کالمز

’’ بے روزگار ‘‘

ویوالی خان کی بیوی دریا میں ڈوب مری۔۔۔ لاش دو دریاؤں کے درمیاں ترائی میں پڑی تھی ۔ ۔ لوگ تیراک ڈھونڈ رہے تھے ۔۔ میں پہنچ گیا ۔۔ قمیص اتار پھینکا ۔۔ گاؤں والے سارے جمع تھے ۔۔ میں دریا میں کھودگیا ۔۔ دیوانہ وار دریا کی موجوں کوکاٹتا رہا ۔۔ جوار بھاٹوں کو چیرتا رہا ۔۔ مجمع سے آفرین کی آوازیں میر ے پیچھے پیچھے آرہی تھیں ۔ مجھے اپنی ماں پر فخر ہوا ۔۔۔ کتنی بہادر ماں تھی کہ مجھ جیسے بہارد بیٹا جنا ۔۔ میں پانچ بھائیوں میں سے سب سے چھوٹا تھا ۔۔ لاڈ پیار نے مجھے بگاڑ دیا تھا ۔۔ میں نے صرف دو جماعتیں پڑھی ۔۔ مگر کھیلوں کے میدانوں کا میں اکیلا رام راجہ تھا ۔۔کوئی مائی کا لعل میرے سامنے نہ ٹکتا ۔ماں باپ زند ہ تھے ۔ تب میرے بھائی عمدہ کپڑے لے کے دیتے ۔اعلیٰ قسم کا کھانا ہوتا ۔۔ ماں باپ مرے۔ تو سب کیچے کیچے رہنے لگے۔ میں ہوش میں آیا نہیں تھا ۔۔ در یا پار کیا ۔ لاش چادر میں لپٹیا ۔۔لاش لے کر واپس دریا پا ر کیا ۔۔ سب مجھے تھپکی دینے لگے۔ سب بلائیں لینے لگے ۔ آفرین کر نے لگے ۔۔ آج رات میں بستر پہ ایسے سر رکھا جیسا کوئی بہت بڑا فاتح ’’ فتح ‘‘ کے بعد آرام کرتا ہے ۔۔ دیوالی خان کی چار بیٹیاں تھیں ایک بیٹا تھا ۔ بیٹا سعودی عرب میں تھا ۔۔ صبح میں حسب معمول دیر سے اُٹھا ۔چائے پی کے باہر نکلا ۔امید تھی کہ آج سب میر ے انتظار میں ہونگے ۔کھڑکیوں سے ، منڈیروں سے ، چمنوں سے سب ٹکٹکی باند ہ کے مجھے دیکھ رہے ہونگے ۔۔ مگر میں نے کہیں سے کسی کو اپنی طرف دیکھتے نہ دیکھا ۔۔ دو بڈھے دیوالی خان کے گھر کی طرف جارہے تھے میں ان کے پیچھے پیچھے تھا بڈھوں کو پتہ نہیں تھا کہ ان کے پیچھے کوئی آرہا ہے ۔ وہ اپس میں محوگفتگو تھے ۔ایک نے کہا ۔۔ لاش کس نے نکالی دوسرے نے کہا ۔۔ وہ جو تر کھان کا بگوڑا بیٹا ہے اس نے ۔۔ میرے تن بدن میں لگ گئی ۔۔ پہلے نے کہا ۔۔ کونسا بگوڑا ،، دوسرے نے کہا وہ جو ’’ بے روزگار ‘‘ ہے ۔۔ اچھا اچھا وہ جوسارادن پھرتا رہتا ہے ۔پہلے نے کہا ۔۔ میں رک گیا ۔ بڈھے بہت آگے نکل گئے۔۔۔۔ نسوانی آواز نے مجھے چونکا دیا ۔۔ طفیل تجھے پتہ ہے ’’ زیر بلی ‘‘ کی شادی ہوگئی ۔پتہ ہے اس کاشوہر ’’ روزگار ‘‘ والا ہے ۔’’ زیر بلی ‘‘ میرے لئے خواب تھی کہ حقیقت ۔۔ چاند پل کو ابھرا ۔ ڈوبا ۔ میں نے کچھ نہیں کہا ۔ میں اپنے آپکو دریاؤں کی موجوں میں عرق پا یا ۔ دن ۔بہت سارے دن گذرے ۔۔۔ دیوالی خان نے اپنی بڑی بیٹی کی مجھ سے شادی کی خواہش ظاہر کی ۔اس میں اس کی دوسری بیوی کی دلچسپی بھی تھی۔ کیونکہ وہ اپنی سوتیلی بیٹیوں کو دفع کر نا چاہتی تھی ۔میرے بھائیوں نے ’’ ہاں ‘‘ کہا ۔ میری شادی ہوگئی دلہن آئی ۔۔ مجھ سے ملاقات ہوگئی ۔۔ میرے بیوی کا پہلا جملہ یہ تھا ۔۔ تم بے روزگار ہو ۔۔ مجھے ’’بے روزگار ‘‘ کا مفہوم نہیںآتا تھا ۔۔ میں نے اس سے درخواست کی ۔۔ ہماری زندگی ایک ہوگئی ہے ۔ اب ’’ راہ حیات ‘‘ پہ اکھٹے چلیں گے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلیں گے ۔ میں نے اس کا ہاتھ چوم لیا ۔مجھے یاد ہے میں اس کی آنکھوں میں جھانکنا چاہتا تھا ۔۔ میں اس کے قریب گیا اور قریب ۔۔ اُس نے قے قے کر لی ۔۔ الٹی کرلی ۔۔ انگلی سے منہ صاف کیا ۔۔۔ میں حیران رہ گیا ۔۔ پھر میں نے اس کی صورت نہیں دیکھی ۔۔ البتہ مجھے یہ پتہ چلا کہ میرے منہ سے ’’بدبو ‘‘ آتی ہے میں نہ نسوار ڈالتا ہوں نہ سگریٹ پیتا ہوں ۔بار بار منہ صاف کر تا ہوں مسواک ساتھ رکھتا ہوں پتہ نہیں پھر میرے منہ سے بدبو کیوں آتی ہے؟۔۔۔ مجھے ’’ بے روزگار ی ‘‘ کا مفہوم کسی نے نہیں سمجھا یا تھا ۔۔ ایک دن سڑک کنارے ایک درخت کے سایے میں بیٹھ کے گارہا تھا ۔۔ ’’ یہ دنیا ہے ۔یہاں دل کا لگانا کس کو آتا ہے ‘‘ قریب نسوانی آواز نے مجھے چونکا دیا ۔۔ طفیل ۔ میں نے مڑ کے دیکھا کہ ’’ زیر بلی ‘‘ تھی ۔ میں نے تڑپ کے کہا ۔کیسے ہو؟ ۔ زیر بلی نے کہا ۔۔ ٹھیک ہوں۔۔ میرے دو بچے ہیں میر ا شوہر سکاؤٹ میں ہے ۔۔کیا تمہارا شوہر منہ صاف کرتاہے۔ میں لرز رہا تھا ۔ اس کے منہ سے ’’ بدبو ‘‘ تو نہیں آتی ؟ ۔۔ نہیں بالکل نہیں۔۔۔ پھر اس نے کہا تم کیوں پوچھ رہے ہو ۔۔ میں نے کہا ’’ میرے منہ سے بد بو آتی ہےْ ْْْ۔۔۔ میں ۔ سگریٹ پیتا ہوں نہ نسوار ڈالتا ہوں ۔ ۔ زیر بلی نے قہقہہ لگا یا ۔۔ میں حیرا ن اس کا منہ تک رہا تھا ۔۔ پھر اس نے کہا۔۔ ’’طفیل تم بے روزگار ہو‘‘ ۔ اگر تمہاری جیب میں سو کانوٹ ہوگا تو تمہارے منہ سے ’’ خوشبو ‘‘ آئیگی۔ پگلے ۔۔اس نے جیب سے سو کا نوٹ نکال کر دیکھا یا ۔۔ تمہارے گاؤں میں سکول بن رہا ہے ۔جاؤ کل سے وہاں جاکر مزدوری کرلو۔ ۔۔۔آج میری مزدوری کا پہلا دن تھا ۔کام ختم ہوا تو میں نے ٹھیکدار سے 100 کانوٹ مانگا ۔ اس نے فوراً دے دی ۔۔ میں دوڑ کر سسرال پہنچا ۔ میری سوتیلی ساس مجھے دیکھ کر دانت پیسنے لگی ۔۔ اپنی بیٹی سے کہا ۔ جاؤ محلے کی دکان سے میرے لئے ’’ نسوار ‘‘ لاؤ ۔۔ اس نے کہا ۔۔ پیسے کہاں ہیں؟ ۔۔ میں نے فوراً جیب سے 100 کا نوٹ نکالا۔ میری بیوی کے چہر ے پر رونق آگئی ۔ میری ساس حیران ہوکر اپنی جگہ سے کھڑی ہوگئی یہ بدلتی دنیا دیکھ کر میں نے 100 کانوٹ چوم لیا ۔اور محمد رفیع کا مشہور بول ترنم سے گانا شروع کیا ۔۔۔ ’’ سو سال پہلے مجھے تم سے پیار تھا ۔۔ آج بھی ہے کل بھی رہے گا ۔۔ میری بیوی نے نوٹ میرے ہاتھو ں سے چھین کر چوما اور نہایت پر سوزترنم سے دوسرا بند سنا یا ۔۔ ’’صدیوں سے تجھ سے ملنے جیا بے قرار تھا ۔ آج بھی ہے کل بھی رہے گا‘‘ ۔۔پھر میرے گلے میں باہیں ڈال کر میری پیشانی دیوانہ وار چومنے لگی ۔ مجھے ایسا لگا کہ میرے منہ سے ایسی ’’ خوشبو ‘‘ نکلی ہے کہ جس میں میری بیوی کا سارا ’’ وجود ‘‘ پھول بن کر گیا ہے اور ساری کائنات معطر ہوگئی ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button