چلاس کی ڈائری: گزشتہ سے پیوستہ
تحریر :مجیب الرحمان
ضلع دیامر سے عوام کے ووٹوں کی بدولت منتخب ہو کر پرکشش مراعات اور پروٹوکول سے مستفید ہونے والے حکمران اب یہ بات بھول چکے ہیں کہ ایک دن انہیں دوبارہ عوام کے سامنے ووٹ کے لئے دامن پھیلانا ہے۔ گزشتہ الیکشن میں جیتنے کے لئے کئے گئے وعدے وعہد اور جھک کر سلام ، ووٹ مانگنے غریبوں کے گھروں میں گھس کر انکا چین غارت کرنے والے اتنے جلدی کیسے بھول گئے ہونگے کہ عوام کا بھی ان پر حق ہے۔ انکی بنیادی ضروریات بھی پوری کرنا نہ صرف انکی بلکہ ریاست کی بھی ذمہ داری ہے۔
جمہوریت کے ناطے یہ ذمہ داری ان حکمرانوں پر عائد ہوتی ہی جنہیں عوام نے اختیار دے کر اسمبلی میں بھیج دیا ہے۔ ریاست کی ذمہ داری کی بات کا ذکر کر دیا، ذرا تفصیل لکھ دوں تاکہ قارئین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ ریاست کی جانب سے عوام پربنیادی ضروریات کی فراہمی کے لئے بالواسطہ اور بلا واسطہ ٹیکس عائد کیا ہوا ہے۔ چونکہ گلگت بلتستان ٹیکس فری زون ہونے کے ناطے ڈائریکٹ ٹیکس عائد نہیں ہے۔ اب چند سالوں سے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے ٹیکس کٹوتی بھی جا ری ہے۔ البتہ وہ تمام اشیاء جن کا تعلق ہماری روز مرہ کی زندگی سے ہے، ماچس سے لیکر فیکٹریوں کی بڑی مشینوں تک تمام اشیاء پر جنرل سیل ٹیکس کے نام پر ٹیکس عائد ہے۔ روزانہ اگر حساب لگایا جائے تو ہر شہری ریاست کو لاکھوں نہیں تو ہزاروں اور سینکڑوں روپے ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ریاست نے اس ٹیکس کے پیسوں سے بنیادی سہولیات فراہم کرنا ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ ریاستی ادارے عوامی ادارے ہیں مگر حال یہی ہے کہ سرکاری عہدوں پر فائز آفیسران سے چپڑاسی تک عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہے۔عوام پر احسان جتاتے ہے کہ ہم آپکی خدمت کر رہے ہیں۔ جناب عالی کونسی خدمت، ہمارے گھروں میں پینے کو پانی تک نہیں، مائیں بہنیں بیٹیاں چھوٹے بچے سردی گرمی میں بالٹیاں لئے صبح سویرے اور عشاء کے وقت گھر سے کوسوں دور محلے کی ٹوٹی ہوئی پائپ لائن پر قطاروں میں بیٹھ کر پانی بھر کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
چلاس شہر کی اکثریتی آبادی صاف پانی سے محروم، گندے نالے کا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ بیماریوں کا یہ عالم ہے کہ روزانہ ہمارے ہسپتال اور پرائیویٹ کلینک مریضوں کی بھیڑ سے بھرے نظر آرہے ہیں۔ پانی سے یاد آیا کہ چند سال قبل عوام کے کروڑوں روپے خرچ کر کے واٹر فلٹریشن پلانٹس قائم کئے گئے تھے۔کوئی بھی شخص یہ گواہی نہیں دے سکتا کہ فلٹریشن پلانٹس سے کسی کو ایک گلاس پانی بھی صاف ملا ہو۔ بعض فلٹریشن پلانٹس تو فنکشنل ہونے سے پہلے ہی اپنے انجام کو پہنچ گئے ہیں۔ اندھیر نگری کا یہ عالم ہے کہ کسی بھی صاحب اقتدار نے ان فلٹریشن پلانٹس سے متعلق پوچھنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ مجھے کسی ذرائع نے بتایا کہ ان فلٹریشن پلانٹس کی سائیڈ سلیکشن ہی غلط کر دی گئی تھی۔ ایسی جگہ کا نتخاب کیا گیا کہ جہاں پرمحلے داروں کی پہنچ ہی نہ ہو۔ سابقہ ادوار میں چلاس شہر کے لئے صاف پانی کی فراہمی کے لئے کروڑوں روپے کی ڈایا واٹر سکیم منظور ہوئی۔ ٹینڈر بھی ہوئے اور تکمیل کے لئے سکیم ٹھیکیدار کے سپرد ہوئی۔ ابتدائی چند ایام میں تھک داس میں کھڈے کھودے گئے، چند پائپ بھی لائے گئے ۔عوام میں خوشی کی لہر بھی دوڑنے لگی کہ شاید اب انکے گھروں میں صاف پانی پورا دن نہیں تو کم از کم صبح شام کے اوقات میں برتن بھرنے کی حد تک آئے۔ مگر یہ کیا چند دنوں بعد کام بند، ٹھیکیدار کی مشینری اور مزدور بھی غائب ،عوام کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ سابق چیف سیکرٹری نے عوامی مطالبے پر ٹھیکیدار اور محکمے کے خلاف قانونی کاروائی کا حکم دیدیا۔ جس کے بعد گرفتاریاں اور قبل از گرفتاری ضمانتیں بھی ہوئیں مگر ہونا کیا تھا ، عوام اسی طرح پانی کے حصول میں اذیتیں جھیلتے نظر آرہے ہیں۔
