سیاحت
دیوانوں کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ورشیگوم کے مہمان نواز لوگ اور ہم
تحریر : شمس الحق قمر ؔ بونی ۔ حال گلگت
پچھلی دفعہ ’’ سنسان گلیشر پر اللہ اکبر کی سحر انگیز آواز‘‘ کی ذیل میں ہمارے سفر کی ابتدائی کہانی بیان ہوچکی تھی ۔ بروغل سے درکھوت تک کے سفر میں ہمارے قافلے میں ایک اور رُکن کا اضافہ ہواتھا جو کہ گلیشر عبور کرکے درکھوت کی’’ غاری‘‘ تک گائیڈ کے طورپر ساتھ رہا ۔ درکھوت’’ غاری‘‘ سے یاسین کے سب سے پہلے گاؤں درکھوت تک یہی کوئی ڈھائی گھنٹے کا راستہ ہے ۔ درکھوت غاری میں ہم نے تقریباًً تین گھنٹہ سستانے کے بعدبروغل سے ساتھ آئے ہوئے راہبر کو خدا حافظ کہا ۔ غاری میں ہلکا پھلکا کھانا کھایا اور رات کے نو بجے غاری سے گاؤں کی طرف روانہ ہوئے ۔ ہم ایک بہت بڑی مہم سر کر کے آئے تھے اور زندہ سلامت انسانوں کی بستی میں پہنچے تھے ۔ہماری خوشی کی انتہا نہ تھی ۔ گلیشر میں سفر کے دوران میرے جوتے پھٹ چکے تھے جس کی وجہ سے میرے دونوں پاؤں کے نیچے چھالے پڑے ہوئے تھے جوکہ خشکی میں چلنے اور مٹی اور دھول لگنے سے گہرے گھاؤ میں تبدیل ہوئے تھے اور مجھے چلنے میں خاصی دِقت ہو رہی تھی گویا اک آبلہ پا وادی پرخار میں آوے کی ہم مثال بنے تھے ۔ ہمارے پاس ایک ٹارچ تھا جس کی روشنیمدھم پڑتے پڑتے ختم ہو گئی بہر حال ہم چلتے رہے۔ ہم ایک ایسے اجنبی راستے سے چل رہے تھے کہ راستے کی دشواری اور ہمواری کا کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا ۔ البتہ اتنا معلوم ہو رہا تھا کہ نیچے گہری کھائی اور اُس کھائی کے ساتھ ساتھ دریائے یاسین کی گلیشیر سے نکلنے والی پہلی ندی بہہ رہی تھی ۔ جس راستے سے ہم سفر کر رہے تھے وہ بے آب و گیاہ پہاڑی کے دامن میں بھیڑ بکریوں کے چراگاہ کا راستہ تھا۔ ہم بڑی احتیاط اور آرام سے چلتے رہے ۔کوئی دو گھنٹوں کی مسافت کے بعد دور ایک گاؤں میں لالٹین کی ایک آدھ روشنیاں نظر آئیں اب ہم بھی دشوار گزار اور تنگ و تاریک راستے کو عبور کرکے ایک ہموار راستے میں داخل ہو چکے تھے اور میں نے اپنا ریڈیو دوبارہ آن کیا اور سوئی MW-500) ( تک گھمائی تو ریڈیو پاکستان اسلام آباد کی شام کی نشریات کے اختتا م پر اناونسر نے یہ لفظ دہرایا ’’ دین و دنیا کی بھلائی ‘‘ یہ جملہ رات کے ٹھیک گیارہ بجے پروگرام کے اختتام پر بولاجاتا تھا ۔ پندرہ یا بیس منٹ چلنے کے بعد ہم ایک ایسے راستے پر تھے جس میں ہر طرف پانی تھا ۔ یوں سمجھ لیجئے کہ ہم ایک نالے کے بیچ میں سے گزر رہے تھے ۔ میرے پاؤں کے چھالوں سے اب خون رسنا شروع ہوا تھا مجھے شدید درد کا احساس ہو رہا تھا ۔ پانی کے بیچ میں سے چلتے ہوئے کسی پتھر کے ساتھ پاؤں لگ گیا اور ٹھوکر اتنی زور کی تھی کہ میں منہ کے بل پانی میں گر گیا ۔ فوری طور پر میرے دونوں ہم سفر دوست شمس الدین اور مظفر نے مجھے اٹھایا اور باری باری اپنی پیٹھ پر سوار کرکے آگے بڑھتے رہے ۔ جب ہم بروغل سے روانہ ہو رہے تھے تو ہمارے میزبان میرزہ رفیع ( مرحوم ) نے درکھوت میں ٹھہرنے کے لئے کریم خان نامی ایک ماسٹر صاحب کا نام دیا تھا ۔ شمس الدین اور مظفر مجھے معزور اور بیمار کی طرح پیٹھ میں اُٹھا ئے رات بارہ بجے تک درکھوت میں ماسٹر کریم کا گھر ڈھونڈ تے رہے لیکن اُس گھر کو نہیں ملنا تھا نہ ملا۔
آخر کار ہم ایک عمارت میں داخل ہوئے دیکھا تو یہ اسماعیلوں کی عبادت گاہ (جماعت خانہ) تھا ۔ ہم نے سوچا کہ اس عبادت خانے میں رات گزارنا بہتر ہوگا۔ یہ غالباً ۱۹ جولائی کی رات تھی لیکن تھنڈ اتنی کہ ہم ٹھٹھر رہے تھے ۔ لمبی مسافت کی وجہ سے ہمیں شدید بھوک بھی لگی تھی۔ جماعت خانے میں رات تو گزاری جا سکتی تھی لیکن خالی پیٹ کیسے نیند آتی ۔ لہذا فیصلہ یہ ہوا کہ جماعت خانے میں خالی پیٹ رات گزارنے یا ماسٹر کریم کے گھرکو ڈھونڈتے ڈوھونڈتے صبح کرنے سے بہتر ہے کہ جو بھی گھر نظر آجائے داخل ہوں گے اور کھانے کے ساتھ سونے کے لئے جگہ مانگیں گے ۔ اسی جماعت خانے سے تھوڑا آگے جاکر ہمیں ایک گھر نظر آیا اب وقت بارہ بجے سے اوپر ہو چکا تھا ۔ ہمارے عظیم دوست اور پورٹر نے گھر کا دروازہ بے ہنگم طریقے سے کھٹکھٹانے لگا ۔ یہ ایک دیسی گھر تھا برآمدے میں جالی لگی ہوئی تھی جو کہ اس علاقے کے طرز تعمیر کا روایتی حصہ ہے ۔ تھوڑی دیر بعد اندر سے دروازے کی چرمرانے کی آواز آئی ۔ دروازے کی چُرمراہٹ کے ساتھ ہماری بھی جان میں جان آئی ۔ ایک بندہ لالٹین ہاتھ میں لئے برآمدے کی جالی میں آکر زور دار آواز میں استفسار کیا کہ’’ کون ہن لا!‘‘ یعنی کون ہو ؟ بیگ محمد نے اپنے مخصوص اور بے ساختہ انداز میں کہنے لگے کہ ’’ اسپہ مسافران لہ برار شا یوزو موژی چھویئی گیتی اسوسی ‘‘ اُس نوجوان نے برآمدے کی جالی کا دروازہ کھولا اور ہم اندر داخل ہو گئے ۔یہ اُن کا اصل رہائشی مکان نہیں تھا بلکہ گرمیاں گزارنے کا وقتی رہایش گاہ تھی۔ اس لئے یہاں ایک ہی کمرہ بنا یا گیا تھا ۔بہر حال ہم گھر کے اندر داخل ہوئے اُس آدمی کو جب یہ معلوم ہوا کہ ان مسافرو ں کا تعلق چترال سے ہے تو اُس نے ہماری طرف خصوصی توجہ مبذول کی بلکہ اُس نے یہ بھی کہا کہ آپ چترا ل کے ہمارے عزیز مہمان ہیں ۔