کالمز

  وادی وادی پربت پربت: ایک نظر میں

ظہیر عباس (سکردو)

اس وقت میرے ہاتھ میں جو کتاب ہے وہ وادئ شمال   کی حوا کی ایک بیٹی کی تحریر کردہ ہے۔گو کہ مصنّفہ کا تعلق بنیادی طور پر کراچی سے ہے لیکن اْنھوں نے سکردو میں جتنا وقت گزارا ہے وہ عرصہ میری عمر سے بھی زیادہ ہے۔  عفّت سلطانہ پچھلی چار پانچ دہائیوں سے گلگت بلتستان کے تعلیمی اداروں میں اپنی خدمات سرانجام دیتی رہی ہیں۔ اِس وقت وہ  گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج سکردو میں بحیثیت سینئر انسٹرکٹر اپنی توانائیاں قوم کی تعلیمی خدمات میں صرف کر رہی ہیں۔ میری اْن سے پہلی ملاقات حال ہی میں آغا خان یونیوسٹی میں ایک تعلیمی پروگرام میں ہوئی۔ میں نے اْنھیں نہایت ہی کم گو پایا لیکن جب اْن کی کتاب پڑھی تو دیکھا کہ کتاب کا ہر لفظ اپنے اندر ہزار ہا مفاہیم چھپائے ہوئے ہے۔  شاید پہلی دفعہ  میں گلگت بلتستان کی کسی خاتون مصنّفہ کی کوئی تحریر پڑھ رہا ہوں۔ کتاب کا سرورق دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ یہ کتاب فرضی کہانیوں پر مشتمل ایک تحریری مجموعہ ہے جس کا حقیقی زندگی سے کوئی تعلق نہیں۔ لیکن جوں جوں میں کتاب کے صفحے پلٹتے آگے بڑھ رہا تھا مجھے ہر طرف حقیقی زندگی کے مختلف   رنگ کتاب کے صفحوں پر جا بجا بکھرتے نظر آرہے تھے۔ یہ مصنفہ کے زورِ قلم کامعجزہ  ہے کہ اْنھوں نےپہاڑوں میں زندگی کے مختلف اسلوب کو الفاظ کے دھاروں میں ایسے پرویے ہیں کہ  قاری  کتاب کے ہر لفظ میں سموئی زندگی کی چہل پہل ،رونقوں، اْتارچڑھاو اور رنگوں میں کھو جاتا ہے اور یوں وہ کتاب میں موجود زندگی کو محسوس کرتا ہے۔  کتاب میں  مجسّم یہ زندگی کسی فرضی کہانی کا مرقّہ نہیں بلکہ  خطہء بلتستان کے کہساروں کے بِیچ  مصنّفہ کی زندگی کے تجربات، احساسات اور جذبات  کا آئینہ ہے۔

کتاب کے تمام دس افسانے نوے کی دہائیوں کے لکھے ہوئے ہیں۔ مصنّفہ نےیہ تمام افسانے ڈائجسٹ کے مختلف شمارے کے لئے لکھے تھے۔ چونکہ تمام افسانے کسی نہ Pic for Articleکسی شکل میں پہاڑوں میں زندگی  کے پہلووں کے ترجمان ہیں اس لئے اِنھیں ترتیب دے کر مجموعے کی شکل دی تاکہ بیک وقت تمام افسانوں  کو زیادہ سے زیادہ پڑھا جا سکے۔

کتاب  کا پہلا افسانہ "پس پردہ” ہے۔ یہ کہانی الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا  کے ذریعے دکھائی جانے والی خوبصورت اور دلنشیں "پہاڑوں میں زندگی” کے پسِ پردہ حقیقت کی صحیح طور پر اکّاسی کرتی ہے۔ پہاڑوں میں زندگی کے مشکلات اور بنیادی سہولیات کے فقدان  جیسےمسائل کو زندگی کے تجربات کی مثبت شکل میں بیان کرنا مصنّفہ کے فنِ تحریر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔  آگےبڑھیں تو مختلف موضوعات پر افسانے  بلتستان کے دشوار گزار برفانی علاقہ کے لوگوں اوربا الخصوص خواتین کی زندگی کے بیشتر پہلووں کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔مثلاً  لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کے رواج کو اْنھوں نے "تیرے ملنے کی تقریب بنا عید کا چاند” میں تیرہ سالہ گل موتی کے کردار کے ذریعے رقم کیا ہے۔ گل موتی کا باقاعدہ نکاح آج سے دس برس پہلے ہو چکا تھا ۔ اْس کی ہم عمر لڑکیوں کی شادیاں ہو چکی ہیں اور وہ کئی کئی بچوں کی مائیں بھی بن گئی ہیں لیکن گل موتی اب تک بِن بیاہی ہیں۔  اِسی طرح "بارانِ رحمت” میں نور دین کا کردار بھی ایک اہم معاشرتی رویے کی تصویر کشی کر رہا ہے۔ نوردین کی بیوی، بچے اور گائے بیمار ہو جا تی ہے اور وہ اپنی گائے کے علاج معالجے کے لئے دم دوا، درود، تعویز اور دیگر دیسی نسخے سب آزماتا ہے چونکہ گائے سے پینے اور چائے بنانے کے لئے دودھ جبکہ جلانے کے لئے گوبر ملتا ہے۔ بیوی بچے تو بیمار ہوتے رہتے ہیں اور اْن کا بیمار ہونا زیادہ پریشانی کی بات نہیں ہے۔

کتاب کا آخری افسانہ”پتھروں میں گلاب” دراصل ایک لڑکی عاصمہ کی زندگی پر مبنی ہے جو زندگی کی مشکلات و مصائب سے تنگ آکر پہاڑوں کی وادی سکردو میں پناہ لیتی ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی نئی پہاڑوں میں زندگی پروان چڑھنے لگتی ہے اور اس کی زندگی میں بہار آتی ہے جیسے کہ پتھروں میں گلاب کھِل اْٹھے ہوں۔

اگر میں ” وادی وادی پربت پربت” پر اپنے اس تبصرے کو سمیٹوں تو بات یہاں پہنچتی ہے کہ عفّت سلطانہ نہ اِس خطے میں خواتین کی زندگی کے مختلف پہلووں کی عکاسی کر کے اس علاقے کے لکھاریوں خصوصاً خواتین کے لیے ایک نئی جہت کا آغاز کیا ہے۔ وہ اب  اٌن تمام خواتین کے راہ نما ثابت ہو سکتی ہیں جو اْن کی اِس راہ پر چلنے کو تیار ہوں اور اپنے جذبات و احساسات کو قلم و قرطاس کے ذریعے   پھیلائیں اور علاقے کی تہذیب و ثقافت خصوصاً خواتین کے موضوعات  کا شعور عام کریں۔

کتاب کے اختتام پر اْن کے لئے میری زبان پر بس یہ الفاظ ہیں کہ

اللہ کرے زورِ قلم اور زیادہ!           آمین

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button