کالمز

ڈوگروں کے ہاتھوں یاسن کی تباہی، اور جارج ہیورڈ کا کردار

تحریر :علی ظفر

لاھور میں رنجیت سنگھ کے دربار میں کچھ لوگ حاضر ہوئے اور انہوں نے سکھ دربار سے گوہر امان کے خلاف مدد کی اپیل کی۔یہ مشورہ  عسیٰ بہارد ولیٰ پونیال کا تھا کہ گوہر امان کو شکست دینے کے لئے سکھوں سے مدد لی جائے۔کیونکہ طرہ خان حکومت اپنی اخری سانسیں لے رہی تھی۔ عسیٰ بہادر کا مشورہ پسند ایا۔وفد لاھور میں موجود تھے۔فیصلہ یہ ھوا کہ گوہر امان کے سرکوبی کے لئے ایک بھاری سگھ فوج کو گلگت بھیج دیا جائے گا۔لیکن یہ مہمات کچھ کام نہ اسکے۔سن 1849میں سلطنت خالصہ لاہور کا خاتمہ ہو گیا۔ اس سے کچھ سال پہلے 1846 میں معاہدہ امرتسر کے تحت کشمیرمیں ڈوگرہ برسراقتدار ائے تھے۔یوں گلاب سنگھ نے تسخیر گلگت کے لئے  کرنل سید نھتے شاہ کے کمان میں 1848 میں ایک  بھاری فوج گلگت بھیج دئے۔نتھے شاہ نے گلگت میں کمان سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے ہنزہ نگر کو تاراج کرنے کے لئے ہنزہ نگر پر حملہ کر دیا۔یہاں یہ بتاتا چلوں کہ ہنزہ نگر کے دو اذاد ریاستیں بعض اوقات اپس میں بھی دست گریباں ہوتے تھے۔لیکن ان ریاستوں کی  یہ بات قابل تعریف تھی کہ بیرونی حملہ آورں کے خلاف یہ ریاستیں  ہمیشہ متحد ہو کر دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے۔ہنزہ نگر کی متحده افواج نے نتھے شاہ کے فوج کا ایک خون ریز تصادم میں صفايا کر دیا ۔ جن کی تعداد بارہ سو سے بھی زیادہ تھی ۔اور اس جھڑپ میں نتھے شاہ بھی مارے گئے۔ اس واقعے سے کچھ عرصہ قبل یعنی جولائی   سن 1844 میں صوبیدار متراداس کو گوہر امان کے ہاتھوں بارگو میں عبرت ناگ شکست ہوئی تھی۔اُس دوُر کے تین واقعات قابل ذگر ہیں۔دو واقعات کا مختصر جائزہ پیش کر چکا ہوں ۔تیسرا اہم واقع  بھوپ سنگھ کے ساتھ پیش ایا۔اس کے نام کے مناسبت سے اس جگہیں کا نام بھوپ سنگھ پڑی پڑھ  گیا ہے۔بھوپ سنگھ کے خلاف تین ریاستیں متحد ہو چکے تھے۔ہنزہ نگر اور یاسن۔بھوپ سنگھ کی افواج کو کئی دنوں تک پڑی کے مقام پر محاسرے میں رکھا گیا ڈوگرہ افواج غذائی قلت کی وجہ سے نڈھال ہو گئے تو متحدہ افواج نے بڑی اسانی سے تمام ڈوگرہ افواج کو تہ تیغ کر دیئے گئے ۔

ان واقعات کے بعد مہاراجہ گلاب سنگھ نے اپنی موت ١٨٥٧ تک پھر گلگت پر دوبارہ فوج کشی  نہیں کر سکے۔ سن 1860کو مہاراجہ رنبیر سنگھ نے جنرل زوراور سنگھ کی سرکردگی میں اپنی افواج کو گلگت روانہ کر دیا۔ڈوگرہ افواج کے گلگت پہنچنے سے پہلے گوہر امان یاسن میں فوت ہوچکے تھے۔اس لئے گلگت میں ڈوگرہ افواج کو کوئی  مذاہمت کا سامنا نہیں ہوا۔گلگت پر مکمل قبضے کے بعد ڈوگروں نے مضافاتی ریاستوں کو تاراج کرنے کا سلسہ شروع کیا۔ریاست پونیال پہلے ہی ان کے ماتحت تھی اور راجہ عسیٰ بہادر ان سے ملے ہويے تھے۔