تحریر: شمس الحق قمرؔ گلگت
ایک بہت ہی چھوٹی مگر معنی خیز کہانی میں آپ کے ساتھ بانٹنے کی کوشش کرتا ہوں ۔ چونکہ قصہ دیوانوں کا ہے لہذا پہلے دیوانوں کی ایک ایسی تعریف جو مجھے بہت اچھی لگی وہ میں آپ کو بتاتا ہوں ۔ کسی ایک سیانے نے پاگل کی یوں تعریف کی ہے : ایک عام شخص جو اپنے مرکز سے باہر نکلے اور ایسی ایسی باتیں کرنے لگے کہ جن کا تعلق ہماری دنیا سے بہت کم ہو یا بالکل نہ ہو وہ پاگل یا دیوانہ ہے اور اپنے مرکز سے نکل کر کچھ غیر معمولی باتیں کرنے کے بعد واپس اپنے مرکز میں آکر پہلے کی طرح اپنے خول میں مقیّد ہو وہ شاعر ہے ۔ ایک دیوانہ غالبؔ تھا جس نے عام لوگوں کی ذہنی سطح سے اُوپر کی باتیں کیں تو عوام کی بہت بڑی تعداد نے غالبؔ کی اس حرکت کوذہنی ضعف کا نتیجہ قرار دیا تو غالبؔ نے یہ فرمایا تھا
آتے ہیں غیب سے یہ مضامین خیال میں
غالبؔ صریر خامہ نوائے سروش ہے
گویا جن خیالات کی آمد ہوتی ہے اور جو مضامین اُن خیالات کے دھارے میں بہہ کر آتے ہیں یہ ایسے نہیں آتے بلکہ اشعار رقم کرتے ہوئے میرے قلم کی نوک سے جو ہلکی سی آوازاُبھرتی ہے وہ بنیادی طور پر فرشتے کی آواز ہوتی ہے ۔ گویا یہ خیالات کوشش اور ریاضت سے نہیں آتے بلکہ خود آتے ہیں اور کسی غیر مرئی طاقت کی طرف سے نازل ہوتے ہیں ۔
یہ گفتگو آج ہماری گاڑی میں ہوئی ۔میں بہ سلسلہ ملازمت گلگت میں مقیم ہوں اور جس تعلیمی ادارے میں میں مصروف عمل ہوں اُس اداے میں علاقے کے صحیح معنوں میں پڑھے لکھے لوگ بھی کام کرتے ہیں ۔ ہم جس گاڑی میں صبح آتے اور شام کو جاتے ہیں وہ ہماری علمی گفتگو کا ایک کاشانہ ہے ۔ گاڑی میں آنے اور جانے کا کل دورانیہ یہی کوئی چالیس منٹ کا ہے ان چالیس منٹوں کے دوران ہماری بہت ہی عمیق گفتگو ہوتی ہے ۔ میرے دوست دینار شاہ حیاتیات کے استاد ہیں ۔ وہ ہر روز کوئی نہ کوئی موضوع لے کے آتے ہیں اور گپ شب گرم ہوتی ہے ۔ ایک دن انسانی زندگی اور رب کائنات کی رحمتوں کی بات کرتے ہوئے کہا کہ جس طاقت نے انسان کو پیدا کیا ہے وہی تو سب سے بڑی طاقت ہے اور وہی ہم سب کا رب ہے ۔ میں نے جواباً کہا کہ اس میں کونسی شک کی بات ہے ، وہی تو خدا ہے جس نے ہم سب کو اور اس پوری کائنات کو وجود بخشا ۔ فرمانے لگے ’’ آپ نے تو موٹی موٹی چیزوں کی بات کی ، میں ایک آن لائن کورس کر رہا تھا جس میں انسانی بازو پر تحقیق کرنی تھی لیکن میں اس کام کو کرنے میں ناکام رہا اور ناکام ہونا اتنی بڑی بات نہیں اہم بات تو یہ ہے کہ میں انتہائی حیرت کا بھی شکار ہوا ‘‘ میرے دوست جب ایک انسانی بازو پر چھوٹی سی تحقیق کا کا م کر رہا تھا تو اُس کے استاد نے یہ کام انسانی ناخن کی بناوٹ سے شروع کیا اُسی ایک ناخن میں پیچیدگی اتنی تھی کہ جس پر کئی سال لگ سکتے تھے لیکن کام کا نتیجہ نکلنا مشکل تھا اور جیسے جیسے کام آگے جانے لگا ویسے ویسے حیرت بڑھتی گئی اور جب میرے دوست نے یہ سمجھا کہ اس چیز پر مزید تحقیق اُسے پاگل بنا دے گی تو اُس کے پاس ہار ماننے کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ تھا ۔ یہی باتیں کرتے ہوئے انہوں نے مجھ سے دریافت کیا اور جواب بھی خود دیتے ہوئے کہنے لگے کہ یہ شاعر بھی عجیب ہوتے ہیں بعض مرتبہ ایسی باتیں کہہ دیتے ہیں کہ سائنس بعد میں تحقیق کرکے اُس بات تک پہنچتی ہے ۔ مثال دیتے ہوئے اُنہوں نے حضرت علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا
