور دربارپر اپنے حصے کے دانے چگنے آتے تھے۔۔جو زائرین مرا دیں لے کر دربار گئے تھے جنا زے بن کر یا جنا زے اُٹھا کر واپس ہو ئے ۔۔ مُلا تو زور دار آواز میں چیخ کر یہ بتا تا ہے کہ زلزلے اور سما وی آفات ہمارے کردہ گنا ہوں کی سزا بن کر نازل ہو تے ہیں لیکن یہ بتا تے ہو ئے چپ لگتا ہے اور اُن کی زبان بند ہو جا تی ہے کہ حفظ و آمان کے دروں پر پھٹنے والے آ خر کہاں سے اور کیوں نا زل ہو تے ہیں؟ قدرتی آفات تو باری تعا لیٰ کے حکم پر آتے ہو نگے پھر یہ زمینی بلا و غلا ظت کہاں سے اُ ڑ تی ہے۔۔ اور کیو نکر سر اُٹھا تی ہے؟۔۔ہمیں تو ’’صفا ئی نصف ایمان‘‘ کہا گیا ہے تو پھر اس غلا ظت کو کب اور کون ٹھکا نے لگا ئے گا؟ نہ جا نے کتنی نسلیں اس گند بلا میں سسک سسک کر جا ن د یں گی ۔ ریاست کے متوالے ، رکھوا لے اور حاکم ہمیں اس کہا نی میں ید بیرو نی کی دا ستا نیں سنا رہے ہیں۔۔جبکہ ہم انہیں ایسے نا پاک اور منحوس ہا تھوں سے ہمیں محفو ظ رکھنے کے لئے منتخب کر تے ہیں اور اپنے ان نا تواں ہا تھوں سے کما کر اُن کے خاندانوں ، عزیزوں ، دو ستوں اور رشتہ داروں کو کھلا تے ہیں۔۔بات صرف کھلا نے کی ہو تی تو کو ئی با ت ہی نہ تھی لیکن ہم انہیں سب عیاشیاں فراہم کر تے ہیں۔۔ان کے کتے اور بلیاں بھی قومی جہازوں میں سفر کرتی ہیں۔۔ان کے خاندان کے کھا نے بھی سر کاری ہیلیوں میں پہنچا ئے جا تے ہیں۔۔۔ اور کیا کیا نہیں فراہم ہو تے ۔۔بس ہم ہیں کہ بیرو نی ہاتھ سے محفوظ نہیں ہو سکتے۔۔ یہ ہاتھ ڈھو نڈ نے اور کا ٹنے میں دیر کیوں ہو جا تی ہے؟ او ر اس تا خیر کا کیا مطلب ہے ؟ ہمیں بتا دیں ہم آپ کو ید عدو دیکھا ئیں گے ا گر آپ میں ہمت نہیں تو چھو ڑ ےئے نا صاحب!! اس ہاتھ کا علاج بھی ہم کر یں گے ۔۔۔ہم تو ڑیں گے۔۔مرو ڈیں گے۔۔کچھ نہ کچھ تو ہم کر ہی لیں گے نا! !!

