کالمز

اکیسویں صدی میں بھی گلگت بلتستان کے شہری آیئنی حقوق سے محروم ۔۔۔۔

تحریر: قاسم شاہ

گلگت بلتستان کے آئینی حقوق اور ٹیکسز کے حوالے سے صوبائی حکومت کی جانب سے واضح پالسی کا علان نہیں ہو نے کی وجہ سے عوام میں بے چینی کی صورتحال پیدا ہورہی ہے۔ جبکہ وزیر اعلی ،سپیکر ،سینیئروزیر سمیت دیگر گلگت بلتستان کابینہ اور اسمبلی کے اکثر اراکین اس وقت سردی سے بچنے اور ان سنگین مسائل سے انکھیں چرانے کیلئے مختلف بہانے بناکر اسلام اباد میں خواب خرگوش کے نیند سو رہے ہیں، یا ٹی وی پر بیٹھ کر وفاق کی ہاں میں ہاں ملانے کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ ان ممبران کو عوام نے ووٹ اس لئے دیاتھا کہ وہ جی بی میں بیٹھ کرعوام کے دکھ درد میں شریک ہونگے اور ان کے مسائل حل کرینگے۔

حالیہ دنو ں میں کنٹریکٹرز ایسوسی ایشن اور دیگر سیاسی اور سماجی تنظیموں نے مجبورا حکومت کے اس رویے کے خلاف عوام کو ٹرانسپورٹر اور تاجروں کے تعاون سے شٹر ڈون اور پیہ جام ہٹرتال کی کال دی جس کوگلگت بلتستان کے عوام نے نہ صرف کامیاب بنایابلکہ تمام اضلاع میں احتجاجی مظاہرے کر کے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور حکومتی بے حسی کا رونا رویا اور غیر سنجیدگی پر برہمی کا اظہار کیااور ہٹرتال کو سو فیصد کا میاب بناکر حکمران جماعت کو اپنے پالیسی اور رویے پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر دیا۔

گلگت بلتستان کے شہریوں کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے خصوصی حیثیت کی وجہ سے تما م تر ٹیکسز سے مستسناقرار دیاہوا ہے اس کے باوجود بھی گلگت بلتستان کے شہری تمام تر اشیاء خوردنوش اور تعمیراتی اشیاء ،موبائل کارڈ،اسٹشنری،کمپیوٹرز،اور ماچس کی ڈبی تک وفاق کو ٹیکس ادا کرکے استعمال کرتے ہیں گلگت بلتستان کے کاروباریوں اور ٹھیکداروں کا کہنا ہے وہ روزمرہ کے استعمال کے تمام چیزوں کو پہلے ہی ٹیکس دے کر لا رہے ہیں اور استعمال کرتے ہیں اس کے باوجود ٹیکس کا نفاذسمجھ سے بالاتر ہے۔

وفاق کو پہلے سے دئیے جانے والے ٹیکس کا بھی گلگت بلتستان کے شہریوں کو کچھ بھی نہیں ملتا ہے جو کہ سالانہ اربوں کے حساب سے اد ا کیا جاتا ہے جبکہ دیگر صوبے این ایف سی ایواڈ کے زریعے اپنے ٹیکس کی رقم واپس لیتے ہیں۔ گلگت بلتستان کی حکو مت کو ابھی تک وفاق ایک کمپنی ،این جی اویا لوکل گورنمنٹ کی طرح سالانہ گرانٹ دے کر چلاتی ہے جبکہ وزیر اعلی گلگت بلتستان سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے پہلے ہی جی بی کو وفاق سے قومی دھارے میں شامل کرنے اور ائینی مسائل حل کرنے کا مطالبہ کیا مگر وفاق ابھی تک سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کر رہا ہے جس کی وجہ سے 68سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام بغیر آئینی اور بنیادی حقوق کے زندگی گزارنے پر مجبورہیں، لیکن پھر بھی گلگت بلتستان کے شہری وفاق کی جانب سے اتنے ظلم کے باوجود حب الوطنی کا مظاہر کر رہے ہیں اور پاک آرمی میں بھی گلگت بلتستان کے نوجوانوں نے لالک جان شہید کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ہر محاز پر بہادری کے جھنڈے گاڈ دیئے ہیں۔

gbla pic 3

اس وقت پاک چین اکنامک کویڈورہو یا دیگر وفاقی بٹرے منصوبے، گلگت بلتستان کو مکمل نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ حالیہ دنوں وزیر اعظم پاکستان کی قیادت میں پاک چین منصوبے کے حوالے سے بلائی جانے والی کسی بھی میٹنگ میں آج تک گلگت بلتستان کے کسی بھی نمایئندے کو نہیں بلایا گیا ہے، اور نہ ہی گلگت بلتستان کے حوالےسے کسی منصوبے کا ذکر لایاجاتا ہے۔ حالانکہ  کوریڈور منصوبے کا آغاز ہی جی بی کے حدود سے ہو رہا ہے۔