زندگی کیا ہے، عناصر کا ظہورِ ترتیب
موت کیا ہے، انہی اجزا کا پریشان ہونا
شعر کی تشریح بھی خود کی اور کہا : دیکھئے جناب اقبال صاحب کوئی سائنسدان تو تھا نہیں لیکن بات بڑے پائے کے سائنسدانوں سے بھی بڑھ کے کی ہے ۔ سائنس بھی اس بات سے متفق ہے کہ انسانی جسم یا بدن میں مختلف عناصر کا وجود ایک خاص ترتیب سے پایا جاتا ہے مثلاً : ہوا، پانی ، خاک، بجلی ، نمک ، شکراور یہاں تک کہ زہر اور تریاق بھی انسانی بدن میں ایک خاص ترتیب میں موجود ہوتے ہیں تب ہم ایک خاص شکل میں نظر آتے ہیں یہی نہیں بلکہ کائنات میں ہر جگہ اور ہر مقام میں یہ خاص ترتیب موجود ہے اگر اس ترتیب میں کمی واقع ہوجائے تو اُس چیز کو موت آتی ہے ۔ یہی ترتیب شدہ اجزأ کا پریشان ہونا اپنی جگہوں کو چھوڑنا گویا موت ہے ۔
ہم انہی باتوں میں مست تھے کہ ہماری گاڑی اچانک رک گئی ہم اُتر کر اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہوگئے ۔ شام کے ساڑھے چار بجے ہم جب دوبارہ گھروں کی طرف روانہ ہوئے تو دینار بھائی نے ایک اور موضوع جھونک دیا ۔ موضوع یہ تھا ’’کہ وزنی بات یا اہم اقوال کے لئے اُس آدمی کا اہم ہونا ضروری ہے یا اُس بات کا اہم ہونا ضروری ہے جو کہی گئی ہے ‘‘ یہ سوال عجیب سا تھا ۔
میں سوچ میں پڑ گیاکچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کہا جائے ۔ لیکن میرے دوست کی خوبی یہ ہے کہ وہ خود سوال پوچھتے ہیں اور خود جواب دیتے ہیں ۔کہنے لگے دیکھو !آپ نے اُردو ادب پڑھا ہے آپ مجھ سے بہتر طور پر سمجھ سکتے ہو کہ بات اہم ہو سکتی ہے یا بات کرنے والا ؟ مجھے کل بچوں سے ایک درسی کتاب ہاتھ لگی اُس کتاب میں نبی کریم ﷺ کی سیرت کے حوالے سے ایک مضمون تھا جس میں ایک لفظ تھا ’’ مداومت عمل ‘‘ مداومت عمل کا مفہوم جو میں اُس کتاب سے سمجھ چکا ہوں وہی اس سوال کا بہترین جواب ہو سکتا ہے ۔
مداومت عمل کا مفہوم یہ ہے کہ کسی ایک انسان سے زندگی گزارنے کے خاص اصولوں کی اور باتوں کی توقع رکھی جائے تو مداومت عمل ہے مثال کے طور پر ایک آدمی ہمیشہ سچ بولتا / بوتی ہے اور تمام لوگ اُس سے کسی بھی صورت حال میں سچ ہی سچ ہونے کی توقع رکھتے ہیں ۔ یہ افراد اپنی زندگی میں مخصوص خطوط پر زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ۔ اگر یہ لوگ خدا ناخواستہ جھوٹ بھی بولیں تو اُس پر سچ ہی کا گمان ہوتا ہے ۔ مداومت عمل کے اس مفہوم کی روشنی میں جواب یہی ہو سکتا ہے کہ بات یا قول سے زیادہ آدمی کی اہمیت ہوتی ہے لہذا اصول پسند لوگوں کی باتوں میں ہمیشہ وزن ہوتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ کسی ادمی کے اپنے لئے وضع کردہ اصول انسانی فلاح و بہبود کے دائرے سے باہر نہ ہوں ۔
دینار شاہ صاحب کی یہ گفتگو جاری تھی کہ گاڑی دوبارہ رک گئی اور ہم اُتر گئے ۔
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button