کالمز

خواتین کے حقوق ۔۔۔خواتین اراکین اسمبلی کا کردار

تحریر ۔ شمس الر حمن شمس

گلگت بلتستان میں 53فیصد آبادی خواتین پرمشتمل ہے ۔ کسی بھی معاشرئے میں جہاں مرد حضرات تعمیر و ترقی کے حوالے سے اقدامات اٹھاتے ہیں وہاں خواتین کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔۔۔۔ مگر بد قسمتی سے گلگت بلتستان اس چھوٹے سے خطے میں خواتین کے حقوق کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جا رہا ہے ۔۔۔۔اگرچہ گزشتہ دنوں وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ گلگت بلتستان میں خواتین کے حقوق کی بحالی کے لئے جلد قانون سازی کی جائے گی ۔۔۔۔یاد رہے قانون ساز اسمبلی گلگت بلتستان میں 6اراکین اسمبلی خواتین ہیں مگر بدقسمتی سے مسلم لیگ (ن) کے 2سالہ دور حکومت میں جتنی بھی اسمبلی اجلاس ہوئی ہیں جہاں کبھی کسی خاتون رکن اسمبلی نے کوئی ایسی قرارداد یا بل پیش نہیں کی جسے خواتین کی ترقی کی راہیں کھل سکیں ۔۔۔۔۔میرا ذاتی تجربے کے مطابق موجودہ خواتین اراکین اسمبلی کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے دور تک بھی علم نہیں ہے آیاکہ ایک معاشرئے میں خواتین کے حقوق ہوتے ہیں یا نہیں۔۔۔۔۔؟اگرچہ ہمارئے نبی حضرت محمد ﷺ نے قرآن پاک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے واضح فرما یا ہے کہ جس طرح سے اسلام میں مردوں کے حقوق ہیں اس سے ذیادہ خواتین کے بھی حقوق ہیں ۔۔۔۔چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین و قانون کے مطابق گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی میں اراکین اسمبلی میں خواتین کو نمایندگی اس لئے دیں دی گئی کہ خواتین اسمبلی میں آہ کر ہمارئے حقوق کی جھنگ خود لڑئے مگر بد قسمتی ایسے خواتین کا انتخاب کر کے اسمبلی میں لایا جاتا ہے جن کو اپنے حقوق کے بارے میں شدْبدْ کا بھی معلوم نہ ہو ۔۔۔۔۔اگرچہ تھوڑا سا کریڈیٹ اس حوالے سے سابق حکومت کو جاتا ہے انہوں نے چند سیاسی و سماجی خواتین کو اسمبلی میں لایا جنہوں نے اسمبلی اجلاس میں کسی حد تک خواتین کے حقوق اور مسائل کے حوالے سے آواز اٹھاہیں ۔۔۔۔۔اب بھی خواتین اراکین اسمبلی کو چاہیے کہ وہ اپنے حقوق کی طرف ایک نظر مار کر دیکھے ا و رشاید معلوم ہوگا کہ خواتین کے ساتھ ہمارئے اس معاشرئے میں کتنی ظلم اور بر بریت ہے ۔۔۔۔گلگت بلتستان کے دور دراز بالائی علاقوں میں چھوٹی عمر کی لڑکی کا رشتہ 50سال کے مردوں سے والدین کسی بھی لالچ میں آہ کر کرتے ہیں مگر وہ لڑکی اپنی آواز کو آگے پہنچانے سے قاصر ہے اسی طرح لڑکیوں کو اردو تعلیم حاصل کرنا نہیں دیتے ہیں اور کسی بھی لڑکی کو سکول میں داخل کرنا بے غیرتی سمجھتے ہیں اور مختلف وجوہات کی بنا پر والدین گھر سے اپنے لڑکیوں کو بے دخل کر دیتے ہیں اور وہ مجبورٌ خود کشی کر لیتی ہیں۔۔۔۔۔ اسی طرح آئے روز گلگت بلتستان کے دو دراز علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل کئے جاتے ہیں اورہمارئے اس خطے میں غیرت کے نام پر قتل عام سی بات ہے اگرچہ بحثیت مسلمان تو اسلام میں خواتین کے لئے مکمل طور پر آزادی ہے مگر ہمارئے اس معاشرے میں خواتین کے لئے غلامی کیوں۔۔۔۔؟اسی طرح گزشتہ روز گلگت بلتستان کے کسی دور دراز علاقے میں پسند کی شادی کرنے پر ان کے والدین نے اس لڑکی کو کلہاڑی سے ما ر کر ٹکڑئے ٹکڑئے کر دیا ۔۔۔۔یہ تو اسلامی معاشرہ نہیں ہے یہ معاشرہ تو ذ مانہ جاہلیت کا دور واپس آیا ہے جہاں خواتین کو ذندہ درگور کیا جاتا تھا ۔۔۔۔صرف یہ ایک کیس نہیں بلکہ اس طرح کے ہزاروں کیسز خواتین کے ساتھ کیا جاتا ہے مگر خواتین کی آواز کو اٹھانے کے لئے کو ئی سنجیدہ اقدامات نہیں ہیں ۔۔۔۔۔ دین اسلام کے مطابق کسی بھی گھر میں خواتین اپنے شرعی فیصلے اپنی مرضی سے کرنے چاہیے۔۔۔۔مگرآج مرد حضرات ذبرستی سے اپنے فیصلے مصلت کرتے ہیں اور وہ خواتین مجبورٌ مرد کے فیصلے پر ہاں سے ہاں ملاتی ہے خواتین اگر یہ فیصلہ نہیں مانتی ہے اور انکار کرتی ہے تو مرد حضرات بے دردی سے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور مجبورٌ ان خواتین کو مرد حضرات کی اس فیصلے پر عمل کرنا پڑتا ہے ۔۔۔۔۔۔ مگر آخر ہمارئے پیارئے نبی نے توخواتین کے حقوق کے حوالے سے ایک اچھا پیغام دیکر دنیا سے رہلت فرما گئے تھے اور آج اس پیغام کو سمجھنے کے لئے ہم نہیں بلکہ کوئی اور ہیں جو نہ مانتے ہوئے بھی مانتے ہیں ۔۔۔۔۔خواتین کے ان حقوق کی بحالی کے لئے صوبائی حکومت کو ان اہم مسائل کو مند نظر رکھتے ہوئے اسمبلی سے قرارداد منظور کروائے اور گلگت بلتستان عدلیہ میں بھی خواتین ججوں کا مخصوص کو ٹہ سپریم اپیلٹ کورٹ اور چیف کورٹ سمیت دیگر چھوٹی عدالتوں میں رکھا جائے تاکہ خواتین کے لئے انصاف کی فراہمی آسانی سے ہو سکے ۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button