کالمز

تاریخی جامع مسجدگلگت

گلگت بلتستان کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو دردستان (گلگت) میں اسلام کے آثار اگیار سو بیس عیسوی میں دکھائی دیتے ہیں ۔ اس سے پہلے اہل دردستان گلگت بدھ مذہب عقیدے سے تعلق رکھتے تھے ۔ لگ بھگ گیارہ سو بیس عیسوی میں ایک شہزادہ جس کا نام آذر جمشید تھا ایران سے بطرف سکردو گلگت دنیور کے مقام پر وارد ہوا ۔اس وقت دردستان گلگت میں بدھ حکمران سری بت دیوا جسے شری بدت کے نام سے یاد کیا جاتا ہے کی حکمرانی تھی ۔ اس شہزادے کی متعلق بہت سا ری روایات ہیں کچھ اسے سکردو مقپون خاندان کا فرد سمجھتے ہیں اور کچھ اسے حضرت عمرؓ کے زمانے کی فتوحات کے وقت کا ایک حملہ آور مسلمان حکمران سمجھتے ہیں۔۔ اس شہزادے کی دردستان میں آمد اور شیری بدت کی بیٹی سے بیاہ کا قصہ بھی کسی افسانے سے کم نہیں ۔کیونکہ موجودہ دور میں قارئین اس قسم کی کہانیوں کو افسانوی رنگ ہی دیا کرتے ہیں ہیں ۔ تاریخ میں شری بدت کی بیٹی جس کا نوربخت نام سے ذکر کیا جاتا ہے ذہن کو اپیل نہیں کرتا کیونکہ ہندو عقیدے سے تعلق رکھنے والوں کے ہاں ایسے نام رکھنے کا رواج نہیں پایا جاتا۔ قیاس ہے کہ شری بدت کی بیٹی کا نام کچھ اور ہوگا لیکن شہزادہ جس کا تعلق ایران سے جوڑا جاتا ہے اس کے عقد میں آنے کے بعد نور بخت کہلائی ہوگی۔ بحر حال یہاں تاریخ پر بحث کرنا مقصود نہیں بس اتنا بتا نا ہے کہ دردستان (گلگت)میں اسلام کی کرنیں راجہ آذر جمشید یا شمشیر راجہ کے زمانے سے نظر آنا شروع ہو گئیں تھیں۔آذر جمشید یا شمشیر راجہ نے پونیال یاسین اور چترال کو بھی اپنی عملداری میں لایا ا ور یہاں بھی اسلام کا نام سنا جانے لگا ۔ شمشیر راجہ نے خو د تو اسلام کیلئے اتنا زیادہ کام نہیں کیا لیکن اس کے دور میں علاقہ دردستان(گلگت) میں چند بزرگان دین کی آمد ہوئی اور ان بزرگوں کی تبلیغ سے دردستان کے لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ ان بزرگوں میں سے تین کے مزارات آج بھی گلگت شہر میں موجود ہیں ۔ان کے علاوہ راجہ شمشیر کے زمانے سے لیکر مہارجہ کشمیر کے دور حکمرانی 1890 ؁ء تک دردستان (گلگت) میں اجتماعی شکل میں کسی اسلامی خانقاہ ، مسجد یا اما م بارگاہ کا حلیہ یا نشان دکھائی نہیں دیتا ہے ۔ ممکن ہے کہ یہاں کے باسی اپنی عبادات اپنے گھروں میں ہی ادا کرتے رہے ہوں ۔ اٹھارویں صدی کی آخری دہائی دردستان کی تاریخ میں بڑی اہمیت کی حامل ہے 1889 ؁ء میں دردستان (گلگت ) میں برٹش ایجنسی کے قیام کے ساتھ ہی گلگت میں تعمیرات اور رابطہ سڑکوں کی طرف توجہ دی جانے لگی ۔ سری نگر گلگت روڈ ، گلگت اور بونجی کے درمیان دریائے گلگت پر پرتاب پل ، گلگت سکول اور ، گلگت ڈسپنسری کی عمارت بننے کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں میں کمسریٹ کا نظام رائج ہوا ۔ اٹھارویں صدی کی آخری دہائی اس لحاظ سے بھی اہمیت رکھتی ہے کہ دردستان(گلگت ) میں پہلی بار مسلمانوں کے لیئے ایک اجتماعی عبادت گاہ وجود میں آئی ۔ 

