کالمز

عالمگیر ڈھکن والا

دنیا بھر میں لوگ اپنے حقوق کے حصول کے لئے احتجاج کے مختلف طریقے اپناتے ہیں ۔بعض طریقے پر تشدد ہوتے ہیں اور بعض پر امن مگر پر اثر ہوتے ہیں۔ پچھلی دفعہ بھارت میں انا ہزارے نامی شخص نے کرپشن کے خلاف طویل بھوک ہڑتال کر کے عالمی شہرت حاصل کر لی تھی۔ اسی طرح دنیا میں کئی اور ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے احتجاج کے انوکھے اور پر اثر طریقے متعارف کرادئیے ہیں ۔

عالمگیر ڈھکن والا آج کل کراچی کی سڑکوں پر تصویریں بنانے میں مصروف ہیں۔ ان کی شہرت میں آئے روز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ وہ صرف ایک ہی خیال پہ کام کر رہے ہیں ۔ وہ خیال یہ ہے کہ شہر میں جتنے کھلے مین ہول (گٹرلائین کے سوراخ )ہیں ان کے اوپر صوبہ سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ کی تصویر یں بنائی جائیں تاکہ اس بات کاسب کو ادارک ہو کہ ان کھلے مین ہولوں کے ڈھکن لگانے کی زمدار سندھ کی صوبائی حکومت ہے۔اس تحریک کا بنیادی مقصد حکومت کو جھنجوڈنا اور عوام کو شعور دینا ہے۔ کھلے مین ہولوں کے ڈھکنوں کی تحر یک چلانے والے نوجوان کا اصل نام عالمگیر ہے مگر ہم اپنی سہولت کے لئے ان کو عالمگیر ڈھکن والا کہہ سکتے ہیں۔

کراچی کی آبادی دو کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے اور کراچی نہ صرف پا کستان کا سب سے بڑا شہر ہے بلکہ دنیا کے بڑے شہروں میں بھی اس کا شمار ہوتا ہے۔ یہاں کے مسائل کی فہرست بہت لمبی ہے ۔ ان میں سے ایک مسلہ جگہ جگہ موجود کھلے مین ہول ہیں۔ یہ اس لئے بڑا مسلہ ہے کیونکہ سالانہ درجنوں پیدل چلنے والے انسان ان میں گر جاتے ہیں ان میں سے کئی جان بحق ہوجاتے ہیں اور بعض نہایت ہی مشکل سے جانبر ہوتے ہیں۔ اکثر مال مویشی بھی ان کی نذر ہوجاتے ہیں۔نہ صرف یہ بلکہ محلوں کے اندر بنے ہوئے ان کھلے مین ہولوں سے اٹھنے والی تعفن اور بد بو کے باعث کئی بیماریاں پھیل جاتی ہیں اور بعض دفعہ پورا محلہ بو کی وجہ سے ذہنی اذیت کا شکار ہو جاتا ہے۔

ایسے میں کراچی کے ایک عالمگیر نامی نوجوان نے اس مسلے کی طرف حکام اور عوام کی توجہ مبذول کرانے کا انوکھا طریقہ اپنایا ہے ۔ جس کی وجہ سے ان کی یہ تحریک بہت مختصر وقت میں شہرت کی بلندیوں کو چھو رہی ہے۔ شہر یوں کی بڑی تعداد ان کے اس کام پر واہ واہ کر رہی ہے اور دوسری طرف حکام ان کے اس فعل کو اپنے لئے بے عزتی قرار دے رہے ہیں ۔یعنی انسانی جان چلی جائے تو مسلہ نہیں ہے پر حکام کی بے عزتی نہیں ہونی چائیے ۔قائم علی شاہ صاحب پرانے طرز کے حکمران ہیں اس لئے ان کو اندازہ نہیں ہے کہ جدید دور میں حکمرانوں کو بے عزتی سے بچنے کے لئے کیا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی حکمرانوں کی عزت اور بے عزتی ان کی پر فارمننس سے جڑی ہوئی چیز ہے۔ آپ حکمران ہوتے ہوئے بغیر کار کر دگی کے عزت کا تقاضا نہیں کر سکتے کیونکہ آپ عوام کے ضمیر کی آواز یعنی ووٹ کے امین ہیں ۔ جس کے تحت آپ عوام کے حقوق کے ضامن ہیں۔

