دیامر باب گلگت بلتستان یعنی ہمارے گھر کے مرکزی دروازے کی حیثیت رکھتا ہے ۔ذاتی حوالے سے بھی میرے حلقہ احباب میں دیامر سے تعلق رکھنے والے کئی ایسی شخصیات موجود ہیں جن سے سیاسی اور نظریاتی اختلافات کے باجود کبھی محبت اور خلوص میں کمی نہیں آئی۔ ایسے بھی دوست ہیں جن سے سوشل میڈیا کے ذریعے گپ شب ہوتی ہے ہم ایک دوسرے پر شدیدتنقید بھی کرتے ہیں مگر باہمی عزت اور احترام کا دامن کبھی نہیں چھوڑتے،اور ہونا بھی ایسے ہی چاہئے۔ مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والوں کی اس نگری میں معاشرتی مزاج کبھی ہمیں مجبور کرتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کو شک کی نگاہ سے دیکھیں جوکہ ریاستی تربیت کانتیجہ ہے۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں ماضی میں دہشت گردی کے دلخراش واقعات رونما ہونے کے بعد ایک دوسرے کے درمیان سے اعتبار کا لفظ ہی غائب کرایا گیا دہشت گردی کے اس کینسر نے جہاں کچھ لوگوں کو استعمال کیا وہاں ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے عام آدمی کے درمیان ایسی دوریاں پیدا ہوگئی کہ جسے کم کرنے کیلئے کردار ادا کرنے کی کوششیں بھیبے سود نظر آتا ہے ۔یوں میرا خیال ہے جہاں دہشت گرد ہمارے دشمن ہیں بلکل اسی طرح ریاستی ادارے اور مقامی پڑے لکھے لوگ اور عوامی ووٹ لیکر قانون ساز اسمبلی تک پونچنے والے حضرات بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہیں کیونکہ یہ معاشرتی المیہ ہے کہ ہم بھلے ہی کتنا پڑھ لکھ لے مگر نظریہ سچ بات سے انحراف، نفرت اور ایک دوسرے کو قبول نہیں کرنے کا ہی رکھتے ہیں۔ خود کوسیاست دان کہلانے نام نہاد لوگ کسی بھی مسائل کو سلجھانے کی کوشش کرنے کے بجائے اُس آگ میں مزید تیل چھڑکتے ہیں ،اُنہیں معلوم ہی نہیں ایک غلطی کی وجہ سے معاشرہ کس طرح غلط سمت کی طرف جاسکتا ہے ۔بدقسمتی سے آج سوشل میڈیا پر ہر سیاسی مسلے کو بھی مسلکی پالش لگا کر مخالف مکتب فکر کے خلاف ایک پروپگنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا رواج عام ہو چُکا ہے، اس گنگا میں ہاتھ دھونے والوں میں خلیجی ممالک میں زیر تعلیم کچھ افراد خاص الذکر ہیں اور ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے جہاں معاشرے میں عدم برداشت کو پیزائی ملتی ہے تو دوسری طرف جھوٹ کو سچ سمجھ کر یقین کرنے کیلئے لوگ دیر نہیں لگاتے۔ ایک بار پھر ماضی کو دہراتے ہوئے گزشتہ کئی مہینوں سے دیامر داریل تانگیر کی سرزمین کو کچھ لوگ اپنے مفاد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو دوسری جانب ریاستی فورسز نے شرپسندی کے خلاف آپریشن کرنے کا ٹھان لیا اسی درمیان میں کچھ اہم سیاسی پیش رفت بھی ہوئی جس میں گورنر کا انتخاب قابل ذکر ہے۔لیکن اس کہانی کے پیچھے کیا محرکات تھے سادہ لوح عوام کو معلوم ہی نہیں لیکن داریل تانگیر کے معاملات پر ایکسپرٹ حضرات مطابق کہانی بہت طویل اور جامع منصوبہ بندی کے تحت ہوا۔یہاں ہم عوام کی اگاہی کیلئے اگر دہشت گردی کے محرکات پر بات کریں توہمیں پلٹ کراُنیس سو ستاسی میں جانا ہوگا کیونکہ گلگت بلتستان دہشت گردی اور انتہا پسندی کی بنیاد ڈالنے میں ضیا الحق کا کلیدی کردار رہا ہے۔ انیس ستاسی کے الیکشن میں جب گلگت میں قوم پرستی کی بنیاد پر الیکشن جیتنے کے امکانات نظر آئے تو اُس وقت گلگت شہر کے دیوراوں پر نامعلوم افراد نے راتوں رات فرقہ وارانہ وال چاکنگ شروع کیا اور قومی سیاست کو ایک سازش کے تحت دیوار سے لگایا گیا اور صدیوں پر محیط بین المسالک ہم آہنگی کو ایک چنگاری نے آگ کی طرح اتنا پھیلا دیا جو آج بھی بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ دہشت گردی کے ان اسباب کوتاریخ کے آئینے میں دیکھیں توپاک فضائیہ کے سابق سربراہ ائر مارشل ریٹائرڈ محمد اصغر خان اپنی کتاب تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا، سیاست اور افواج پاکستان میں جہاد اور امریکہ کے عنوان سے میں، لکھتے ہیں کہ ضیاء کے دور اقتدار میں کوہستان کے کچھلوگوں نے جنرل ضیاء سے خصوصی طور ملاقات کرکے یہ شکایت کیا کہ کوہستان سے ملحقہ علاقوں میں گلگت اور بلتستان سے کچھ لوگ تبلیغ کیلئے آرہے ہیں،تو جنرل ضیاء نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ اس مسلے سے خود نمٹیں اگر وہ مضبوط کاروائی کرتے ہیں تو حکومت مداخلت نہیں کرے گی ،وہ مزید لکھتے ہیں کہ ضیاء الحقکے اس مشورے سے مذہبی منافرت پھیلانے والوں کو تقویت ملی اور انہوں نے حکومتی ایما ء پر اٖفغان مجاہدین کے ساتھ ملکر 1988میں گلگت بلتستان پر چڑھائی شروع کیا جس کے نتیجے میں کئی سولوگ مارے گئے کئی درجنگھر اور مال مویشویاں زندہ جلا ئے گئے لیکن مقامی حکومت نے اس جلتی آگ کو بجھانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ صورت حال جب نازک مرحلے پر پونچا تو اُس وقت کے قائد بلتستان شیخ غلام محمد مرحوم نے ضیاالحق کو براہ راست فون کرکے تنبیہ کیا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو محاذ پر موجود این ایل آئی کے جوانوں کو اپنے ناموس کی عزت بچانے کیلئے واپس آنے کا حکم بھی جاری کرسکتے ہیں یہی وجہ تھی ضیاالحق گٹھنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے اور نام نہاد مجاہدین کو شکست کے ساتھ واپس لوٹنا پڑا۔لیکن آج بھی وہی شکست خوردہ عناصر کاغصہ گلگت بلتستان کے عوام کیلئے پایا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ آج بھی کبھی نہ کبھی کہیں نہ کہیں وقفے وقفے کے ساتھ یہاں دہشت گردی کے واقعات رونماہوتے رہتے ہیں۔محترم قارئین عرض یہ ہے کہ ماضی کے تلخ تجربات مستقبل کیلئے آئینہ دار ہوتے ہیں ہمارا مسلہ یہ نہیں کہ کون کس عقیدے سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ ہم ایک باغ کے کئی پھول کے مانند ہیں لیکن اس باغ کی باغبانی ہم نے بدقسمتی سے دوسروں کے ہاتھ میں دی ہوئی ہے جو اس بات پر خوش نہیں کہ کئی رنگوں کا یہ پھول کھل کر چمن میں کہیں خوشبو نہ پھیلائے یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی ایشوز کو بھی دینی اور مذہبی مسلہ بنواتے ہیں تاکہ ہمیں منزل سے دور رکھ سکیں۔ہم سب کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ایک منصوبہ بندی کے تحت گلگت بلتستان کی سرزمین کو آج بھی اُسی انداز میں دہشت گردی کیلئے استعمال کرنے کی سازشیں کہیں کامیاب تو کہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑھ رہے ہیں اگر ہم حالیہ دہشت گردی کے واقعات کا ذکر کریں تو کڑیاں کہیں نہ کہیں جاکر وہیں ملتی ہے جو کہ ہم سب کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔عجیب بات ہے کہ اُس واقعے پر ایک ہی پارٹی کے ذمہ داران کا ایک دوسرے کے خلاف متضاد بیانات اور مغویوں کی بازیابی گلگت بلتستان کے ایک اہم شخصیت کی مداخلت کے بعد کوہستان سے بازیاب ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ آج بھی ہمارے ہاں کچھ سیاسی لوگوں کا ان دہشت گرد عناصر کے ساتھ براہ راست تعلقات ہیں جو کہیں نہ کہیں حسب ضرورت استعمال کرتے ہیں۔حالیہ واقعے پر عوام کے ذہنوں میں سوالات جنم دے رہے ہیں کہ اگر یہ کوئی سیاسی مسلہ نہیں تھا تو اغواء کاروں کے خلاف کسی قسم کا ایکشن کیوں نہیں لیا گیا؟ اور مغویوں کی بازیابی کے بعد کم از کم اُن ہیروز سے پوچھ گچھ کر لیناچاہئے تھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ داریل سے اغواء ہونے والے کوہستان کیسے پونچا ؟اور دہشت گردوں کے ساتھ ان حضرات کا تعلق کس نوعیت کا ہے ؟ جب ان لوگوں نے اپنا اسررسوخ استعمال کرنا تھا توتمام سیکورٹی فورسز کو دیامر کی طرف رخ کرانے کا کیا مقصد تھا؟ مگر افسوس کسی کے پاس ان سوالوں کا کوئی جواب نہیں مگر عوام جواب منتظرہیں۔آخر میں گزارش یہ ہے کہ واقعی میں اگر ودفاق گلگت بلتستان میں امن دیکھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے کوہستان سے ملحق تمام زمینی راستوں کو سیل کرکے گلگت بلتستان کے حدود میں جی بی اسکاوٹس کو مستقل طور پر تعینات کرنے کی ضرورت ہے، کوہستان سے ملحق تمام راستوں پر سیکورٹی کیلئے متعین رینجیرز اور پولیس کو ہٹا کر اُن علاقوں میں سیکورٹی کی ذمہ داری آرمی کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اگر اس سلسلے کو نہیں روکا گیا تو مستقبل میں اکنامک کوریڈور اور دیامر بھاشا ڈیم کے حوالے سے بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتے ہیں ۔ اللہ ہم سب کو ہمیشہ سچ لکھنے،بولنے اور قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین