کالمز

دانشوروں کی کمیٹی اورجی بی کا آئینی مستقبل

گلگت بلتستان تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں ہم نے اپنے 68سالہ ماضی کے آئنے میں جھانکتے ہوئے مستقبل کی راہوں پر سفر کرنا ہے ،ماضی کی کہانیاں دھراتے ہوئے مستقبل کا ادراک نہ کرنے والی قومیں تاریخ کی طویل راہوں کی دھول میں ایسی کھو جاتیں ہیں کہ کسی کو کانوں کان خبر تک نہیں ہوتی ،ہاں البتہ وہی قومیں تاریخ میں اپنے لئے اعلی مقام کا تعین کر تیں ہیں جو حال اور مستقبل کے نقشوں کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھتی ہیں۔بہت ہو گیا نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ہم نے اس بحث میں ضائع کر دیا کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا پانچواں صوبہ ہونا چاہئے یا کشمیر طرز کا سیٹ اپ ہو ،اس کے علاوہ بھی بھانت بھانت کی بولیاں بولی گئیں لیکن سوال یہ ہے کہ ان بولیوں سے ہمیں حاصل کیا ہوا سوائے محرومیوں کے،ان محرومیوں کے ذمہ دار اگر کوئی مرکزی حکمرانوں کو ٹھہراتاہے تو مجھے اس سے واضح اختلاف ہے ،کوئی بتا سکتا ہے کہ ہم نے کب وفاق کے حکمرانوں کے سامنے ایک آواز کے ساتھ اپنا مطالبہ پیش کیا ہے ،ماضی کی روداد تو بس یہی ہے کہ ایک آواز صوبے کی مرکز تک جاتی تھی تو اس کے رد عمل میں کشمیر کی آواز گھونجتی تھی ،حران کن امر تو یہ ہے کہ دونوں آوازوں میں منطق اور دلیل کم اور ضد اور عناد کا عنصر واضح ہوتا تھا،کشمیر طرز سیٹ اپ کا مطابہ کرنے والے سٹیٹ سبجیکٹ رول کے نفاذکی مخالفت کرتے تو صوبے کا مطالبہ کرنے والے سٹیٹ سبجیکٹ رول کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ،اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسئلہ کشمیر سے وابستگی کی خواہش رکھنے والے سٹیٹ سبجیکٹ رول کے نفاز کی مخالفت کس دلیل کے تحت کرتے تھے کشمیر کے دونوں حصوں میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نفاذ ہے تو یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ گلگت بلتستان کو کشمیر کے ساتھ منسلک کیا جائے اور سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ نہ کیا جائے ،یہ مطالبہ دلیل سے خالی ہے ،اب بات کرتے ہیں صوبے کی۔صوبے کا مطالبہ کرنے والے یہ خواہش کس دلیل اور کس قانون کے تحت رکھتے تھے کہ صوبہ بنے اور سٹیٹ سبجیکٹ رول نافذ ہو ،دنیا کے کس ملک کا کون سا صوبہ ہے جہاں سٹیٹ سبجیکٹ رول کا نفازہوتا ہو، پاکستان کے قانون میں تو ہر گز ایسا نہیں ۔لہذا منطق اور دلیل کی نظر سے ان دونوں مطالبات کو پرکھا جائے تو وزن کسی مطالبے میں نہیں ،منطق اور دلیل سے خالی ان مطالبات کی وجہ سے ہی ہم آج تک منزل سے آشنائی حاصل نہیں کر سکے ،کیا اب بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے ضد اور اناؤں کی گہرائیوں میں گرنا ہے یا زندہ اور باوقار قوموں کی طرح ضد اور انا کے حصاروں سے نکل کر اپنی نسلوں کے مستقبل کو سامنے رکھتے ہوئے مشترکہ موقف اپنانا ہے ۔گلگت بلتستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ ہے کہ گلگت بلتستان کے مستقبل کے تعین کے لئے سنجیدہ کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے اور پہلی دفعہ گلگت بلتستان کے اہل دانش اور اہل سیاست کو اس اہم مشورے میں بھی شامل کیا گیا ہے ،مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں بننے والی اصلاحاتی کمیٹی بھی اپنا کام کر رہی ہے تو دوسری طرف گلگت بلتستان کے تاریخی مواد کویکجا کر کے سفارشات مرتب کرنے کے حوالے