لہذا ان کو یہاں کوئی مذاہمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔گوہر امان کے وفات کے بعد یاسن میں انکے سب سے بڑے بیٹے ملک امان (متم تھم) ان کے جانشین بنے تھے۔سن 1861 میں ڈوگروں نے یاسن میں معمولی مذاہمت کے بعد ملک امان کے جگہیں میں اپنا نمائندہ عضمت شاہ جو کہ سلیمان شاہ کا بیٹا تھا کو اپنا نمایندہ مقرر کر کے انتظامات اُن کے حوالے کئے۔اور ڈوگرہ ارمی گلگت کی طرف کوچ کر گئے۔کچھ دنوں بعد ڈوگرہ ارمی جب گلگت پہنچ گئے تو عضمت شاہ ان سے پہلے ہی کسی مختصر ترین راستے سے گلگت پہنچ چکا تھا۔وجہ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یاسن والوں نے ان کی قیادت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ۔اور ملک امان کو قیادت سونپ کر اپنے خودمختاری کا علان کر چکے ہیں۔یاسن والوں کی اس حرکت سے مہاراجہ رنبیر سنگھ نا خوش ہوئے۔ایک روایت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس واقعے کے کچھ عرصہ بعد یعنی  غالباً 1862 کے اس پاس مہاراجہ رنبیر سنگھ نے بدخشی گھوڈوں کی خریداری کے سلسے میں اپنی ایک وفد کو درکوت کے راستے بدخشان بھیج دیا ۔جب یہ وفد گھوڑوں سمت یاسن پہنچ گئے تو یاسن والوں نے وفد سے گھوڑے چھین لئے اور وفد کے تمام افراد کو قید میں ڈال دیئے گئے۔ان دو واقعات نے کشمیر ریاست کو براہ راست چیلنج کر دیا۔مہاراجہ کشمیر نے گلگت میں موجود اپنے گورنر  کو سختی سے احکامات بھیج دیئے کہ ملک امان اور یاسین والوں کو کچلنے کے لئے انتظامات جلد مکمل کر دے۔اور خفیہ طریقے سے گلگت میں فوج جمع کرنا شروع کردئیے گئے۔1863کی جون جولائی تک گلگت میں تمام انتظامات مکمل کر لئے گئے۔اور ایک بھاری فوج جنرل ہوشیارہ اور کرنل دیوی سنگھ نرئنا کی قیادت میں تیار کر لئے گئے ۔ادھر یاسن میں بھی ڈوگروں کے ممکنہ حملے کی اطلاعات پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔
یاسین والوں نے اپنی دفاعی پوزیشن کو مضبوظ کرنے کے لئے ایک قلعہ تعمیر  کر رہے تھے۔جو کہ تعمیر کے اخری مرحلوں میں تھی۔یہ قلعہ سندی گاؤں کے اختتام پر دریائے اسومبر اور دریائے قرقلتی کے سنگم پر واقع ایک دشوار گزار پہاڈی چوٹی پر بنایا گیا تھا۔دفاعی لحاظ سے قلعے کی لوکیشن زیادہ اہمیت کا حامل تھا۔کیونکہ شکست کی صورت میں راہ فرار کے لئے اسومبر اور قرقلتی نالے بلکل سامنے ہی موجود تھے ۔اس پہاڈی چوٹی کے گرد ایک حفاظتی دیوار تعمیر کی گئی تھی۔ دیوار کے کھنڈرات اج بھی موجود ہیں۔دیوار لکڑی پھتر اور مٹی سے بنایا گیا تھا۔قلعےکی دیوار کی موٹائی تقریباً دو فٹ ہوگی۔دیوار کے تمام کونوں میں واچ ٹاورز بنائے گئے تھے تاکہ دشمن کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جا سکے۔