موجودہ حکومت نے ترقیاتی سکیموں کو مکمل کرانے کے لئے محکمہ تعمیرات کو فوجی آفسیر کے ماتحت کرنے کا اقدام کیا ہے۔ امید ہے یہ اقدام مثبت ثابت ہوگا اور عوام کو فائدہ ضرور پہنچے گا۔
گزشتہ کالم میں سڑکوں کا ذکر ادھورا رہ گیا تھا دو سطروں میں انہیں بھی مکمل کرنے کی سعی کرونگا۔ شہر کے سڑکوں کی خستہ حالی کے بعد شہر کے مضافاتی علاقوں کی جانب نطر دوڑائینگے تو اوسان خطا ہونگی۔ بٹوگاہ،کھنر ،ڈوڈیشال ،کھنبری،تھور،ہڈر،داریل تانگیر،گوہر آباد ،بونر داس نیاٹ کی رابطہ سڑکیں پرانے زمانے کی پگڈنڈیوں کا منظرپیش کرتے ہیں۔ ان سڑکوں کی تعمیر و توسیع اور پختگی پر بھی ٹینڈر ہوئے ہونگے۔ قومی خزانے سے سے بھاری رقوم بھی نکالی جا چکی ہونگی، مگر نتیجہ صفر۔ آج بھی عوام پتھر کے زمانے والے دور میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔
بجلی کا یہ عالم ہے کہ ضلع بھر میں بجلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ضلع دیامر قدرتی طور پر بجلی کی پیداوار کے مواقعوں کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔مگر اسے عوام کی بدقسمتی کہیں یا حکومتی نااہلی اب تک عوام کو بجلی کی نعمت سے محروم رکھا گیا ہے۔ سابق وزیر امور کشمیر محمد افضل خان کے دور میں تھک نالے میں تعمیر شدہ دو میگا واٹ کا پاور ہائوس اب مکمل طور پر بوسیدہ ہو چکا ہے۔ مرمت کے نام پر سالانہ لاکھوں روپے اخراجات بھی عوامی خزانے سے ہی ادا کئے جا رہے ہیں مگر آئے روز پاور ہاوس کی کوئی نہ کوئی مشین جواب دے جاتی ہے۔ بجلی بحران پر قابو پانے کی غرض سے بٹوگاہ شلکٹ میں ایک میگا واٹ کا پاور ہائوس تعمیر کیا گیا مگر وہاں پر بھی ناقص پائپ لگانے سے آئے روز پائپ پھٹ کر پاور ہاوس بند رہتا ہے۔ تھور میں ڈیڑھ میگا واٹ کا پاور ہاوس بھی محکمے کی نااہلی اور ٹھیکیدار کی مجرمانہ غفلت کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔ روزانہ کوئی نہ کوئی خرابی سے بجلی کی فراہمی معطل ہوتی چلی آرہی ہے۔ فور میگا واٹ منصوبے پر ابھی تک ایک اینٹ بھی نہیں رکھی جا سکی۔
بازاروں میں تاجر بے لگام عوام کو لوٹنے میں مصروف ہیں، کوئی پکڑ نہیں۔ مسافروں کو ناقص اور گندے کھانوں سے تواضع کی جا رہی ہے، کوئی قانون کا خوف نہیں۔ جنگل کی طرح کا قانون رائج دیامر کو اگر مسائل کا گھڑ کہا جائے تو بے جا ہر گز نہیں ہوگا۔
گندم کے حصول سے لیکر صحت کی سہولیات جہاں بھی نظر دوڑائے جائے خامیاں اور کوتاہیاں ہی کوتاہیاں نظر آئینگے۔ عوام ہر جگہ مجبور اور بے بس پستے نظر آرہے ہیں۔ ہمارے حکمران آنکھیں بند کئے اپنے موج مستیوں میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں۔
گلگت بلتستان میں نیب کے قیام اور اب نیب کی جانب سے عملی اقدامات کے بعد امید کی کرن نظر آرہی ہے ۔شاید عوام کو اچھے دن دیکھنا بھی نصیب ہو اورعوام کی لوٹی ہوئی دولت واپس سرکاری خزانے میں جمع ہوگی۔ عوامی نمائندوں نے اگر روایتی سستی اور لاپرواہی ترک نہ کی اور حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت نہ کی تو وہ دن دور نہیں انکا حشر بھی سابقہ حکمرانوں جیسا ہی ہوگا۔
بقول شاعرتمہاری داستاں تک بھی نہ ہوگی داستانوں میں۔۔۔۔۔۔