کالمز

عبد الحمید کی بے مثال ایمانداری

زندگی کی انگنت مصروفیات کے باعث کافی عرصہ گوشہ نشینی اختیار کرنے پر یار دوستوں اور قارئین کی جانب سے بارہا اصرار ہوا کہ وہ میراکالم پڑھنے کے منتظرہیں۔ مجھے خود بھی یہ شدت سے احساس تھا کہ اس بار تو کالم لکھنے میں خاصی دیر کردی ‘لیکن کیا کیا جائے آج کے اس دور میں انسان کو سب سے پہلی فکر تین وقت کی روٹی کی ہوتی ہے اس کے بعد سماجی خدمت کا سوچ بیدار ہوجاتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ موسم سرما میں مسائل اس قدر طول پکڑتے ہیں کہ انسان کہیں کا نہیں رہ جاتا۔موسمی اعتبار سے سردیوں کے تقاضے اپنی جگہ مگر معاشرتی مسائل کا انبار دیکھ کر دنیا سے ہی دل اٹھ جاتا ہے۔صبح کسی اچھی خبرکی امید میں اخبارات کا پلندہ اٹھاکر دیکھا جائے تو نت نئے مسائل برننگ ایشوز بن کر سامنے آجاتے ہیں۔ پانی وبجلی کا بحران،مواصلاتی نظام کی ابترصورتحال،گندگی کے ڈھیر،کچرہ منڈی،چوری چکاری،لڑائی جھگڑے،قتل وغارت،فراڈ،دھوکہ دہی ،افراتفری،ہڑتال اوراحتجاج کی خبریں اب تو کافی پرانی ہوگئیں کیونکہ اب تو گلگت بلتستان میںآئے روز اس طرح کے واقعات جنم لیتے ہیں۔ اوپر سے بے آئین سرزمین کے باسیوں پرمختلف اقسام کے ٹیکسز کا نفاز اور چائینہ پاکستان اکنامک کوریڈور(سی پیک) منصوبے کے ثمرات سے محروم رکھنے کی نت نئی سازشوں نے دھرتی کے باسیوں کی زندگیاں اجیرن کردی ہیں۔

ایسے ماحول میں آبائی گاؤں کے ایک نوجوان کی ایمانداری کے حوالے سے ایک خبرکو قومی وعلاقائی میڈیا کی زینت بنتے دیکھ کر دل کو قدرے سکون نصیب ہوا کہ چلوجی اس معاشرے میں ایسے نیک افراد بھی جیا کرتے ہیں۔ اس نوجوان کی ایمانداری کی داستان کچھ یوں بیان کی گئی تھی کہ گزشتہ دنوں یاسین کے گاؤں اوملست سے تعلق رکھنے والا عبدالحمیدنامی نوجوان گلگت جوٹیال میں واقع نورکالونی میں اپنی رہائشگاہ سے صبح محنت مزدوری کی غرض سے گھر سے نکلا تو تھوڑے ہی فاصلے پر سڑک پر انہیں ایک لاوارث بیگ ملا‘جسے جب اس نے کھولا تو بیگ نوٹوں سے بھراہوا تھا‘جوکہ مجموعی طورپر دس لاکھ کی رقم موجودبتائی جاتی ہے۔ نوجوان نے بیگ کا اصل مالک تلاش کرنے کے لئے اپنے دوست احباب کو اگاہ کیا‘جس پر پتہ چلا کہ بیگ ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کارپوریشن(نیٹکو) کے ایک کیشر کا ہے جواس نے دفتر سے واپسی پر راستے میں گمادیاتھا۔ مکمل شناخت بتانے پر نوجوان گاؤں کے عمائدین کے ہمراہ بیگ اصل مالک کے حوالے کرنے جب نیٹکو کے دفتر گیا تو مالک کے پاس خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی‘ مگر افسو س کہ نیٹکو کے جنرل منیجر کو دیانتداری اور ایمانداری کی مثال قائم کرنے والے اس نوجوان سے ملنے کی توفیق نہ ہوئی اور انہوں نے صاف انکارکردیا کہ ان کے پاس نوجوان اور علاقے کے عمائدین سے ملنے کی فرصت نہیں۔

پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اسی کے چند روز بعدہی ایف آئی اور نیب نے نیٹکو میں مبینہ مالی بے ضابطگیوں کے الزام میں اسی ایم ڈی کا گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا۔کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ ایم ڈی نیٹکو کو اس ایماندارنوجوان سے ملاقات کرکے اس سے متاثر ہوکر اپنے ماتحت ادارے میں کوئی ملازمت دینی چاہیے تھا بلکہ انہیں کم ازکم معاشرتی حالات کے تناظر میں اس قسم کا انوکھا کارنامہ سرانجام دینے والے نوجوان سے ملاقات کرکے ان کی ایمانداری کو دادتو دینی چاہیے تھی تاکہ اس سے دوسرے لوگوں کو ایک اچھا تاثر جاسکے کہ معاشرے میں اچھا اور نیکی کا کام کرنے والوں کی مذید عزت افزائی کی جاتی ہے۔ عبدالحمید کی ایمانداری کی یہ خبر میڈیا کی زینت بھی اسی لئے ہی بنی کہ اس ملک میں بغیر محنت مزدوری کے جائز ناجائز طریقے سے مال بنانے والے زیادہ اور محنت ومزدوری کے زریعے حلال کی روزی کمانے والے بہت کم جبکہ اس طرح نوٹوں سے بھرے ملنے والے بیگ اس کے اصل مالک تک پہنچانے والے تو شازونادر ہی ملتے ہیں۔

