کالمز

سالِ نو ’ عزم ِنو

ہمارا معاشرہ جہاں رواداری کو کمزوری، خوش اخلاقی کو چاپلوسی، منصوبہ بندی کو سازش، افہام و تفہیم کی کوششوں کو مسلکی بے غیرتی، نفرتوں اور تعصب کو مسلکی حمیت، دوسروں کی تحقیر کو اپنی عظمت، اپنے سوا سب کو رد کرنے کو اپنا منصبی شرعی فریضہ، افواہوں کو خبر موثق، چند عام لوگوں کے ذاتی غلط افعال کو پورے مکتب کا ترجمان، دوسروں کی دل آزاری کو اپنی فتح، دوسروں کو جانے بغیر اس کے متعلق اپنی فہم کو مستند ثبوت، جہاں منافقت کامیابی کا واحد رازسمجھا جاتا ہو،

ہمارا معاشرہ جہاں صحافت، تعلیم، سیاست، مذہب جیسے مقدس امور بھی سرعام بکنے لگے، انصاف صرف پیسے یا ڈنڈے کے زور پر ہی ملتا ہو، قانون کے نفاذ پر مامور ادارے قانون شکنی میں شہرت رکھتے ہوں، ریاست کے دفاعی ادارے ہی برسوں تک دہشت گردوں کو پالتے ہوں، زیادہ سے زیادہ کرپشن، اقربا پروری، کارکن پروری اور پارٹی سرمایہ کاری کو جمہوریت کا درجہ حاصل ہو۔ عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے سول و عسکری افسران عوام کو انسان سمجھنے سے قاصر ہوں، ہمارا معاشرا جہاں!!!

تعلیم کا ترقی اور تسخیر و ایجاد سے کوئی واسطہ نہ ہو ،

تحقیق کے بغیر محققین، تحریر کے بغیر مصنفین، تفسیر کے بغیر مفسرین کی فراوانی ہو،

تعلیم کے لیے ڈھائی فیصد بجٹ بھی اسراف لگتا ہو،

بچوں کو ذہنی و نفسیاتی طور پر مفلوج وناکارہ بنائے جانے کو معیاری تعلیم سمجھا جاتا ہو، مُردوں کامسلک دیکھ کر افسوس یا خوشی کا سوچاجاتا ہو،

درسگاہوں، مسجدوں اور مکتبوں کا بھی مسلک ہو!

جہاں کتابیں فٹ پاتھ پر اور جوتے شیشے کی الماریوں کی زینت ہوں،

جہاں انصاف ناپید ہو لیکن قدم قدم پر آپ کو مدعی، وکیل اور منصف ایک ہی شخص میں میسر ہو،

جہاں خاندان کے خاندان اور بستیوں کی بستیاں صرف افواہوں اور نفرتوں کے شعلوں کی نذر ہو جاتی ہیں اور اجتماعی خون کی ہولی کھیلنے کا بار بار مظاہرہ ہوتا ہو اور ہم اظہار ہمدردی، مذمب کرنے، فاتحہ خوانی کرنے، چراغ جلانے اور احتجاج کرنے سے زیادہ کچھ کرنے کے لیے تیار نہ ہوں،

جہاں نعرے، جھنڈے، ترانے اور جلسے ہی حبی الوطنی، انقلاب اور ترقی وکامیابی کے پیمانے ہوں،

جہاں اور بہت کچھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

عزمِ نو آئیں نئے سال میں عزم کریں کہ ہم مختلف تنظیم و ادارہ ، علاقہ و زبان، مذہب و مسلک سے وابستہ لوگ ایک دوسرے کے لیے علم کی راہوں کو کھولیں گے، ایک دوسرے کو قریب سے سمجھیں، دوسروں کے بارے میں صرف سچ ہی بولیں گے، ایک دوسرے سے تعاون کریں گے، ہم ایک دوسرے کی صلاحیتوں پر اعتماد کریں ، ہمہ جہت ترقی کی راہوں کو آسان بنائیں،

آئیں عہد کریں کہ ہم! خوف کو امن میں ، تحقیر کو توقیر میں اندھی تقلید کو تحقیق میں ، تعصب کو تقرب میں نفرت کو محبت میں، دکھ کو سکھ میں، بدل دیں گے، بدل دیں گے، بدل دیں گے!! ہم اپنی کمزوریوں اور غلطیوں پر غور اور ان کی اصلاح کریں گے، دوسروں کی خوبیوں کو تسلیم کریں گے، سر عام اجاگر کریں گے،

ہم دوسروں کو سمجھنے کے لیے اُن کے بارے میں اپنے خود ساختہ خیالات پر اکتفا نہیں کریں گے، ہم کسی بھی افواہ پر مشتعل نہیں ہوں گے، ہم کسی کی توہین و تحقیر نہیں کریں گے۔ ہم کسی انسان کو اپنے سے کم تر یا بدتر نہیں سمجھیں گے،

ہم ہر فتنے و فساد سے دور رہیں گے، ہم ہر بات کی تصدیق و تحقیق خود کریں گے، ہم فرقہ پرستی ، نسل پرستی اور گروہ پرستی سے دور ر ہیں گے، ہم اپنے رویوں پر نظر خود رکھیں گے، ہم نفرت، تعصب اور تشدد کا راستہ روکیں گے، ہم دوسروں کی خوشی اور خوشحالی کے لیے مل کر کام کریں گے، ہم ظلم، زیادتی اور نا انصافی کے خلاف کھڑے ہوں گے،

آئیں ہم اپنے وطن پُرامن، مستحکم، خوشحال اور ترقی کی راہ پر لگائیں گے۔

آئیں عہد کریں، عزم کریں، نیت باندھ لیں، ارادہ کریں!!! ہم امن ، محبت، احترام ، ترقی، خوشی اور خوشحالی کے پیامبر بنیں گے!! آئیں تعمیر و ترقی کے اس سفر کا آغاز ہم میں سے ہر ایک اپنی ذات اور اپنے گھر سے کریں گے!

آپ کی رائے

comments

محمد حسین

محمد حسین کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔ دینی تعلیم کے علاوہ ایجوکشن میں پی ایچ ڈی سکالر ہیں ، ایک ماہر نصاب کے طور پر اب تک بارہ کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کیا ہے۔ ایک پروفیشنل ٹرینر کی حیثیت سے پاکستان بھر میں مختلف درسگاہوں اور مراکز میں اب تک ایک ہزار سے زائد اساتذہ، مختلف مسالک و مذاہب سے وابستہ مذہبی قائدین اور مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں کو فن تدریس، ، قیادت، امن، مکالمہ، حل تنازعات، نصاب سازی ، تعصبات اور مذہبی ہم آہنگی جیسے مختلف موضوعات پر پیشہ ورانہ تربیت دے چکے ہیں۔ ریڈیو ، ٹی وی اور ویب سائٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

متعلقہ

Back to top button