گلگت بلتستان ۔۔۔آئینی حقوق کی طرف گامزن
جب سے دنیا وجود میں آئی ہے حقوق اور فرائض کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ حقوق کئی قسم کے ہیں اور اسی طرح فرائض بھی مختلف ہیں۔ یہاں جس حقوق کی بات ہو رہی ہے وہ سیاسی حقوق ہیں ۔ گلگت بلتستان کے حوالے سے بات کی جائے تو انیس سو اکہتر سے پہلےسیاسی حقوق کی باز گشت کہیں بھی سنائی نہیں دیتی ہے۔ یہاں کے باسیوں کوسیاسی حقوق سے روشناش کرنے کا سہرا پیپلز پارٹی کے مرحوم رہنما ذولفقار علی بھٹو کے سر جاتا ہے۔ اگرچہ اس کے دور میں مختلف خامیاں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جن میں ایک خامی سٹیٹ سبجیکٹ رولز کا خاتمہ یا معطلی ہے۔ اس خامی کی بنا پر سیاسی حقوق کی بیداری کا کریڈٹ اسے نہ دینا سراسر زیادتی ہوگی۔
انیس سو اکہتر سے اب تک مختلف تحریکیں اور جہد مسلسل سے ایک لولا لنگڑا انتظامی پیکیج دو ہزار نو کو ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے متنازعہ خطے میں نافذ کیا گیا۔ جس کے بارے یہاں کے مفاداتی ٹولے نے واہ واہ کے نعرے لگائے تھے کہ اس نظام سے یہاں کے لوگوں کی قسمت بدل جائیگی۔ لیکن سیانوں نے اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ یہ لولا لنگڑا نظام ناپائیدار اور نا مکمل ہے۔ دو ہزار نو سے لیکر دو ہزار پندرہ تک پیپلز پارٹی کی حکومت نے اسی پیکیج کے تحت خوب مزے اڑائے اور وقت آخر تک اس نظام کی خرابیاں ان کو نظر نہیں آئیں۔ یہاں ان پر تنقید کرنا مقصود نہیں بلکہ بتانا یہ ہے کہ اگر پیپلز پارٹی مہدی شاہ کی حکومت اپنی آنکھیں کھلی رکھتی اور اپنی عیاشیوں کو عارضی سمجھ کر نظام اور آئینی حقوق سے متعلق عوام کو سچ سے آگاہ رکھتی تو کتنا ہی اچھا ہوتا ۔
اس لحاظ سے موجودہ مسلم لیگ حفیظ حکومت تعریف کے قابل ہے کہ انہوں نے عوام سےکچھ نہیں چھپایا بلکہ ایک موقعے پر تو حفیظ صاحب نے اپنے اسمبلی ممبران سے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اسمبلی کے اندر ایسی قراردادیں پاس کرنے سے احتراز کریں جن کی کوئی وقعت نہیں یعنی حفیظ حکومت نے یہ کبھی نہیں کہا کہ وہ گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنائینگے۔ انہوں نے ہمیشہ یہی کہا کہ گلگت بلتستان مسلہ کشمیر سے جُڑا ہوا ہے اس لئے یہ آئینی صوبہ نہیں بن سکتا۔ ممکن ہے کہ کئی لوگوں کو ان کی یہ باتیں اچھی نہ لگی ہوں لیکن جو حقیقت ہے اس نے وہی بیان کیا ہے۔ گلگت بلتستان کے سیاسی نمائندے کبھی کبھار کچھ ایسے بیان داغ دیتے ہیں جن سے ان کی سیاسی نابالغی صاف چھلکنے لگتی ہے۔
اس حقیقت سے کسی کو انکار ہو ہی نہیں سکتا کہ اٹھارہ سو چھیالیس سے پہلے گلگت بلتستان نام کی کوئی اکائی سرے سے موجود ہی نہیں تھی۔ ان علاقوں کا نام گلگت بلتستان تو اس وقت پڑا جب مہارجہ کشمیر نے یہاں موجود چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو اپنی عملداری میں لیا۔ زبانی باتوں اور زبانی دعوں سے کوئی جنگ جیتی نہیں جا سکتی اور سچ کو یا حقیقت کو زیادہ دیر چھپایا بھی نہیں جا سکتا۔ ان علاقوں میں مہاراجہ کشمیر کے سو سالہ حکومت ایک حقیقت ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہی سو سال ہماری آ ئینی حقوق کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ جب سے حفیظ حکومت بر سر اقتدار آئی ہے ۔ اول دن سے ہی ان کی کوشش ہے کہ کسی طرح یہ علاقے قومی دھارے میں شامل ہو جائیں۔ انہوں نے ہر فورم میں آواز اٹھائی اور سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک آئینی کمیٹی کی تشکیل ان کی بڑی کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے آل پارٹیز کانفرنس منعقد کر کے سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لینے کی کوشش کی۔ بیشک اس میں چند پارٹیوں کی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑا ۔ ان کارناموں کے علاوہ ان کا یہ کارنامہ بھی یاد رکھا جائیگا کہ انہوں نے گلگت بلتستان کے مسلہ کشمیر سے جُڑے ہوئے ہونے کے باعث تاریخی شواہد اکھٹا کرنے اور ان کی روشنی میں آئندہ کے لانحہ عمل ترتیب دینے کے لئے مختلف مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے دانشوروں کی کمیٹی تشکیل دی جس نے اپنی رپورٹ چوبیس نومبر کو حکومت کو پیش کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں کمیٹی نے جن باتوں کی سفارش کی ہے ان پر بحث سے پہلے ایک بات یہ عرض کرنا چاونگا کہ اس کمیٹی میں شامل افراد بڑے زیرک اور اپنے فلیڈ میں استاد مانے جاتے ہیں اوروہ بھی کشمیر سے اپنا دامن چھڑانے میں ناکام رہے۔ انہوں نے بھی گلگت بلتستان کو کشمیر کے مسلے اور متنازعہ ہونے کا اعلان کر دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ ان علاقوں کا فیصلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا باقی ہے۔ اس کمیٹی نے جو آپشن تجویز کئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں
۱۔ گلگت بلتستان کی موجودہ حثیت کو برقرار رکھتے ہوئے پاکستانی پارلیمنٹ اور سینٹ میں نمائندگی کی سفارش
۲۔انیس سو انچاس کراچی معاہدہ ختم کر کے گلگت بلتستان کو آزاد کشمیر میں ضم کر نے کی سفارش
۳۔گلگت بلتستان میں آزاد کشمیر طرز کا سیٹ اپ قائم کرنے کی سفارش
اگرچہ کمیٹی نے تین سفارشات پیش کی ہیں لیکن انہوں نے ان سفارشات میں سے پہلی سفارش کی تائید اور ترجیح دی ہے اور حکومت سے استدعا کی ہے کہ عبوری سیٹ اپ کے ذریعے ان علاقوں کو قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ کمیٹی کی سفارشات کو دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ انہوں نے یہاں موجود تینوں فکر کی سوچ رکھنے والوں کی دلجوئی کی ہے۔ کمیٹی نے یقینا ان تمام سفارشات کے فائدے اور نقصانات کا جائزہ لیا ہوگا اور ان کی نظروں میں پہلی سفارش یا آپشن قابل عمل ہونے کے آثار زیادہ دکھائی دیئے ہونگے۔ دیکھا جائے تو یہ وہی مطالبہ ہے جو یہاں کا ایک طبقہ اور سیاسی لیڈران پہلے سے کرتے آرہے ہیں۔ سوال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا یہ عبوری سیٹ اپ پاکستان کے آئین میں ترمیم کر کے دیا جائیگا یا اس کو بھی دو ہزار نو کی طرح ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے انتظامی شکل دی جائیگی۔۔ اگر آئین میں ترمیم سے اس کو عبوری سیٹ اپ دیا جاتا ہے تو یہ ایک بریک تھرو ثابت ہو سکتا ہے ، نہیں تو اس عبوری سیٹ اپ کا معاملہ وہی ہوگا جو مرحوم صدر ضیا الحق کے دور میں تھا جس کے تحت گلگت بلتستان کے دو تماشہ بین مشیر پارلیمنٹ میں موجود تھے۔۔
جس عبوری سیٹ اپ کی کمیٹی نے سفارش کی ہے خدا کرے وہی مل جائے لیکن تجزیہ اور واقعات و حالات سے اندازہ ہو رہا ہے کہ پاکستانی حکومت کے لئے شائد ایسا کرنا ممکن نہ ہو۔اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو یہاں کے سیاسی رہنمائوں اور باسیوں کو اپنی یک طرفہ سوچ کو بدلنا ہوگااور دوسرے دو آپشن کے لئے اپنی سیاسی بصیرت اور سمجھ بوجھ کو کام میں لانا ہوگا تاکہ آئینی حقوق حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوجائے۔ کمیٹی کی سفارشات بہت بڑا وزن رکھتی ہیں اور امید واثق ہے کہ ان سفارشات کی روشنی میں کوئی نہ کوئی راہ سجھائی دیگی ۔ان سفارشات کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اب گلگت بلتستان صحیح معنوں میں آئینی حقوق کی راہ پر گامزن ہوگا۔