حفاظتی دیوار کی اوسط انچائی تعمیر کے وقت بیس فٹ ہو گی۔دریا سے  قلعے تک اونچائی دو سو فٹ سے بھی زیادہ ہو گی۔دریا سے قلعے تک پانی کی ترسیل کے لئے زیر زمین ٹنل بنایا گیا تھا۔جس کے اوپر لکڑی کے تختے ڈال کر راستے کو دشمن کی نظروں سے خفیہ رکھا گیا تھا۔قلعے میں بچوں اور خواتین کے قیام کے لئے چھوٹے چھوٹے کمرے تعمیر کئے گئے تھے۔تاکہ محاصرے کے دوران بارش اور دھوپ سے بچا جا سکے۔یاسن میں قلعے کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔
اکتوبر 1863کو گلگت میں تمام انتظامات مکمل کرنے کے بعد تین ہزار افراد پر مشتمل ڈوگرہ ارمی  یاسن کی طرف مارچ کرنے لگے۔جن میں سکھ پنجابی پٹھان کشمیری ہزارہ وال سب شامل تھے۔جب ڈوگرہ فوج ہوشیارہ اور دیوی سنگھ کے کمان میں چھوہر (شیر قلعہ) پہنچے تو عسیٰ بہادر بھی ایک بھاری پونیالی فوج کے ساتھ ڈوگرہ ارمی کے ساتھ شامل ہو گئے ۔ ادھر یاسین (یاسن) میں اردگرد کے  علاقوں سے تمام افراد کو جن میں ہر عمر کے افراد دودھ پیتے  بچوں سمت  حاملہ خواتین بھی شامل تھیں ۔قلعے کے اندر جمع ہو گئے۔مسلح افراد جن کے پاس تلوار یا بندوقیں موجود تھیں  ان کی تعداد زیادہ سے زیادہ ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہو گی لڑنے کے لئے قلعے میں موجود تھیں۔اب ان کا مقابلہ ایک وحشی اور انتہائی طاقتور ارمی سے ہونا تھا۔قلعے کے اندر جو لوگ موجود تھیں ان کے بارے میں ایک روایت موجود ہے ۔جو کہ کسی کتاب میں لکھا ہوا نہیں ہے۔جنگ کے عینی شاہدین جو جنگ کے دوران قلعے میں موجود تھیں۔ان سے روایت ہے جو کہ باپ دادے ہمیں کہا کرتے تھے۔قلعے کے اندر کچھ لوگ جن کا تعلق یاسن کے علاقے سلگان سے تھا وہ عضمت شاہ کے حامی تھے۔باقی تھوئی یاسن خاص اور نازبر کے لوگ ملک امان کے حامی تھے۔یہ بات ڈوگرہ ارمی کو پہلے ہی بتا دیا گیا تھا کہ قلعے میں موجود عضمت شاہ کے حامیوں کا قتل عام نہیں کرنا ہے۔باقی جو لوگ ملک امان کے حامی ہیں ان کو گاجر مولی کی طرح کاٹنا ہے۔اور پہچان کے لئے ایک مخصوص گھاس (باوڈلنگ) کو اپنے ٹوپیوں میں لگانے کا خفیہ پیغام سلگان والوں کو دیا گیا تھا۔یہ خفیہ پیغام صرف عضمت شاہ کے حامیوں تک محدود تھی۔ لیکن یہاں تاریخی حقائق کو سامنے رکھ کر اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ ممکنات میں شامل نہیں لگتا ۔اگر ایسا ہوا بھی ہیں تو وہ بہت چھوٹے پیمانے پے ہوا بھی ہو گا۔ یہ ممکنات میں سے اس لئے نہیں ہے کہ جنگی قیدیوں اور جن خواتین کو قلعے سے اٹھا کے لے کے گئے تھے ان میں سلگان کے بھی بہت سارے خواتین اور لڑکیاں شامل تھے غرض ملک امان بھی اس دوران قلعے میں موجود تھا۔ اور حالات کا بغور جائزہ لے رہا تھا۔اکتوبر 1863 کے اخری ہفتوں میں مسلح ڈوگرہ ارمی یاسن کی حدود میں داخل ہو تے ہیں۔جب ارمی کی تعداد کے بارے میں ملک امان کو اگاہ کیا جاتا ھے تو وہ حواس باختہ ہو جاتا ھے۔اور مقابلہ کرنے کے بجائے اپنے خاندان سمت چترال کی طرف راہ فرار اختیار کر لیتا ہیں۔موڈوری قلعے میں موجود لوگوں کو اب رہنما کے بغیر ایک طاقتور ارمی سے سامنا کرنا تھا۔