میڈیا والے یہ بھی جانتے ہونگے کہ یہ ملک نوٹوں سے بھرے بیگ کے متلاشوں،جیب کتروں،چوروں،رشوت خوروں،بدعنوانیوں ،اغواکاروں اور فراڈیوں سے بھراپڑا ہے‘ جہاں پر کسی کی کھوئی ہوئی رقم کو لٹانے والے تو کروڑوں میں ایک ہے۔تب ہی تو یہ قومی میڈیا کے لئے ایک اہم خبربن گئی ورنہ ان کے لئے اخبارات کے صفحے بھرنے کے لئے خبروں کی کونسی کمی تھی۔ ہاں گلگت بلتستان والوں کے لئے شائد یہ خبر اس قدراہمیت کی حامل نہ ہو۔ وہ اس لئے کہ یہ دھرتی اس طرح کے بہادر،شجاعت منداورایماندار افراد سے بھری پڑی ہوئی ہے‘ جن کی ایک مثال اسی نوجوان عبدالحمید کے گاؤں سے تعلق رکھنے والے قوم کے بہادر سپوت حوالدار لالک جان شہیدکی ہے جنہوں نے کارگل کے محازپر ملک وملت کی دفاع کی خاطر اپنی جان کانذرانہ دیکر نشان حیدرکا اعزاز حاصل کیا۔اسی طرح قوم کے ہیروز اشرف امان،نذیرصابر،حسن سدپارہ،ثمینہ بیگ،مرزہ علی،نسرین ناصر اور دیگر ان افراد کی مثالیں بھی ہمارے سامنے موجود ہیں جنہوں نے زندگی کے مختلف شعبوں میں کارہائے نمایاں سرانجام دیکر علاقے اورقوم کا نام فخر سے بلند کردیا۔مجھے یاد پڑھتا ہے کہ چندبرس قبل ہنزہ سے تعلق رکھنے والے گلگت سرینہ ہوٹل کے ایک ملازم عیسیٰ خان نے بھی ایک غیرملکی سیاح کی کھوئی ہوئی رقم واپس لٹا کربالکل عبدالحمید جیسا ہی کارنامہ سرانجام دیا تھا جس پر بعدازاں انہیں حکومت پاکستان کی جانب سے صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔

بات پھروہی کہ اس فانی جہاں میں یہ ایوارڈواسناد اور انعامات محض نمایاں کام سرانجام دینے والے ان افراد کی حوصلہ افزائی اور معاشرتی اقدار کی پاسداری کے لئے ہی دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح کی نیکیوں کا اصل صلہ تو آخرت میں اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے‘ جس کا اس نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ہم اپنی ابدی زندگی میں جوبھی کام سرانجام دیتے ہیں اس کا حساب ہم نے روزمحشر میں اپنے رب کے سامنے میں دینا ہے۔ قرآن پاک اور احادث نبوی ﷺ میں یہ واضح ہے کہ قیامت کے روزاللہ تعالیٰ کے سامنے سب انسانوں کے اعمال کا حساب کھولا جائیگا۔اس روز جس کی نیکیاں زیادہ ہونگیں اس کے لئے جنت کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور جس کی بدیاں زیادہ ہونگیں وہ جہنم میں جائیگا۔ اب یہ ہم ہی پر منحصر ہے کہ ہم اپنے لئے کونسے راستے کا تعین کرے اور وہ بھی پیسوں،سفارش،رشوت،چوری،قتل وغارت یا بدمعاشی کے بل بوتے پر نہیں بلکہ اپنے اعمال کے زریعے جو ہماری دنیاوی زندگی کے دوران لمحہ بہ لمحہ نوٹ ہوتے جارہے ہیں۔ بات کہاں سے شروع ہوئی تھی اور کہاں نکل گئی‘چلو گلگت بلتستان کے عوام پر غیرقانونی ٹیکسز کا نفاز،سی پیک میں حصہ داری ،آئینی حقوق کا معاملہ اور گلگت اور بلتستان کو تقسیم کرنے کی گھناونی سازش کے حوالے سے اگلے کالموں میں خامہ فرسائی ہوگی۔

فی الوقت گورنرگلگت بلتستان میر غضنفرعلی خان ،وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن ودیگر حکام کے خدمت میں بس اتنی گزارش کہ وہ اس ایماندار نوجوان عبدالحمید کی اس قدرایمانداری کا اعتراف کرتے ہوئے حکومتی سطح پران کی حوصلہ افزائی فرمائیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button