اُس گھر میں صر ف تین افراد رہتے تھے جن میں ہمارا میزبان اُسکی بوڑھی ماں اُسکی شریک حیات اور دو سال کا بچہتھا ۔انہوں نے ہمیں طعام کی پیش کش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ آپ نے لمبی مسافت طے کی ہے آپ کو بھوک لگی ہوگی لہذا گھر میں خستہ روٹیوں کے ساتھ ساگ تیار ہے آپ انہیں نوش کیجئے تب تک کھانہ بھی بنے گا ‘‘۔ ہماری بہن ( میزبان کی اہلیہ )نے جب ساگ کے ساتھ سات عدد خستہ روٹیاں پیش کیں تو ہم نے اُسے مزید کھانہ پکانے سے روک دیا ۔ ہمیں ایسا لگا کہ ہم اپنے سگے بہن بھائیوں کے ساتھ ہیں
۔ ہم نے باتوں باتو ں میں کریم کا ذکر کیا تو ہمارے میزبان نے کہا کہ کریم میرا نام ہے ۔ لیکن یہ ماسٹر کریم نہیں تھا یہ دوسرا کریم تھا جو کہ فوجی تھا اور اس وقت اپنی چھٹیاں گزار رہا تھا ۔ خلوص کی حد یہ تھی کہ اُس نے اپنا ایک ہی کمرہ ( دیسی گھر بائی پش) ہمارے لئے خالی کرکے اپنے پورے خاندان کو لیکر گھر کی چھت پر جاکے سونے کی آمادگی ظاہر کی تو ہم نے اُن سے گزارش کی کہ چھت پر ہم سوئیں گے تاکہ گلیشر سے چلنے والی ٹھنڈی ہواؤں سے بھی لطف اندوز ہو سکیں ۔ کریم بھائی نے چھت پر قیمتی اسفنج اور چائینا کمبلوں کی ڈھیر لگا دی ۔ ہمیں اتنی پرسکوں نیند آگئی کہ جیسے ہم اپنی ماں کی گود میں بے خوف وخطر سو رہے تھے ۔ وہ نیند اتنی پر سکون اور میٹھی تھی جو آج تک دوبارہ نصیب نہیں ہو سکی۔ رات کو کریم بھائی نے دیسی جڑٰ ی بوٹیوں سے میرے پاؤں کے زخموں کی دیسی مرہم پٹی کی تھی جڑٰ ی بوٹیوں کے اُس پیسٹ میں شاید انفیکشن کے خلاف کوئی خاص دوائی پائی جاتی تھی ۔ صبح جب میری آنکھ کھلی تومیرے زخموں کا اندمال بھی ہوا تھا اور درد بھی نہیں ہو رہا تھا البتہ رات کو جو ٹھوکر کھائی تھی وہ جگہ تا حال توجہ طلب تھی ۔
ہمارے ناشتے میں دیسی شہد ، تازہ لسی سے کشید شدہ تازہ مکھن، دیسی انڈے ، خستہ شاپک کے ساتھ خالص دیسی دودھ سے بنی ( ژاق) گاڑھی چائے سے تواضع کی گئی ۔ اس گاؤں کے بالکل بیچوں بیچ وہی ندی گزرتی ہے جس کے شانہ بہ شانہ چل کے پچھلی رات ہم کریم کے گھر پہنچے تھے ۔ یہ کوئی چھوٹا موٹا نالہ نہیں تھا بلکہ ایک ایسی ندی تھی جسے عبور کرنے کے لئے لوگ ایک دوسرے کو پکڑ پکڑ کے گزرتے اور عبور کرتے ۔ ہم نے بھی بڑی مشکل سے یہ ندی عبور کی بلکہ مجھے شمس الدین نے اپنی پیٹھ پر اُٹھا رکھا تھا ۔ اُس وقت اُس ندی کے اوپر کوئی پل نہیں تھا ۔ ہم نے جب لوگوں سے پوچھا تو انہوں نے بتا یا کہ یہاں ندی عبور کرنے کی یہی چلن ہے مرد، عورتیں ،بوڑھے اور جوان گرتے ہیں اٹھتے ہیں اور ندی عبور کرتے ہیں ۔ یہ جگہ گلیشر ( شایوز) سے اتنی قریب ہے کہ صبح کے وقت جب ہم اُس ندی سے گزر رہے تھے تو برف کے جمے ہوئے ٹکڑے ندی کی سطح سے کانج کے ٹکڑوں کی مانند دکھتے ہوے تیر تیر کر گزر رہے تھے ۔ اُن ٹکڑوں میں سے ایک ٹکڑا بیگ محمد نے اوپر اُٹھایا اور سب کو دکھا کے پھر ندی میں جھونک دیا ۔ہمیں ندی پار کرانے کے بعد ہمارا میزبان ، محترم کریم خان ہم سے رخصت ہو گئے ۔ ہم کریم خان کے گھر سے کوئی ۱۱ بجے صبح روانہ ہو گئے تھے۔ ہم خراماں خراماں چلتے رہے ۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ رات کہا ں گزارنی ہے کوئی چار یا پانچ گھنٹۃ چلنے کے بعد ہم نے اک پل عبور کیا اور ترست نامی ایک گاؤں پہنچ گئے ۔سامنے ٹیلے کے ساتھ ملحق ایک چھوٹامگر بہت ہی دلکش مکان تھا ۔ بیگ محمد بلا تامّل اندر گئے اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آکر ہمیں بلایا اور ہم سے آگے آگے دوبارہ گھر کے اندر ایسے داخل ہو گئے جیسے یہ اُس کے باپ کا گھر تھا ۔ ہم جب گھر کے اندر داخل ہوگئے تو گھر کے تمام افرد نے ہمارا کچھ اس گرم جوشی سے استقبال کیا کہ گویا ہم اُن کی صدیوں سے بچھڑی اولاد تھیں ۔ اب معلوم ہوا کہ بیگ محمد کا اُس پُھرتی سے گھر کے اندر داخل ہونا کوئی بے معنی اور بھونڈی بات نہیں تھی۔گھر کا سربراہ جس نے ہمیں اپنی اولاد سے بڑھ کر پیار دیا تھا اُس کا نام دوست خان تھا اور گاؤں میں اپنے مختصر نام ’’دوستی بابا‘‘ کے نام سے مشہور تھے ۔یہخاندان کسی زمانے میں چترال یارخون ( گازین) سے ہجرت کر کے نامعلوم وجوہات کی بنا پر یہاں آکر آباد ہوا تھا ۔ شروع میں یہ ایک گھرانہ تھا لیکن بعد میں یہ لوگ پھلتے اور پھولتے رہے اور جب ہم سن ۱۹۹۵ ء میں وہاں گئے تھے تو چترال سے ہجرت کرکے یہاں آباد ہونے والوں کے کئی گھرانے بنے تھے ۔دوست خان بابا اور اُس کا خاندان ہم سے مل کر انتا آسودہ ہوا تھا کہ ہمیں اپنے سر آنکھوں پر بٹھا کے بھی اُن کے دل کی بھڑاس نہیں نکلتی تھی پتہ نہیں ہماری صورتوں میں انہیں کون نظر آرہا تھ؟۔ ہم سے محبت اور مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ فوری طور پر ایک بکرا ہمارے لئے زبح کیا گیا ۔
دوست خان بابا نے گھر والوں کے لئے حکم صادر کیا کہ بکرے کو زبح کرتے ہی کلیجے ہلکی آنچ میں بھون کر مہمانوں کو پیش کئے جائیں ۔ انہوں نے وہ عزت دی کہ ہم مارے شرم کے پانی پانی ہورہے تھے ۔ دوست خان بابا رات گئے تک ہمارے ساتھ بیٹھے رہے اور چترال یارخون میں اپنے راشتہ دارں ، اُ ن کی محبت ، اپنے آبا و اجداد کی ہجرت اور اپنی زندگی کے بارے میں ہم سے اپنے خیالات بانٹتے رہے اور اُسی رات ہمیں تین مرتبہ کھانہ کھلایا گیا ۔رات گئے تھے سارے گھر والے ہمارے ساتھ بیٹھے اور ہم سے محو کلام ہوتے رہے اور ناشتے کی نشت بھی پورے خاندان پر مشتمل تھی۔ یہاں صبح کاناشتہ بالکل کریم خان کے گھر کے ناشتے کی طرح تھا البتہ ایک اضافی فرق یہ تھا کہ یہاں ہمیں بکرے کے گوشت کے خوشبودار روسٹ کے ساتھ یاسین کے خاص خوبانی بھی کھلائے گئے ۔ ۔ہم جب روانہ ہونے لگے تو دوست خان بابا اور اُس کے تمام گھر والے زارو قطار رونے لگے اور ہم بھی آب دیدہ ہوے بغیر نہ رہ سکے ۔ ہماری اُن لوگوں سے کوئی جان پہچان نہیں تھی بس یہ اُن لوگوں کی محبت تھی ۔ یہ کہانی صرف دوست خان بابا تک محدود نہیں بلکہ اس وادی میں رہنے والے تمام لوگوں کی یہی روایات ہیں ۔ہم جہاں جہاں بھی گئے ہمارے ساتھ خصوصی اخلاقی رویہ روا رکھا گیا ۔ ہم بہت جلد اس علاقے اور لوگوں سے مانوس ہو گئے ۔ ہم اتنے بے لگام ہو گئے کہ ہر گلی کوچہ ، ہر گھر اور ہرجگہ بے خطر کود جاتے تھے ۔(یاد رہے کہ ہم اپنے علاقے میں اتنے آزاد نہیں تھے) ایک جگہ جس کا نام ہون دور تھا ( بعد میں ہون دور لالک جان نشان حیدرکی شہادت کے بعد دنیا بھر میں مشہور ہوا) میں آغا خان سکول کی عمارت بن رہی تھی ہم اُس عمارت کے قریب گئے اور لوگوں سے علیک سلیک کے بعد ایک بھائی نے ہمیں چائے کی دعوت دی ۔ اُس کا نام یاد نہیں رہا البتہ اُس نے ہمیں بتایا تھا کہ وہ کسی سرکاری سکول میں ٹیچر تھا چونکہ ہم نے اپنا تعارف ٹیچر کی حیثیت سے کیا تھا اور ہمارا اور اُس بھائی کا ایک دوسرے کے ساتھ پیشہ وارانہ رشتہ استوار ہوا تھا ۔ اُن کے گھر میں ہماری خوب پزیرائی ہوئی ، دوپہر کے رنگ برنگے طعام میں وہ لذت تھی کہ ہم انُگلیاں بار بار چاٹتے رہے ۔ اِن بھائی صاحب کے تمام خاندان والوں نے ہمارے ساتھ مل بیٹھ کے کھانہ نوش کیا ۔ ہمارے ٹیچر دوست نے بہت منت سماجت کی کہ ہم اُن کے ہاں آج رات مہمان ٹھہریں لیکن ہمارے پاس وقت بہت کم تھا لہذا اُن تمام مہربانوں سے اجازت لیکر ہم نے یاسین کے دوسرے نامعلوم پڑاو کی جانب رخت سفر باندھا۔یہاں سے ہم نے دوبارہ ایک اور پل عبور کیا اور یاسین برکولتی سے ہوتے ہوئے طاؤس کی طرف نکلے طاؤس یاسین کا ایک چھوٹا مگر بے حد جازب نظر گاؤں ہے ۔ ہمیں معلوم نہیں تھا کہ ہم طاؤس میں کس کے ہاں رات گزاریں گے ۔ ہم برکولتی اور طاؤس کو ملانے والے پل کے قریب پہنچ کر تصویر کشی کر رہے تھے کہ ایک نوجواں نے سلام کیا اور ہم سے تعارف کے بعد ہمیں اپنے گھر پر دعوت دی اُس کا نام شبیر شاہ تھا اُس وقت وہ جماعت دہم کا طالب علم تھا ۔ اُن صاحب کا والد محترم خلیفہ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ جب ہم شبیر شاہ کے گھر پہنچ گئے تو خوب آو بھگت ہوئی ۔ شام کو لذیز دیسی مرغی اور صاف و شفاف اور ہرے سلاد سے ہماری خاطر مدارت کی گئی اور رات کو خوب نیند آئی ۔ صبح ہم یہاں سے روانہ ہوئے ۔ ہمارا خیال تھا کہ بجیوٹ جاکے استاد حاجت قبول سے اُس کے فن کے بارے میں گفتگو کریں گے ( بُجیوٹ مشہورِ زمانہ سرنئے نواز حاجت قبول کا جنم بھومی ہے یہ وہ استاد ہے جو کہ موسیقی میں چوئینج چترال کے مشہور سُر نئے نواز استاد عاقد خان درس موسیقی میں ہم جماعت و ہم مشرب رہا ہے ۔ عاقد خان نے سُرنئے کا درس بجیوٹ سے لیا تھا ۔ ا س گاؤ ں کی دوسری خوبی یہ ہے کہ یہ زمیں ذر خیز ہونے کے ساتھ ساتھ مردم خیز بھی ہے یہاں کے لوگ ذہنی طور پر بہت ہی تیز ہوتے ہیں گلگت کے تمام اچھے سکولوں میں بجیوٹ سے تعلق رکھنے ولاے بچے قابل ترین بچوں میں سر فہرست ہیں ) ہم جیسے ہی بجیوٹ کے قریب پہنچے تو پیچھے سے اے کے آر ایس پی کی ایک گاڑی آگئی اور بیگ محمد کے ہاتھ کے اشارے سے گاٖڑی رک گئی ، ہم سوار ہو گئے اور ادھا گھنٹے بعد ہم اے کے آر ایس پی آفس گوپس پہنچ گئے تھے۔
اگلے دن شندور میں شندور پولو ٹورنامنٹ کا اختتام ہونے والا تھا اور ہم کوشش کر رہے تھے کہ ہم یہ کھیل دیکھ سکیں لیکن ابھی تک وقت پر شندور پہنچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی تھی ۔ گوپس میں میرے مراسم وزیر اکبر کے ساتھ تھے لہذا میں نے اُن سے رابطہ کیا اور وزیر اکبر صاحب پیپلز پارٹی کے سرگرم رکن تھے اور بھٹو صاحب کے قریبی دوستوں میں سے ایک تھے ۔ ہم جب اُس کے دولت کدے میں گئے تو انہوں نے کہا کہ وہ ابھی شندور جانے ولاہے اگر ہم چاہیں تو وہ ہمیں اپنے ساتھ لے جا سکتا ہے ۔ یہ ایسی بات تھی جیسے اندھے کو آنکھ کی پیش کش ہوئی ہو۔ ہم نے خوب جی بھر کے کھانہ کھایا اور وزیر اکبر صاحب کی بڑی اور آرام دہ گاڑی میں سوار ہوتے ہی نیند کی پُر سکون آغوش میں چلے گئے اگلے لمحے ہم شندور میں تھے اور صبح کے سات بج رہے تھے ۔اور شندور جنالی کے اُس پار حمید خان استاد سُر نئے کی روح پرور لے میں غلوارکے روایتی ساز سے پورے شندورکی فضأ کے کانوں میں رس کھول رہا تھا ۔