ڈوگرہ ارمی جب موڈوری قلعے میں پہنچ جاتے ہیں تو زیادہ مزاہمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ایک روایت یہ بھی ھے کہ قلعے کا دروازہ بھی ایک جاسوس جو قلعے میں موجود تھا ۔اس کا نام ارسالا خان جس کا تعلق ہندور سے تھا نے دروازہ اندر سے کھولا۔اور ڈوگرہ ارمی کو قلعے میں انے کے لئے راستہ مہیا کیا۔ڈوگرہ سپہ سالار نے موڈوری قلعے میں موجود کمزور افواج یاسین کو پیغام دیا کہ اگر انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے تو ان کی جان بخش دی جائے گی۔یاسن والوں نے پیغام کا مثبت جواب  دے دیا اور  اپنے تمام ہتھیاروں کو ڈوگرہ فوج کے حوالے کر دئیے۔اب یاسن والے مکمل نہتے ہو چکے تھیں۔اس کے بعد ڈوگروں نے قلعے میں موجود لوگوں کا قتل عام شروع کر دیتے ہیں۔ظلم اور بربریت کی انتہا ہو جاتی ہے ۔چھوٹے بچوں کو ہوا میں پھینک کر تلوار کے وار سے دو ٹکڑے کر دیئے گئے ۔حاملہ خواتین کو قتل کرنے کے بعد ان کے پیٹ سے نومولود بچوں کو نکال کر قتل کئے گئے۔کسی کو نہیں بخشا گیا۔بچوں اور خواتین کے چیخ و پکار کئی دنوں تک موڈوری کی فضا میں گونجتی رہی ۔قتل و غارت گری کا یہ سلسلہ  موڈوری قلعے میں ہفتے تک جاری رہی۔جارج ہیورڈ کے مطابق ١٥ سو لوگوں کو قلعے کے اندر قتل کئے گئے۔  جس کا تذکره بعد میں ائے گا۔جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کی تھی۔بالغ لڑکیوں کو چن چن کر الگ کر کے اپس میں تقسیم کئے گئے۔عسیٰ بہادر نے سب سے زیادہ لڑکیوں کو اٹھائے جن کی تعداد اٹھ تھی۔جنرل ہوشیارہ نے تین دیوی سنگھ نرئنا نے تین اور عبدل صمت خان جس کا تعلق کشمیر پونچھ سے تھا اس نے پانچ لڑکیوں کو اٹھائے ۔باقی ڈوگرہ سپاہيوں نے اپس میں تقسیم کئے۔ظلم کا سلسلہ یہاں پے رکا نہیں ۔دو ہزار کے لگ بھگ لوگوں کو جنگی قیدی بنا کر سری نگر منتقل کئے گئے۔اس واقعے کے بعد مال واسباب کو لوٹا گیا۔جس میں جانوروں سے لے کر اناج تک شامل تھے اپنے ساتھ لے گئے۔ فاتح افواج نے جانوروں اور انسانوں کے مشترکہ قافلے کو گلگت کی طرف روانہ کر دیا۔راستے میں جہاں جہاں موقعے ملتے رہے لڑکیوں نے پہاڑی چوٹیوں سے دریائے غذر میں کود کر خودکشیاں کرتے رہے۔غرض انسانوں اور جانوروں کے مشترکہ قافلے کو گلگت اور سری نگر پہنچایا گیا۔یاسن میں صورتحال یہ رہا کہ مارچ اپریل  1864کو کھیتی باڈی کے لئے نہ انسان بچے تھے اور نہ ہی جانور۔