سیا لکو ٹ کا اقبال جب اقبال مند ہوا تو اُنہوں خواب دیکھا ۔۔ کہ مسلما نان بر صغیرایک خو شحال ملک میں جی رہے تھے۔۔ جہاں طرز جہان با نی کے اسلامی اُصول نا فذ تھے۔۔جہاں زیر دست پر زبر دست غا لب نہیں آتا تھا۔۔جہاں کے حکمرا نوں کی سرشت میں نا مو ر خجستہ صفات شا مل تھیں۔۔۔جو سر تا پا نیک نہاد فر ما نراوا تھے۔۔، ہر طرف دودھ اور شہد کی نہر یں بہہ رہے تھے ، چرند سے لے کر پرند تک سب ان کے گرد بلا خوف آزادانہ گھوم رہے تھے۔۔ امن اس طرح کا کہ سب آمان پا چکے تھے کہیں کو ئی بے چینی نہیں تھی۔۔۔ شیرو بکری ایک گھات سے پا نی پیتے تھے، مہذب اتنے تھے کہ کو ئی غیر انسانی کام کا سو چ ہی نہیں سکتے تھے، اخلاق اور باکرداری بھی پا ئے کی تھی کہ حو ر جیسی پری بال کھول کر سر راہ سو جا یا کر تی تھی اور جو انان اسلام کی نظریں جھکی ہو ئی ہو تیں تھیں۔۔ ۔۔۔اقبال کے استفسار پر بتایا گیا کہ یہ پا کستان ہے۔۔ جہاں۹۸فیصد مسلمان ایک ہی صف میں محمو د اور آیاز بن کر کھڑے ہیں۔۔اور ہر جگہ اور ہر انچ زمین اسلام کے اُصولوں سے خا لی نہیں ہے، ہر انسان کے چہرہ اسلام کے نور سے منور ہے۔۔ اقبال نے دیکھا کہ مسلمان آپس میں بھا ئی بھا ئی ہیں، ایک کے پا وں میں کا نٹا چھبنے سے سب کے جسم میں درد محسوس کیا جاتا ہے، ایک کی تکلیف سب پر بھاری اور ایک کا غم سب کا غم، ایک کی خو شی سب کی خو شی اور تو چھو ڑ ےئے جناب!! ہر طرف تیری چیز میری چیز کا نعرہ گو نج رہا ہے ۔۔اقبال کی خو شی کی انتہا نہ رہی کہ مسلمانوں کو جنت جیسا ما حول ملا ہے۔ ۔ اے کاش! مجھے اقبال سے خواب میں بھی یہ پو چھنے کا مو قع مل جاتا کہ جو اُس نے دیکھا تھا کیا یہ وہی پاکستان ہے؟ یہ وہی شہر ہے جہاں اُ نہوں نے آنکھ کھو لی؟ اور بر صغیر کے مسلمانوں کا درد محسو س کیا۔۔ ان کے لئے ایک اچھا خواب دیکھا اور دہائیوں کے بعد اُن کا خواب شر مندہ تعبیر ہوا ۔۔ مجھے نہیں معلوم کہ منیب اور مغیث پر گزرے ظلم اور بر بر یت پر اقبال کی روح تڑپ اُ ٹھی کہ نہیں۔۔ وہ دو نوں بے گناہ بھا ئی اپنے ظلم کی داستان منزلِ عدم میں اقبال کو سنا سکے کہ نہیں لیکن میرا دل ما نتا ہے کہ شیا نا پر ڈھا یا گیا ظلم اور بر بر یت ، درندگی ، سفا کی اور بے دردی پر اُن کی روح ضرور بے قرار ہو ئی ہو گی کیو نکہ اُن کے شہر پر قہر درویش کا اثر ہو نے لگا ہے۔۔خدا شہرِ اقبال کو سلامت رکھے !!اور اُن کے شا ہین اعجاز ججا نا می درندے کی آ نکھیں نکال دیں ۔۔۔اور انہیں عبرت کا نشان بنا کر چھو ڑ دے تا کہ وہ اپنی غلیظ وجود سے خدا کے عا جز انسانوں کو تکلیف نہ پہنچا سکے ۔۔کاش میری ملا قات اقبال سے ہو تی تو رو رو کر فر یاد کر تا کہ حکیم اُمت!! اپنی تصویر کی نقل اتار نے والے نام نہاد خادم اعلیٰ سے پو چھ لیجئے گا کہ پنجاب پو لیس کی چھترول شریف النفس انسا نوں کے لئے مختص کیوں ہے ۔۔اور بے ضرر انسانوں پر ستم ڈھا نے والوں کا اس چھترول سے کیا رشتہ و واسطہ ہے ؟۔۔ میں پو چھ ہی لیتا۔۔ کہ حضرت!! نگا ہ مصطفٰی ؐ کی مو جو دگی میں حساب نہ لینے کا التجاخود کے لئے تھا یا منیب ، مغیث اور شیا نا پر ظلم ڈھا نے والے سیالکو ٹی درندوں کے لئے؟ سرو ر کا ئنات احمد مصطفٰی و مجتبی کی اُمت کا کیا حا ل ہوا ہے اقبال !! کیا کو ئی دوسرا خواب ممکن نہیں کہ ایک ایسا پا کستان ہو جہاں آپ کی اس دعا کی تا ثیر سے ہی درندے سدھر جا ئے۔۔حکمران سبق سیکھے۔۔۔اور مسلمان نگاہ مصطفٰیؐ کے سامنے اپنا کھا تا کھولنے کی رب سے التجا کر سکے اور کسی کو یہ کہنے کہ ضرورت ہی نہ ہو۔۔۔ہے کو ئی ایسا؟؟؟

تو غنی ا ز ہر دو عا لم من فقیر

روز محشر عذر ہا ئے من پذیر

گر تو می بینی حسا بم نہ گزیر

از نگا ہ مصطفی پنہان بگیر

اے خدا ئے بزرگ و بر تر! آپ دونوں جہانوں سے بے نیاز ہے اور میں ایک فقیر ہوں روزحشر میں میرے گنا ہوں کو در گزر فرما۔ اگر میرا حساب لینا نا گزیر ہوا تو مجھے محمد مصطفیؐ کی نگا ہوں سے بچا کر حساب لینا۔(اقبال)

یار زندہ صحبت با قی!!

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button