ادب پارے: ریڈیو کا بانجھ پن
حاجی سرمیکی
اٹھارویں صدی کے اواخر کی بات ہے کہ جدید دنیا میں ریاستی انتظام و انصرام کے خودساختہ استاد ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے اپنے ہی ملک کے ایک محنتی طالب علم کو ملک بدر ہونے پر مجبور کیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ آزادیِ اظہارِ رائے کی مالا جپنے والی سرکار نے مارکونی نامی ایک فطین طالب علم کی ایک کامیاب کاوش پر اس وقت قدغن لگادیا جب وہ اپنی آواز کو ٹرانسمیٹر ز کے ذریعے اپنے گھر کے ایک کمرے سے دوسرے کمرے تک پہنچانے میں کامیاب ہوا۔ دنیا ئے ابلاغ کے بے تاج بادشاہ کو اپنی ریاستی رازداری کی فکر اس قدر کھانے لگی کہ اس تجربے کو اپنی ریاست کے اندر مزید وسعت دینے سے روک دیا۔آج کی جدت پسندی کے علمبردار اور روشن خیالی کے دعویداروں کی علم دوستی کی تاریخ کس قدر تاریک تھی ۔ ایک طرف علم وفن کا نہتا دیوانہ تھا اور دوسری طرف ایک کم ظرف قوم ۔ مارکونی نے اپنے شوق پر بابل کو قربان کرنے کی ٹھانی اور دولتِ برطانیہ سدھار گیا۔ ہم مشکور ہے کہ مارکونی کے دماغ میں برصغیر آنے کی کوئی خواہش نہیں اٹھی ورگرنہ آج مارکونی اور ریڈیو کاکہیں مشترکہ مدفن ہوتا ۔ یوں انیسویں صدی کے اوائل میں ریڈیو تولد پذیر ہوا ۔ پہلے پہل ریڈیو اپنی افادیت کے عین مطابق جسامت کے اعتبار سے بھی کافی بڑا تھا اور اولین ریڈیو اور اس کا ٹرانسمیٹر دو کمروں پر مشتمل ہوتا تھا ۔ اولین ریڈیو نے ذریعہ تعلیم کے طور پر کام کا آغاز کیا تھا تاہم دو عشروں کے اندر اندر یہ خبر رسانی کا پہلا باقاعدہ لاسلکی ذریعہ بن گیا۔ یوں برٹش بروڈکاسٹینگ کارپوریشن نے ۱۹۳۰ کے دوران پہلا نیوز بلیٹن نشر کیا اور ریڈیو کو پہلی ریڈیائی لہروں کے ذریعے چلنے والاابلاغ عامہ کا پہلا ذریعہ ہونے کا اعزاز حا صل ہوا۔
عجیب اتفاق ہے کہ جب تک ریڈیو اپنی جسامت کے لحاظ سے بڑا تھااور عام آدمی کی پہنچ سے باہر تھا تب تو اس کے سامعین کی تعداد بھی بے پناہ حد تک زیادہ تھی مگر جب سے برقیات کی دنیا میں سیلیکون چپ متعارف ہوا ہر قوی ہیکل برقی آلہ سمٹ کر لوگوں کی ہتھیلیوں تک آگیاتب سامعین کی تعداد بھی محدود ہوگئی۔ ریڈیو لاسلکی ذرائع ابلاغ کی دنیا کا وہ واحد منفرد آلہ ہے جو کسی بھی دوسرے ذریعے کی نسبت سہل ترین ،سادہ ترین اور سستا ترین آلہ اور ذریعہ ہے ۔ اقوام عالم کی تاریخ میں خبررسانی کے علاوہ معلومات کی فراہمی میں بھی ریڈیو کا بہت ہی اہم کردار رہا ہے اور آج بھی ٹی وی، انٹرنیٹ اور جدید ترین ذرائع ابلاغ جس میں ریڈیو کی نسبت بہت ساری دلچسپی کے حامل مواد فراہم ہیں ریڈیو نے اپنی سامعیت برقرار رکھاہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ریڈیو اپنے منفرد پرگراموں کی ترتیب اور پیشکش کی بنیاد پر ایک اہم مقام رکھتا ہے ۔ ایک معتبر تجزیے کے مطابق ریڈیو کے پروگرامز سامعین پر قدرے گہرا اثر ڈالتا ہے ۔ وقت کے تقاضے اور سماجی نفسیات کے مطابق پروگراموں کو ترتیب دے کر جدید دنیا اس سہل ترین ذریعہ ابلاغ سے بے حد مستفید ہورہی ہیں ۔ جبکہ وطن عزیز پاکستان میں زیادہ تر سرکار کے زیر اثر ہونے، غیر پیشہ ور افراد کی اجارہ داری ، غیر متنوع اور جدید تقاضوں کے برخلاف روایتی طرز پر پروگراموں کی برمار نے اس فائدہ مندذریعہ کوبانجھ پن میں مبتلا کر دیا ہے۔ بحیثیت علم صحافت کے طالب علم کے اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ ہمارے ہاں پروگراموں کو سامعین کی ذوق کے مطابق ترتیب دینے کی کوشش کرتے ہیں البتہ ایک پیشہ ور براڈکاسٹر یا پروڈیوسر کی یہ کاوش ہونی چاہیئے کہ وہ پروگرام کے اثر سے سامعیت بڑھائے اور معاشرے کو ریڈیو پروگراموں کے مقاصد کی ڈگر پر چلنے پر مجبور کرے۔ یقیناًیہ اتنا آسان امر بھی نہیں ۔ اسی لئے شعبہ صحافت میں ریڈیو پروگرامنگ اور براڈکاسٹنگ کا مکمل کورس متعارف ہوچکا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کی مہربانی سے کچھ دنوں کے لئے ریڈیو سے رغبت کیا بڑھی کہ ہمارے گمانِ بے مایہ میں اس کی حالتِ زار پر سوالات اٹھنے لگے۔نجی اور سرکاری دونوں اداروں سے ریڈیو کی تقریبا سبھی پیشکشیں ایک ہی فارمیٹ، ایک ہی ایجنڈے اور متماثل اسلوبِ زبان و بیان کے ساتھ ترتیب پاتی ہیں ۔ دونوں جگہوں پر اچھے اناونسر ، براڈکاسٹر اورپروڈیوسر بھی موجود ہوں گے۔ مگر اکثر پیشکشوں میں پروڈیوسرکا صرف نام ہوتا ہے باقی کام سارا میزبان خود انجام دیتا ہے ۔ اور تو اور بعض پروگراموں میں شامل مواد کا پروڈیوسر کو سرے سے علم ہی نہیں ہوتا ہے۔ یوں تو نجی ادارے کے آنے سے ریڈیو سننے والوں میں حوصلہ افزا حد تک اضافہ تو ہوا ہے لیکن اب بھی بہت بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ طالب علموں، زمینداروں، سرکاری فرائض و حقوق اور افراد معاشرہ کے رویوں کو پرکھ کر پروگراموں کی تدوین کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی ہے۔ شروع شروع میں ایک نجی ریڈیو چینل کا ایک خاص پروگرام بام شہرت کو چھوچکا تھا ۔ یقیناًاس میں پروڈیوسر کی میزبان کی اپنی کوششیں تو رہی ہوں گی لیکن یکبارگی جب میزبا ن بدلا اور دوسرے پروگراموں کے ذریعے اس کمی کو پورا کرنے میں جت گئے گویا کوا چلے ہنس کی چال اپنی چال بھی بھول بیٹھا۔ یوں بھی نہیں کہ کوئی بھی دوسرا پروگرام کچھ نہ کر سکا ۔بلکہ دیگر پروگراموں نے بھی دیرے دیرے اپنی ساکھ خود بحال کی ہے ۔ یہی سمجھ پروڈیوسر اور میزبان کی ہونی چاہیئے کہ سامعیت بڑھانے اور سامعین کی منشاء کے بر عکس اپنے ایجنڈے کا دھاگ بٹھانے میں عمریں لگتی ہیں ۔ دو سے چار دن میں کوئی ایک فرد پورے معاشرے کی نفسیات کو نہیں جانچ سکتا اور نہ ہی فرد واحد راتوں رات لوگوں کی سوچ پر حکمرانی کر سکتا ہے۔ اس ضمن میں فرد کی اپنی نجی زندگی کے تجربے، عمر ، جنس اور ذاتی فہم و ادراک کا بھی گہرا دخل ہوتا ہے یہی بات ہے کہ مطالعہ کرنے والے، نجی زندگی میں سماج کے نزدیک رہ کر کام کرنے والوں کے پروگراموں کو خوب پذیرائی ملتی ہے۔ یہ بھی واضح ہوکہ ہر مشہور اناونسر ، براڈکاسٹر ہر طرح کے پروگرام کے لئے موزوں تصور نہیں کئے جاتے اس لئے کسی کی بھی شہرت یا تجربے کی بنیاد پر یکسر مختلف فارمیٹ کے پروگرام میں آزمانا نہ صرف ریڈیو کے لئے مضر ہے بلکہ اس اناونسر کی اپنی ساکھ کو بھی نقصان پہنچتا ہے ۔ ریڈیو سٹوڈیو میں بیٹھے ہوئے فرد کو نہیں معلوم ہوتا کہ کوئی آخر اسے کیوں کر سن رہا ہے اور اگر نہیں تو کیوں کر۔ جبکہ یہ بات بھی درست نہیں کہ ایک پروگرام میں دس سے بیس افراد کی کالیں یا رائے شامل ہونے سے پروگرام کا رخ موڑا جائے ، کیا معلوم کہ جو سینکڑوں سامعین دامِ شنیدن بچھائے بیٹھے ہیں ان کو تبدیلی مقصود نہ ہو۔ اسی لئے ایک پروڈیوسر معاشرتی رویوں اور نفسیات کے مطابق پروگرام کا متن ترتیب دیتا ہے اور یوں سمجھ لیجئے کہ وہ کل کے پھلدار درخت کا آج بیج ڈال رہا ہوتا ہے۔ اور یہ کہ جب آپ نے وہی کچھ بتانا ہے جو ہمیشہ سے بتاتے رہے ہو، یا پہلے پروگرام میں بھی تذکرہ کیا گیا ہو تو پھر اس پروگرام کو کوئی مقصدیت پر مرکوز فرد کیوں کر سنے گا۔ بھلا پاک فوج کی لازوال قربانیوں کے پروگرام میں سردی سے بچاؤ کے طریقے اور حفاظتی اقدامات پر بات کریں گے تو اس سے کیا مطلب نکلے گا۔
جب ریڈیو سے منسلک افراد اسے ٹائم پاس کا میڈیئم بنائیں گے تو بھلا مقصدیت کہاں سے حاصل ہوگی۔ سٹوڈیو میں بیٹھے شخص کی مثال ایسی ہے کہ وہ اکیلا بینا شخص ہے کہ جس کے پیچھے ہزاروں نابینا افراد چل رہے ہیں ۔ اب اسی نسبت سے احساس ذمہ داری بھی رکھنا ہوگا۔ قومی ترانوں کے پروگرام میں غزلیں اور وہ بھی ایسی ویسی ، کہ نہ ربط ہے، نہ تال میل نہ کسی کی فرمائش ، اگر اناؤنسر نے اپنی مرضی سے سنانا ہے تواپنی پسند اپنے تک محدود رکھ لیں تو بہتر ہے۔ گانے ، ترانے، منقبت ، حمد ونعت کے پروگرامز اسی لئے الگ الگ رکھتے ہیں کہ ان کو سننے اور پسند کرنے والوں کی عمروں، عقائداور تعلیم میں بے شک کوئی فرق نہ ہو لیکن نفسیات میں بہت فرق ہوتا ہے۔ آج کا ریڈیو ہر ہر فرد تک بٹ چکا ہے ۔ پہلے کی طرح نہیں کہ ایک گروہ بیٹھ کر سن لے اور جو اکثریت کو پسند ہو وہی بہتیرے ۔ اب ہر ہر فرد کو مطمعن کرانا کسی بھی طرح ایک کشمکش سے کم نہیں ۔ ریڈیو کے اندر بہت سے رنگ پنہاں ہے اور کوئی اہل نظر ہو تو وہ اس سے دھنک رنگ بکھیر سکتا ہے۔ وگرنہ اگر روایتی طرز واسلوب اور اپنی پسند و ترجیحات کو فوقیت دیتے رہے تو ریڈیو کا یہ "بانجھ پن” کبھی دور نہیں ہوگااور یہ ایک نخلِ بے ثمر ہی رہے گا۔