بچے کچے لوگوں نے ایک بیل کے ساتھ ایک مرد کی جوڈی میں کھیتوں میں ہل چلائے گئے۔مہذب دنیا کو اس ظلم و بربریت کی کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔اس دور میں روئل جیوگرافیکل سوسائٹی اف لندن دنیا کی ایک جدید میپ بنانے میں مصروف تھی۔لیکن میپ بنانے میں مشکل یہ ارہی تھی کہ پامیر اور دریائے اوکزس کے منبع کا صحیح پتہ نہیں چل رہا تھا۔RGSنے دشت پامیر میں دریائے اوکزس کے منبع کا پتہ لگانے کے لئے RGS کے راولنسن نے جارج ہیورڈ کو اوکزس کے منبع دریافت کرنے کے لئے ایک بھاری رقم کے ساتھ ٹاسک دیتا ہے۔جارج ہیورڈ پہلی بار فروری مارچ سن 1870 کو یاسن میں وارد ہوئے۔یاسن کے حکمران میر ولی کے ساتھ ان کی بہت اچھی دوستی ہو جاتی ہے۔انہوں  نے اپنے ساتھ میر ولی کے لئے بے تحاشہ تحفے ساتھ لائے تھے۔دونوں دوست کئی دفعہ شکار پے بھی ساتھ میں جاتے ہیں۔ہیورڈ کو درکوت کے راستے پامیر جانا تھا۔دریائے اوکزس درکوت سے صرف دو دن کے پیدل مسافت پر واقع ھے۔لیکن مارچ اپریل میں درکوت پاس بھاری برف باری کی وجہ سے بند تھی۔جارج ہیورڈ یاسن میں تین مہنے قیام کرتا ہے۔اس قیام کے دوران کسی نے اُن کو موڈوری قلعے کا دورہ کرایا۔ ہیورڈ جب موڈوری قلعے میں پہنچ کر دیکھتا ہے تو پورا پہاڑ انسانی ہڈیوں اور کھوپڑیوں سے بھری پڑی ہے سات سال پہلے یہ واقع پیش ایا تھا۔اور ان سات سالوں میں شدید سردی اور گرمی نے ان ہڈیوں کو بلکل سفید بنا دئیے تھے۔ اور ان لاشوں کو دفنانے کے لئے بھی کوئی نہیں بچے تھے کیونکہ خاندان کے تمام افراد ہی اس واقعے میں قتل کئے گئے تھے۔یہ صورت حال دیکھ کر ہیورڈ کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہے۔وہ اپنے ہاتھوں سے 147 کھوپڑیوں کو گنتا ہیں جن میں زیادہ تعداد بچوں اور خواتین کے تھے۔اور وہ لکھتا ہے کہ ایسی لاتعداد کھوپڑیاں اس پہاڑی پر بھرے پڑے ہیں جن کو گننا میرے لئے ممکن نہیں۔ موڈوری  سے واپسی پے سندی گاؤں میں ایک سات سالہ لڑکی سے ہیورڈ کو ملاتے ہیں جس کی ایک بازو کٹی ہوئی تھی۔موڈوری واقعے میں وہ ایک ماہ کی تھی ۔معجزانہ طور پر ایک بازو کٹ کر بھی زندہ بچ گئی تھی۔اسی طرح چالیس خواتین سے بھی ملوایا گیا جن کی پیٹ کاٹا گیا تھا۔وہ بھی معجزانہ طور پر بچ چکے تھے ۔ہیورڈ ہی وہ پہلا شخص تھا جس نے موڈوری واقعے کو دنیا کے سامنے اشکار کر دیا تھا۔ حالات کا جائزہ لینے کے بعد ہیورڈ ہندوستان جانے کے لئے واپس لوڈ جاتا ہے۔کیونکہ درکوت پاس جولائی میں کھول جاتا تھا۔ 1870 کے اپریل کے اخری دنوں  میں ہیورڈ برزل پاس کے راستے ہندوستان لوٹ جاتا ہے۔برزل پاس میں اُس وقت تین فٹ برف جمے تھے۔جان جوکھوں میں ڈال کر ہیورڈ سری نگر پہنچ جاتا ہے۔یہاں سے کلکتہ چلا جاتا ہے۔اور 9 مئی کو کلکتہ کی اخبار pioneer میں موڈوری اوقعے پر ایک کالم لکھتا ہے جیسے اخبار ہیورڈ کے نام کے ساتھ شائع کرتا ہے۔ حالانکہ ہیورڈ نے اخبار کے ایڈیٹر کو تاکيد کیا تھا کہ اس ارٹیکل کے ساتھ ہیورڈ کا نام نہیں لکھا جائے۔لیکن اخبار نے ہیورڈ کا نام لکھ دیا۔اس سے کچھ دن پہلے بھی ان کا موڈوری واقعے کے بارے میں وائسرائے میو سے تفصیلی گفتگو ہو جاتی ہے ۔اور ہندوستانی حکومت کو مہاراجہ کی ظلم و بربریت سے اگاہ کرتا ہے۔ارٹیکل جب اخبار میں شائع ہوتی ہے تو ہندوستان میں ایک سنسنی پھیل جاتی ہے۔اس سے مہاراجہ پر دباؤ بڑھ جاتی ہے۔اور پوچھ گچھ شروع ہوتی ہے۔ہیورڈ کے اس کام سے مہاراجہ مشتعل ہو  جاتا ہے۔اور جارج ہیورڈ کے لئے خطرے کی گھنٹی بجتی ہے۔کیونکہ جارج ہیووڑ کو دوبارہ کشمیر کی حدود سے گزر کر پامیر جاناتھا۔اس ارٹیکل کی وجہ سے ہیورڈ کی جان کو شدید خطرات لاحق ہو چکے تھے۔اس حوالے سے وائسرائے میو نے راولنسن اور RGS کو بروقت اگاہ کیا تھا کہ ہیورڑ کی جان کو خطرہ ہے اسے ہندوکش کے پہاڈوں میں جانے سے روکے۔لیکن جارج ہیورڈ نے کسی کی نہ سنی ۔میو نے ہیورڈ سے لکھ کے لے لیا کہ وہ اپنے رسک پے جا رہا ھے۔غرض ہیورڈ اپنے مشن کے سلسلے میں اپنے پانچ ساتھوں کے ساتھ دس جون 1870 کو سرینگر پہنچ گئے۔یہاں قیام کے دوران ہی اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ مہاراجہ ان کے جان کے دشمن ہو چکے ہے۔سری نگر میں قیام کے دوران  ہی ایک جسم فروش عورت کے زریعے اسے زہر دینے کی کوشیش کی گئی تھی۔یہاں سے اس نے اپنے ٹیلی گراف پیغام میں صورت حال سے راولنسن کو اگاہ کر چکا تھا۔جارج ہیورڈ کی اخری امید کی کرن ان کا سابقہ دوست میر ولی تھا۔وہ اس خوش فہمی میں تھا کہ ایک دفعہ کشمیر کی حدود کو عبور کر کے اپنے دوست کے پاس پہنچ جائے تو مسلہ ہی ختم ہو جائے گا۔اسے یہ نہیں معلوم  تھا کہ خطرہ اصل وہی پے موجود ہیں۔جون کے اخری دنوں میں وہ گلگت پہنچ جاتا ہے۔اس کے گلگت پہنچنے سے پہلے ہی کشمیر کی طرف سے ہیورڈ کے بارے میں احکامات گلگت کے گورنر کو موصول ہو چکے تھے۔jhon key نے اپنی کتاب گلگت گیم میں لکھا ہے کہ گلگت کے گورنر نے ملک امان جو کہ موڈوری واقعے میں چترال فرار ہوا تھا وہ ان دنوں گلگت میں مقیم تھا۔ ہیورڈ کو قتل کرنے کے لئے اسے دس ہزار روپے دئے تھے۔جو کہ اس نے پانچ ہزار میر ولی کو بیھج دئیے۔ہیورڈ غالباً تیرہ یا چودہ جولائی کو یاسن پہنچے تھے یہ اس کا یاسن کا دوسرہ دورہ تھا۔ ہیورڈ کو اپنے سابقہ دوست میر ولی کی انکھوں میں وہ پہلی والی محبت نظر نہیں اتی۔کیونکہ مہاراجہ رنبیر سنگھ کے احکامات اور دھمکیاں میر ولی کو ہیورڈ کے امد سے قبل ہی موصول ہو چکے تھے۔میر ولی نے جارج ہیورڈ کو قتل کرنے کے لئے جن لوگوں کو زمہ داریاں سونپا تھا ان میں برکولتی سے موہبی حاکم اور سندی سے شمونے قبیلے کے سربراه کے ساتھ ساتھ چھشی کے حاکم رحمت اللہ خان  بھی شامل تھے۔