ریاست دراصل عوام کی وہ نمائندہ تنظیم ہے جس کا کام عوام سے پیسے جمع کر کے ان کے اجتماعی مسائل کے حل اور فلاح و بہبود پر خرچ کر نا ہے۔ عوام ریاست کو چلانے کے لئے اپنی کمائی میں سے ٹیکس دیتے ہیں جس کے بدلے میں عوام کو ریاست ایک معاہدہ کے تحت حقوق دیتی ہے ۔ ان حقوق کا اندراج ریاست کا نظم نسق چلانے کے لئے بنائی گئی دستاویز یعنی آئین میں ہوتا ہے۔ آئین دراصل ریاست اور عوام کے درمیان ایک معاہدہ کا نام ہے جس میں حقوق و فرائض کا ذکر ہوتا ہے۔ اسی معاہدہ کے تحت حکومت کا فرض ہے کہ وہ عوام کے اجتماعی مسائل حل کرے گی اور ان کو حقوق فراہم کرے گی۔ اس معاہدہ کے تحت یہ بھی طے ہے کہ عوام کو حقوق نہ ملنے کی صورت میں وہ قانون کا دروازہ کٹکھٹائیں گے یا پر امن احتجاج کر یں گے۔

پر امن احتجاج عوام کا جمہوری حق ہے جس کی اجازت آئین ، قانون اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی اصولوں میں دی گئی ہے۔ اسی لئے دنیا بھر میں عوامی حقوق کے محافظین پر امن طور پر احتجاج ریکارڈ کراتے ہیں اور حکمرانوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ عوام کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دیں۔ کراچی کے عالمگیر نے بھی یہی راستہ اپنایا ہے۔ وہ ایک طرف حکمرانوں کو ان کے فرائض منصبی یاد دلا رہے ہیں تو دوسری طرف عوام کو بھی یہ شعور دے رہے ہیں کہ وہ پر امن طریقے سے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھا سکتے ہیں اور اپنا احتجاج ریکارڈ کراسکتے ہیں۔

جن معاشروں میں عوام کے اندر اپنے حقوق کا شعور نہ ہو وہاں حکمران کاہل اور بد مست ہو جاتے ہیں ۔ صرف ووٹ دینے سے عوام کے مسائل حل نہیں ہوتے ہیں بلکہ ووٹ دینے سے پہلے ان کو چاہیے کہ وہ اپنے نمائندوں سے وعدہ لے لیں کہ وہ ان کے فلاں فلاں مسلے حل کر یں گے۔ ان مسائل کے حل نہ ہونے کی صورت میں ان کو پر امن احتجاج کے زریعے بارہا ان کے فرائض یاد دلائے جائیں تاکہ وہ غافل نہ رہیں۔ احتجاج کے پر امن اور موثر طر یقے ا پنا کر ان کو مجبور کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنا وقت اپنے ذاتی مفادات کے لئے وقف نہ کر یں بلکہ عوام کے بنیادی مسائل پر توجہ مر کوز کریں۔

قائم علی شاہ سمت تمام حکمران عوام کے خادم ہیں اور اس عہد کے ساتھ انہوں نے عوام سے ووٹ لیا ہے کہ وہ عوام کی خدمت کریں گے۔ وہ اگر عوام کے مسائل کی طرف توجہ دیں گے تو عوام کے دلوں میں ان کی اچھی تصویر بنے گی اگر وہ مسائل حل نہیں کر یں گے تو عوام کے دلوں میں ان کی بری تصویر ہو گی۔ گٹروں کے اوپر بننے والی تصویریں مٹائی جاسکتی ہیں مگر دلوں میں بننے والی تصویر کون مٹا سکتا ہے؟ دنیا بہت تبدیل ہو چکی ہے اور حکمرانی کے طریقے بھی بدل گئے ہیں ۔ لوگوں میں اتنا شعور آیا ہے کہ وہ حکمرانوں کی کار کر دگی کو پر کھ سکتے ہیں اور اس پر تنقید کر سکتے ہیں۔ عالمگیر ڈھکن والا کے احتجاج سے قائم علی شاہ سمت تما م صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور وزیر اعظم کو سبق سیکھنا چائیے کیوں کہ کل کوان کی تصویریں بھی سڑکوں پر بنا ئی جا سکتی ہیں ۔ لہذا وہ عوام کے مسائل کے حل میں دن رات ایک کر دیں۔ اس سے پہلے کہ جگہ جگہ عالمگیر ڈھکن والا جیسے لوگ پیدا ہو جائیں اور وہ عوامی شعور کی مدد سے کہیں حکمرانوں کی لوٹ کھسوٹ والی سیاست کا ڈھکن ہمیشہ کے لئے ہی بند نہ کر دیں۔#

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button