سے بھی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں گلگت بلتستان کے اہل فکر اور اہل دانش کو شامل کیا گیا ہے ،اس کمیٹی میں بر گیڈئیر (ر)حسام اللہ بیگ،پروفیسر عثمان علی ،شیر باز علی برچہ ،اے آئی جی دلپذیر،گلگت بلتستان کے سینئرصحافی اسرالدین اسرار،امتیاز علی اور قاسم نسیم ہیں ،جن شخصیات کو ایک کمیٹی بنا کر یہ کام سونپا گیا ہے یقیناًیہ وہ شخصیات ہیں جو اپنی اپنی زات میں ایک تحریک اور انجمن کی حیثیت رکھتی ہیں ، ان میں سوائے حسام اللہ بیگ صاحب کے باقی شخصیات کو میں بہت قریب سے جانتا ہوں اور ان کی صلاحیتوں کا ادراک ہے ،باالخصوص اسرار الدین اسرا ر صاحب اور راقم نے ایک ہی صحافتی ادارے میں اپنی خدمات بھی انجام دی ہیں اور انہیں ہر حوالے سے پرکھا بھی ہے اور جانچا بھی ہے ۔حسام اللہ بیگ صاحب کی شخصیت کے بارے میں بھی بہت کچھ سن رکھا ہے ۔اسی طرح پروفیسر عثمان اور شیر باز علی برچہ کی شخصیات سے کون واقف نہیں ان شخصیات نے تو اپنی عمر ہی گلگت بلتستان کے لئے وقف کر رکھی ہے ،اسی طرح دلپذیز صاحب کی شخصیت سے بھی بخوبی آگاہ ہوں اور بہت دفعہ ان سے گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے مدلل گفتگو سننے کا موقعہ بھی ملا ہے،اور ان کی صلاحیتوں کا معترف ہو ں ، ان شخصیات کی علمی اور تحقیقی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ہم یقین سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ایسی سفارشات مرتب کی جائیں گی کہ ان سفارشات کو دیکھ کر گلگت بلتستان کے مستقبل کے تعین کے لئے راہ ہموار ہوجائے گی۔ان شخصیات کو ہم کوئی مشورہ تو اس لئے نہیں دے سکتے کہ سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا لیکن اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان کی آنے والی نسلوں کا بار آپ کے کاندھوں پر ڈالا گیا ہے اب آپ کہ زمہ داری ہے کہ تمام تر زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے ایسی سفارشات مرتب کریں کہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقعہ ہر گز نہ ملے ،اگرچہ ماضی میں گلگت بلتستان نیشنل الائنس کے پلیٹ فارم سے عنایت اللہ شمالی کی قیادت میں گلگت بلتستان کی چودہ سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے اکٹھ سے دو نکاتی فارمولا سامنے آیا تھا لیکن وہ دو نکاتی متفقہ فارمولا بھی وقت کی دھول میں ایسا گم ہوا کہ اس سے استفادہ کرنے کا کسی نے سوچا ببھی نہیں ،اب اگر گلگت بلتستان کے اہل فکر لوگوں کو یہ کام سونپا گیا ہے تو کیا ہی اچھا ہو کہ اس میں عنایت اللہ شمالی جیسے دانشوروں سے بھی استفادہ لیا جائے جنہوں نے اس حوالے سے پہلے ہی بہت کام کیا ہے ۔ وزیر اعلی گلگت بلتستان حاٖفظ حفیظ الرحمان بھی مشیر خارجہ کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کے رکن ہیں تو یہ بات یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ وہ محض ایک روایتی وزیر اعلی نہیں اس سے ہٹ کر ایک دانشوراور ایک وسیع سیاسی سوچ کے حامل سیاسی رہنما بھی ہیں انہیں ادراک ہے کہ دنیا کے بدلتے ہوئے حالات میں گلگت بلتستان کا کیا مقام ہے اور مستقبل کی راہوں کا انتخاب کس قدر سوچ و بچار اور زمینی حقائق کا ادراک کرتے ہوئے کرنا ہے ہم ان سے بھی گزارش کرنا چاہیں گے کہ اس فیصلے کی گھڑی میں گلگت بلتستان کے تمام طبقات کو بھی بھر پور طریقے سے اعتماد میں لے کر آگے بڑھیں تو ہم بہت جلدمنزل سے ہمکنار ہوں گے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button