ان افراد کے نام  کرنل شمبرگ نے اپنی کتاب between oxus and indus میں لکھا ہے۔ہیورڈ سترہ جولائی 1870 کی شام کو درکوت پہنچتا ہے۔بعض زرائعے کا کہنا ہے کہ میر ولی نے اپنا پایہ تخت ڈوکھن یاسن کے بجائے برکولتی کو بنایا تھا۔ کیونکہ اس کے تعلقات ہلبتنگے قبیلے سے بڑے قریبی تھے۔یہاں سے درکوت تک کم فاصلہ ہے۔ ہیورڈ اپنے پانچ ساتھیوں کے ساتھ شام ڈھلنے سے پہلے درکوت پہنچ جاتا ہے۔دریائے اوکزس اگے دو دن کی پیدل مسافت پر واقع تھا۔یوں کہے کہ ہیورڈ انقریب دشت پامیر میں داخل ہو چکا تھا۔سورج کے اخری کرنیں بھی ہندوکش کے پہاڈوں کو الوداع کہنے والے تھے۔تھکاوٹ سے چوُر قافلہ اپنے شام کی تیاریوں میں مصروف تھے۔شام بھی ڈھلنے والی تھی کہ ہیورڈ کے مُنشی نے جو کہ خیمے سے باہر ٹہل رہا تھا ۔ہیورڈ کو یہ پیغام دیاکہ درکوت میں ہمارے پیچھے سے ستر۔ اسی کے قریب مسلح افراد اچکے ہیں ۔خبر سن کر ہیورڈ کے چہرے پے پریشانی کے اثرات نمودار ہونے لگے۔اُس نے اپنے ایک ادمی کو ان مسلح لوگوں کے پاس بیھج دیا اور وجہ پوچھنے کی کوشیش کی ۔ان مسلح لوگوں نے جن کو میر ولی نے بھیجا تھا جواب دیا کہ ہم اپ لوگوں کے حفاظت کے لئے ائے ہیں اور اپ لوگوں کو بحفاظت سرحد پار کرئنگے۔وہ شخص واپس اکر ہیورڈ کو وہ باتیں بتا دئیے ۔وہ ان باتوں سے مطمئن نہیں ہوئے۔اس کے ساتھ ہی اندھیرا بھی چھانے لگا۔ہیورڈ کے چہرے پے پریشانی کے اثرات بدستور نمودار تھے۔انہوں نے رات کے کھانے میں کچھ بھی نہیں کھائے اور ایک کپ چائے پی لیا۔خطرے رات بھر ان کے خیمے  کے اس پاس منڈلاتے رہیں۔ہیورڈ رات بھر لکھتے رہے ایک پل کے لئے بھی نہیں سوئے۔ایک ہاتھ میں قلم اور ایک ہاتھ میں اپنا انگريزی پستول تھامے رات بھر جاگتے رہے۔صبح کی ٹھنڈی ہوا جب انکی گالوں سے ٹکراتی ہے تو بظاہر ان کے چہرے پے اطمينان نظر اتی ہے لیکن انے والے پل انکے زندگی کے اخری پل تھے۔صبح اٹھ بجے کے قریب جب یہ چائے پی کے ارام کے واسطے بیٹھ جاتے ہیں تو نیند ان پے غالب اتی ہے ۔اس لمحے شاہ دین امان اور کاکولی ان کے خیمے میں داخل ہوتے ہیں ۔ان کے ساتھ اور بھی لوگ خیمے میں داخل ہوتے ہیں اور ہیورڈ اور ان کے ساتھیوں کو پکڑ لیتے ہیں اور ان کے ہاتھ پیچھے باندھ  کر ہیورڈ کو جنگل کے ایک حصے میں اور باقی لوگوں کو دوسرے حصے میں لے جا کر بے دردی سے قتل کرتے ہیں ۔18 جولائی 1870 کے صبح اٹھ بجے کے قریب جارج ہیورڈ درکوت فرنگ بر میں قتل ہو چکے تھے۔سر ہنری نیوبلٹس نے اپنی نظم  he fell among thieves میں اس قتل کی واقعے کو بیان کیا ہے ۔جس کو پڑھ کر ہر انکھیں نم ہو جاتے ہیں۔ہیورڈ کے قتل کی بازگشت ہندوستان میں  اگست میں سنائی دی۔اور بتایا جا رہا تھا کہ ہندوکش کے پہاڈوں میں ایک سیاح قتل ہوا ہے۔