جشن آمد رسولﷺ
شکور علی زاہدی
للہ تعالیٰ نے اپنے حبیب برحق حضرت محمد صلی اللہ وسلم کو جو فضلیت اور منزلت عطا کی وہ کائنات کی اور نبی رسول امام یا ولی اور کسی مخلوق کو عطا نہیں ہوئی۔ کیونکہ آپ باعث خلق کائنا ت ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے آپ صلی اللہ واسلم کے نور کو خلق کیا۔ اللہ نے آپ کو تمام انبیاء کا سردار بنایا۔ خالق کانئات نے آپ کو خلق عظیم اور مقام محمود کے درجے پر فائز کیا۔ اللہ نے آپ کو دونوں جہانوں کیلئے رحمت العالمین بنایا۔ رب العالمین نے آپ کو شب معراج عطا فرماکر پوری کائنات کی سیر کرائی۔ اللہ نے آپ کے اسوہ حسنہ کو پوری انسانیت کیلئے عملی نمونہ قرار دیا۔ اللہ نے آپ پر وہ دین مکمل کر دی جس کا آغاز حضرت آدم سے ہوا تھا۔ اللہ نے آپ صلی اللہ وسلم کو خاتم نبین کے عہدے پر فائز کرکے قیامت تک کیلئے کتاب رہبر عظیم قرآن مجید نازل فرمائی۔ اور آپ کو وہ تمام صفات اور کرامات عطاکی جو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے اندر انفرادی صورت میں موجود تھی۔ اور آپ کی عترت و قرآن اور سنت کو قیامت تک کیلئے راہ ہدایت قرار دیا۔ اور اللہ نے آپ صلی اللہ وسلم کی مبحت اور اطاعت کو اپنی محبت و اطاعت قرار دیا۔ اور سب سے بڑھ کر آپ کو بحیثیت بشر پیدا کرکے پوری دنیا کے مخلوقات پر عظیم احسان فرمایا اور آپ کی امت کو امت وسط قرار دے کر امت کو بھی عظیم درجہ عطافرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ آج پوری کانئات میں سرکار دو عالم کی ولادت و باسعادت کو تمام مخلوق انسانیت اور امت محمدیہ کے تما م فرقے اپنے اپنے انداز سے عظیم جشن کے حیثیت سے منانتے ہیں۔
دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان بھر میں بھی عید میلا البنی کو بڑی عقیدت و احترام سے منایا جاتا ہے۔ یکم ربیع اول سے ہی جشن آمد رسول کا سلسلہ جاری رہتا ہے جو آخر ربیع اول تک منعقد کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں بسنے والے تمام مسالک کے افراد اپنے اپنے اوقات میں عیدمیلاالبنی کے رسمیں ادا کرتے ہیں۔ اور 12ربیع اول کو پورے ملک میں عید میلاد کے مناسبت سے عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس دن عوامی اور سرکاری سطح پر عظیم الا شان پروگرام اور سمیناروں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ جو 17ربیع اول سے 29ربیع اول تک جاری رہتا ہے۔ ۔ عید میلد البنی کی مناسبت سے تما م چھوٹے بڑے شہروں اور دیہاتوں کو برقی قمقموں سے سجاتے ہیں۔ اور اس دن کو خصوصی حیثیت سے چراغان کرتے ہیں ۔ مخلتف خاندانوں گھروں اور محلوں میں خوشی کی تقریبات منعقد کی جاتی ہے۔ اگرچہ امت محمدیہ کے مخلتف فرقوں کے سامنے تاریخ ولادت باسعادت میں مختلف حوالے ملتے ہیں۔ بعض روایات کے مطابق 9ربیع اول اکثر روایات میں12ربیع اول اور ایک مکتب فکر کے مطابق 17ربیع اول کے دن کو بھی عید میلا البنی کے طور پرمنایا جاتا ہے۔ لیکن عیسوی تاریخ میں عرب کے مشہور سیرت نگار تاریخ بعقوبی کے مطابق آنحضرت کی ولادت و باسعادت 21مارچ 571ء عیسوی کو ہوئی۔ لہذا ولادت میں مخلتف رائے بھی اُمت کیلئے باعث رحمت ہے۔ کیونکہ مخلتف حوالوں سے بھی پوری ربیع اول میں جشن ولادت کی مناسبت سے محفلیں منعقد کرکے عاشقان رسول عشق رسول کی سعادت سے مستفد ہوتے ہیں۔ اور اسے امت کے اندر اتفاق و اتحاد کا مادہ مضبوط ہوتا ہے۔اُمت کی اس اتحاد کو مزید مضبوط کرنے کیلئے حضرت امام خمینی نے پورے دنیا کے مسلمانوں کو 12ربیع اول سے 17ربیع اول تک ہفتہ وحدت منانے کا درس دیا ۔ جس پر آج تک دنیا کے مختلف ممالک میں عمل ہوتا رہا ہے۔ اور اسلامی جمہویہ میں بھی ہفتہ وحدت کے مناسبت سے مختلف مقامات پر ہزاروں محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔ کیونکہ یہ وہی دن ہے جو امت کیلئے دونوں عیدین بڑھ کر ہے۔ کیونکہ دونوں عید سبب بھی اصل میں عید میلاد انبی ہے ۔ اور یہ وہی دن ہے جس کے بعد حق کو ہمیشہ کامیابی ہوئی ۔ مظلوموں اور پسے ہوئی طبقے کو ہمت ملی۔ معاشرے میں عدل و انصاف کا نظام بحال ہوا۔ امن و امان سے نظام زندگی میں بہتر تبدیلی آئی ۔ عورتوں کو ان کے جائز حقوق ملے۔ غلاموں کو آذادی ملی ۔ انسان کو جینے کا موقع ملا ۔ اور دنیا میں پہلے دفعہ توحیدکی حقیقی ترجمانی ہونی لگی۔ دنیا سے غربت اور جہالت کا خاتمہ ہوگیا۔ بشر کو ترقی کے راستے ملے گئے۔ جانور بھی ظلم و جبر سے محفوظ ہو کر حفظ و آمان میں چلے گئے۔ انسان کو اشرف المخلوت ہونے کا درجہ ملا۔ دنیا میں علم کا نور پھیلتا گیا اور اسی دن سے ہی نظام زندگی میں تبدیلی اور بہتری آگئی۔
عوام کوان کی امیدیں مل گئی اس لئے پوری انسانیت سمیت مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ اس عید کو ایسی شان و منزلت کے ساتھ منائے کہ اللہ کے اس احسان کا حق ادا ہوسکے۔اور ہمیں حقیقی امتی ہونے کا ثبوت دینا چاہیے وہ اس صورت میں ممکن ہے کہ ہمارا روح اور دل عشق رسول ؐ سے سرشار ہو۔پاکستان کے دیگر علاقوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی عید میلادالنبی 12 ربیع الاول سے 17 ربیع الاول تک انتہائی شان و شوکت اور پُرجوش انداز سے منایا جاتا ہے۔مسلمانوں کے تمام فرقے ملے جلے انداز میں عید میلاد البنی منا کر سچے عاشقان رسول ہونے کا حق ادا کرتے ہیں۔ایک حساس خطے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے عید میلاد ہمیں اتحاد و اتفاق کا بھی درس دیتا ہے۔اور عوام کو وحدت کے دائرے میں بھی لا کر جمع کردیتا ہے۔گلگت بلتستان کے تمام سرکاری اہلکار ،دانشور،اسکالر،سیاسی و مذہبی لیڈرز اور دیگر سماجی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد نیز اہل قلم حضرات سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ گلگت بلتستان کے زمینی حقائق کو سمجھتے ہوئے عید میلاد البنی کے ذریعے اتحاد کے دامن کو اس طرح مظبوط کریں کہ ہمارا دشمن بھی اپنے ہر سازش میں ناکام رہے۔گلگت بلتستان کے عوام کو دنیا کے دوسرے علاقوں کے مقابلے میں عید میلاد النبی کو زیادہ توجہ دینا بھی اس لئے ضروری ہے کہ جب سرکاردو عالمؐ جبرائیل ؑ کے ہمراہ 27 رجب کو سفر معراج پر چلے تو جب ان کا گزر قراقرم،ہمالیہ اور ہندوکش کے فلک پوش پہاڑوں سے ہوا تو جبرائیل امین نے سرکار دو عالم ؐ کو ان پہاڑوں کے وادیوں کی جانب اشارہ کرکے کہا تھا یا رسول اللہؐ آخر زمانے میں یہاں آپؐ اور آپ کے آل کے چاہنے والوں کی بستیاں ہونگی۔ تاریخ نے سچ ثابت کیا کہ آج قراقرم ،ہمالیہ اور ہندوکش کے سینکڑوں وادیوں کے دامن میں 100 ٖفیصد سچے عاشقان رسول بستے ہیں۔اور ان کا فرض بھی یہی بنتا ہے کہ وہ اتحاد و اتفاق کا دامن تھامتے ہوئے سچے امتی ہونے کا ثبوت بھی فراہم کریں۔اور پورے ملک کیلئے ایک بہترین مثال بھی بن جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ربیع الاول کا پورا ماہ مبارک ہمارے لئے باعث برکت،باعث رحمت اور باعث مغفرت بھی ہے۔ گلگت بلتستان کے تمام طبقہ فکر مرد ،عورتیں اور بچوں کو چاہیے کہ وہ جشن عیدمیلاد النبی کو اس شایان شان سے منائے کہ حقیقی طور پر اس کا منانے کا حق ادا ہوسکے۔100 فیصد آبادی ایک امت سے تعلق ہونے کی وجہ سے اتحاد کا ایک عظیم پیغام پوری دنیا اور اہل وطن کو مہیا کریں کہ دنیا میں پاکستان اور گلگت بلتستان کا وقار بلند ہوسکے۔