کالمز

ضلع غذر میں‌دو نمبر نہیں دس نمبر اشیا فروخت ہورہی ہیں‌

تحریر وسیم اکرم بیگ

دور جدید میں جہاں مہذب معاشرے میں انسانی صحت کی بہتری پر جتنا کام ہورہا ہے اس سے بڑھ کر جاہل اور بے شعور معاشروں میں صحت کی بربادی کے لیے کام ہورہا ہے۔ گلگت بلتستان کی مثال لیجئے، جہاں لوگ اپنی روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والی خوراک کے مختلف اجزا عموماً بازار اور  دوکانوں سے خریدتے ہیں۔ لیکن جسے لوگ خوراک سمجھ کر خریدتے ہیں وہ دراصل زہر ہوتا ہے، جو ان کی زندگیوں کو دھیرے دھیرے اور مسلسل خرابی صحت کی طرف دھکیلتا ہے۔

ضلع غزر میں بالخصوص غیر میعاری اشیا خوردنوش اور گھر یلو ضروریات کی دوکانوں اور بازاروں میں بھر مار ہے۔ سادہ لوح، کم آمدنی، افراد کو غیر صحتمند اور دو نمبری اشیا بیچ کر لوٹا اور تباہ کیا جارہا ہے، بغیر کسی خوف و خطر کے۔ غیر معیاری اشیا کی ترسیل روزوشب جاری ہے۔ دو نمبر، گمنام برانڈز، کی اشیا بشمول گھی ، دالیں ، چاول ، مصالحہ جات، دودھ کے ڈبے، مشروبات اور کاسمیٹیکس کا ایسا سامان دوکانوں میں بیچا جارہا ہے جس کے معیار کے بارے میں کوئی جانچ پڑتال نہیں ہوتی۔ عجیب اور غریب برانڈز بازار میں دستیاب ہیں۔ کوالٹی کنٹرول کا نام و نشان تک نہیں۔ سوشل میڈیا سمیت ذرائع ابلاغ پر روزانہ اس حوالے سے خبریں شائع ہوتی ہیں مگر حکومتی ذمہ داران لمبی تان کر سوئے ہوے ہیں۔ ان کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بے حسی اور مجرمانہ غفلت ولاپرواہی کا وہ عالم ہے کہ اللہ کی پناہ۔

اس لاپرواہی اور غیر ذمہ دارانہ رویے کے دور میں عوام کو خود ہی ہوش کے ناخن لینگے ہونگے، کیونکہ وہ انجانے میں اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیاں برباد کر رہے ہیں۔ عوامی سطح پر شعور ہو اور اس کھلے لوٹ اور چھوٹ کے بارے میں آگاہی ہو تو شائد بہتری کی کوئی صورت پیدا ہو۔

اس دونمبری کے عقب میں ایک انتہائی منظم مافیا سرگرم ہے جو حکام کی ملی بھگت یا ان کی لاپرواہی کے نتیجے میں جنگل کے بادشاہ بنے پھررہے ہیں۔ نہ انہیں خوفِ خدا لاحق ہے، نہ خوفِ قانون۔ پیسے کمانے کی جنون میں اس مافیا سے منسلک افراد لوگوں کو خوراک کی آڑ میں بیماریاں بیچ رہے ہیں۔

اسی افراتفری اور لاقانونیت کی بدولت ضلع غزر میں تقریباً ہر گھر میں کوئی نہ کوئی معدے، گردے اور بلڈ پریشر کی بیماری میں مبتلا ہے۔ زہریلی اور غیر معیاری خوراک پر لاکھوں خرچ کرنے کے بعد اب خاندانوں کو علاج معالجے پر بھی کروڑوں خرچ کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔  بچوں کی مٹھائیاں اور دیگر اشیا بالخصوص اس مافیا کے نشانے پر ہیں، اور اس طرح مستقبل کی نسلوں کو بھی برباد کرنے کا پورا انتظام و انصرام ہوچکا ہے۔ بعض دوکانیں یقیناً مستند اور معیاری چیزیں بیچ رہے ہیں مگر ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔

قارئین ! اور ہمارے آنے والی نسل کے معمار کم اور بیمار زیاد ہونے کے آثار نظر آرہے ہیں اگر یہ سب چلتا رہا تو۔

اس جدید ترین دور میں جہاں ہم دوسری ضروریات پر توجہ دیتے ہیں ہمیں صحت کا بھی خیال رکھنا چاہئے اور ہم سب کا فرض ہیں کہ ہم ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرے۔ تمام پرائیویٹ ، گورنمنٹ کالجوں، اسکولوں اور مدارس میں اس حوالے سے تیز ریوی کے ساتھ طلبہ کو شعور دینا وقت کی اشد ضرورت ہے۔ انفرادی طور پر تمام مذہبی سکالر ، صحافی ، ڈاکٹر ، اعلی تعلیم یافتہ افراد کو اگے بھڑ کر آپنا کلیدی کردار ادا کر کے آپنا حصہ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرہ مستقبل میں ذہنی اور جسمانی بیمار ہونے سے بچ سکے اور سر گرم مافیا کو بےنقاب اور ان پر تاحیات پابندی عائد کی جائے۔ حکومت اور انتظامیہ کو بھی خود کو ہرکت میں لانا چاھیے اور اس نازک اور حساس مسلے پر فوری اور سخت قانون سازی اور کاروائی کر کے آپنا حقیقی فرض ادا کرے ۔سب سے پہلے تو گلگت بلتستان کے داخلی حدوت میں ایک محکمہ قائم کیا جائے جو غیر معیاری چیزوں کی ترسیل میں چیک رکھے اور ضلع اور تحصیل سطح پر ایک ایکٹو منظم ادارہ برائے خوراک قائم کیا جائے تا کہ ہر روز غیر معیاری اشیا کی غیر قانونی خریدو فروخت ممکن نہ ہو سکے اور مافیا کی بھی جرات نہ ہو کہ وہ لوگوں کو گھر کی دہلیز پر لاکر زہر آلود اشیا فروخت کر سکے۔ تندرستی ہزار نعمت ہے۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button