تحقیق اور معلومات کے مطا بق اس اجتماعی عبادت گاہ مسجد کا وجود میں آنے کا قصہ بھی دلچسپی سے خالی نہیں۔ ہو ایہ کہ 1893 ؁ء میں خان صاحب عبد الحکیم خان بحیثیت وزیر وزارت گلگت تعنات ہوئے تو اسی کے دور وزارت میں مہاراجہ کشمیر نے موجودہ جامع مسجد کی جگہ ہندؤں کیلئے ایک مندر تعمیر کرنے کے احکامات جاری کئے تھے ان احکامات کے جاری ہونے کے بعد یہاں بسنے والے مسلمانوں کو بھی اس بات کا احساس ہوا کہ مندر کے بجائے یہاں مسلمانوں کیلئے اجتماعی جگہ ہونی چاہئے انہوں نے وزیر وزارت تک رسائی حاصل کی اور اپنی عرض داشت پیش کی اس کام کو حل کرنے اور مندر کی تعمیر رکوا کر مسجد کی تعمیر کی منظوری تک مسلمانوں کوکافی پاپڑ جھیلنے پڑے یہ تو یہاں کے لوگوں کی خوش قسمتی سمجھئے کہ خٰان صاحب عبد الحکیم خان جن کی شادی بسین کے قبیلہ کلوچ سے تعلق رکھنے والے شاذال نامی فرد جو (سابق ممبر اسمبلی گلگت حمایت اللہ خان )کے پڑ دادا تھے سے ہوئی تھی اور یہ وہی خان صاحب عبد الحکیم خان ہیں جو خان عبد القیوم خان کے والد تھے بعد میں خان عبد القیوم خان کی بھی شادی عصرو کی بیٹی سے انجام پائی جو اسی قبیلہ کلوچ کے فرد تھے۔کافی تگ و دو کے بعد جب معاملہ حل نہ ہو ا اور بات نہ بنی تو اسی قبیلے کے افراد نے خان صاحب سے رجوع کیا۔مندرکی تعمیر رکوانے کا کام خاصا مشکل تھا لیکن خان صاحب عبد الحکیم خان کی ذاتی کوششیں اور دلچسپی اور مسلمانوں کے اتفاق نے کام کر دکھایا اور مندر کا پروگرام منسوخ کیا گیا اور یوں 1893 ؁ء میں پہلی بار مسلمانوں کی ایک اجتماعی عبادت گاہ جسے آج جامع مسجد اہلسنت کہا جاتا ہے تعمیر کرنے کی منظوری دی گئی جی ہاں ! مسلمانوں کیلئے کیونکہ اس وقت یہاں شیعہ اور سنی مسلمان کہلاتے تھے یہی وجہ تھی کہ اس وقت مسجد کی تعمیر میں مسلمان (شیعہ اور سنی )نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور مسجد کی تعمیر کو مکمل کر کے اس مسجد میں اپنی اجتماعی عبادات کا آغاز کیا ۔یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گلگت انقلاب 1947 ؁ء میں پاکستان کے صوبہ سرحد(جسے آجکل خیبر پختونخواہ کہا جاتا ہے ) میں خان عبد القیوم خان کی حکومت تھی اور خان عبد القیوم خان نے گلگت میں پاکستان کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کیلئے بھی اسی رشتہ داری ہی کے ہتھیار کو کام میں لایا تھا ۔ کاش آج بھی ایسا ہوتا کہ مسلمان مل جل کر رہتے اور فرقہ بندی سے ہٹ کر 1893 ؁ء کا جذبہ رکھتے اور ایک دوسرے کی مسجدوں میں اپنے مسلک کے تحت عبادت کرتے ۔ 

گلگت کی تاریخی جامع مسجد پر شکوہ اور شاندار آج اس مسجد کا شمار ملک کی شاندار مسجدوں میں ہوتا ہے یہ جامع مسجد گلگت کے مرکزی حصے میں واقع ہے جسے صدر بازارکے نام سے یاد کیا جاتا ہے جامع مسجد گلگت کے دائیں طرف گلگت دریا پر تاریخی پل کے ذریعے کنوداس سیدھے مغرب جانب پونیال اور بائیں طرف سے مجینی محلہ اور مشرق کی جانب راولپنڈی کے لئے راستے نکلتے ہیں ۔ 

جامع مسجد جسے مرکزی جامع مسجد اہلسنت والجماعت کہا جاتا ہے تین منزلہ عمارت ہے اور ایک بلند بالا مینار اسکی خوبصورتی میں چار چاند لگائے ہوئے ہے۔ 1893 ؁ء سے لیکر اب تک اس مسجد کی تعمیر و ترقی میں جن حضرات نے حصہ لیا ان کا تذکرہ پھر کبھی لیکن اس مسجد کی خطابت کے سلسلے عرض کر دوں کی مسجد میں خطابت کا پہلا اعزاز پانے والا فرد کا تعلق ضلع مانسہرہ پکلئی کے رہنے والے مولانا عبد اللہ تھے۔ گلگت میں شاید ہی کوئی شخص مولانا عبد اللہ کو اس کے اصل نام سے جانتا ہو۔مولانا عبد اللہ پکھلی استاد کے نام سے مشہور تھے جو لالہ نیاز محمد کے سسر تھے ۔ ان کے وفات کے بعد خطابت استا د محترم مولانا عزیز الرحمان مرحوم کے والد قاضی عبد الرحیم مرحوم کے حصے میں آئی ۔ قاضی عبد الرحیم کے دنیا سے منہ موڑنے کے بعد قاضی عبد الرزاق مرحوم جو موجودہ خطیب کے والد تھے نے جامع مسجد کی خطابت سنبھالی۔ قاضی عبد الرزاق کے وصال کے بعد تنظیم اہلسنت والجماعت گلگت و کوہستان نے عارضی طور پر مولانا عنایت اللہ گوہر آباد والے کو جامع مسجد گلگت کی خطابت سونپی۔ یاد رہے اس وقت مرحوم قاضی عبدلرزاق کے صاحبزادے موجودہ خطیب جامع مسجد جامعہ بنوریہ کراچی میں زیر تعلیم تھے ۔جب وہ تعلیم مکمل کرکے واپس گلگت پہنچے تو تنظیم اہل سنت ولجماعت گلگت کوہستان نے متفقہ طور پر خطابت کا عہدہ قاضی نثار احمد کو سونپا جن کا شمار اپنے وقت کے جید علماء میں ہوتا ہے ۔انہی تاریخی حقائق کی روشنی میں جامع مسجد گلگت اہلسنت والجماعت دردستان (گلگت ) میں تعمیر ہونے والی پہلی اور تاریخی مسجدکہلاتی ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button