وائسرائے میو کو یقین ہوا کہ قتل ہونے والا  شخص جارج ہیورڈ کے علاوه کوئی نہیں ہو سکتا۔ قتل کی تحقیقات کے لئے جب مہاراجہ سے برطانوی حکام نے رابطہ کیا تو اس نے فریڈرک ڈریو کو جو کہ مہاراجہ کا اپنا ملازم تھا کو تحقیقات کے سلسلے میں گلگت بھیجا گیا ۔اس نے 20 اکتوبر 1870 کو ہیورڈ کے لاش کو درکوت سے گلگت منتقیل کرنے کے لئے ایک کشمیری ادمی جس کا نام غفار خان تھا  کو بھیج دیا۔غفار خان ٢٣ اکتوبر کو درکوت پہنچے اور مقامی لوگوں کی مدد سے لاشوں کو ڈھونڈے گئے۔جارج ہیورڈ کی لاش کو اس کے بالوں اور داڈھی کے رنگت سے پہچانا گیا۔ لاش کو گلگت منتقیل کی گئی اور 27اکتوبر کو جارج ہیورڈ کے ہڈیوں کو گلگت خزانہ روڈ میں دفن کئے گئے۔دفنانے کے بعد ڈریو کے انکھوں سے انسوں ٹپک کر قبر پر گر گئے۔شاید یہی وہ بے بسی کے انسوں تھے جن کے علاہ ڈریو نے  ہیورڈ کے قاتلوں تک پہنچنے میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکے۔اور ایک متنازع رپورٹ مہاراجہ کشمیر کے ایماء  پر تیار کیا گیا تھا برطانوی حکومت کے حوالے کئے۔ ہیورڈ کا قبر اج بھی وہی پے ہے۔ڈریو رپورٹ کو منظر عام پر لایا گیا۔لیکن اس رپورٹ کا حقیقت سے دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔کیونکہ ڈریو خود مہاراجہ کا ملازم تھا۔اس نے اپنے رپورٹ میں قتل کی تمام تر ذمہ داری میر ولی اور امان لملک مہتر چترال پر ڈال دیا۔اور رپورٹ میں یہ کہا گیا کہ ہیورڈ نے چترال کا دورہ نہ کرنے پر امان لملک نے میر ولی کے ذريعے ہیورڈ کو قتل کر دیا۔اور اس متنازعہ  رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ دوسری بار ہیورڈ نے تحفے تحائف اپنے ساتھ کم لے ائے جس وجہ سے میر ولی مشتعل ہوگئے۔رپورٹ میں ایک جگہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ہیورڈ کے واپس ہندوستان  جاتے ہوئے میر ولی نے اسے کہا تھا کہ انگريز سرکار سے ہیورڈ یہ تسلیم کروائے کہ ڈوگرہ راج گلگت سے دستبردار ہو کر میر ولی کے حق حکمرانی کو تسلیم کریں ۔ہیورڈ نے یہ بات تفصیل سے میر ولی کو سمجھا چکا تھا کہ وہ سرکاری نمایندہ ہر گز نہیں ہے۔اس لئے برطانوی سرکار اس کی سفارشات کو زیادہ اہمیت نہیں دینگے۔ڈریو کے اس بات میں وزن موجود تھی۔ لیکن بعد کے تحقیقات سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ قتل کا ذمہ دار مہاراجہ تھا ۔اور پائنیر ارٹیکل اس کے قتل کی وجہ بنی۔

حوالہ جات

murder in the hindu kush tim hinigan

jamu and kashmir territoris .by f drew

between oxus and indus .by col shumburg

gilgit game.by jhon key

tarikh e jamuu.hashmat ullah

dardistan .dr  leitner

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button