جبکہ دیگر صوبوں نے اکنامک زون اور روٹ کے حوالے سے اپنا احتجاج ریکارڈکرایا اور وفاقی حکومت اور وزیر اعظم پاکستان کو از خود اجلاس بلا کر تحفظات دور کرنا پٹراجب کہ گلگت بلتستان کو اسی موا قعے کو ضائع کیے بغیر اپنی حصہ داری کابھی مطالبہ کرنا چاہیے تھا۔ ایک مثال مشہور ہے کہ جب تک بچہ روتانہیں ہے ماں اُسے دودھ نہیں پلاتی ہے۔ گلگت بلتستان کے ساتھ بھی وفاق اب تک وہی سلوک کر تے ہوئے بچوں کی طرح کوئی کھلونا دے کر خوش کرنے کی کو شش کر رہا ہے۔ مگر اب21ویں صدی ہے کھلو نے دے کر بہلانے کا دور نہیں ہے اب گلگت بلتستان کے بہادر عوام کو مکمل حق حکمرانی اور ائینی بنیادی ،سیاسی حقوق دیے بغیر رکھناعالمی جرم بن جائیگا اوروفاق کو چاہیے کہ وقت ضائع کئے بغیر اس مسلے کو حل کرے۔

میں یہاں کشمیری قیاد ت کا بھی ذکر کرنا ضروری سمجھتاہوں۔ جب بھی گلگت بلتستان کے شہریوں کو حقوق ملنے کی بات چیت شروع ہوجاتی ہے تو یہ مختلف ایشوز کھٹراکر کے مخالفت کرتے ہیں اور اپنا حصہ قرار دینے کی کوشش کرتے ہیں کشمیری بھائیوں سے معذرت کے ساتھ جب آازاد کشمیر کو وزیر اعظم ،صدر ،اسمبلی، کونسل ،عبوری ائین ،سپریم کورٹ دیا گیا تو گلگت بلتسان کے شہری ان کو کیو ں نظر نہی ٓآئے؟ جب انڈیا نے مقبوضہ کشمیر کو اپنا صوبہ بنایا توکشمیری قیادت کو گلگت بلتستان نظر نہیں آیا؟

اب جب 67 سالوں بعدگلگت بلتستان کے شہریوں کو حق حکمرانی دینے کی بات ہوتی ہے تو کشمیری بھائیوں کو ساتھ دینے کی بجائے مخا لفت کرنا سمجھ سے بلاتر ہے۔ واضح رہے کہ گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کا حصہ ضرور ہے مگر کشمیر کا نہیں، لہذا کشمیری قیادت سے گزارش ہے کہ وہ مخالفت کی بجائے گلگت بلتستان کے شہریوں کو بھی حقوق دلانے میں کردار اداکرے۔ تاکہ گلگت بلتستان کے شہری بھی قومی دھارے میں شامل ہو کر آئینی شہری بن سکے ۔

اس وقت گلگت بلتستان کے مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلے کرنے کا دور شروع ہوا ہے جس کی وجہ سے مختلف قوتوں نے اپنے ایجنڈوں پر کام شروع کیا ہے۔ ایسے میں گلگت بلتستان کی قیادت کو متحد ہو کر اپنے حقوق حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور سپیکر ،وزرا،اور اراکین اسمبلی کو اسلام آباد کی بجائے گلگت بلتستان جا کر اسمبلی اجلاس بلاکران سنگین مسائل کا حل نکالنے کے لئے وفاق پر دباو ڈالنے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے حکو مت کو اپنا موقف وزیرا علی کے ذریعے واضح کرنی چاہیے کہ گلگت بلتستان کو کس طرح کا سیٹ اپ دیا جا رہا ہے اور سی پیک (اقتصادی راہداری منصوبے) میں کیا حصہ داری مل رہی ہے؟ صرف وزرا صاحبان کے تکے پر دئے جانے والے بیانات سے عوام کو مزید پریشان نہ کیا جا ئے۔

اس سلسلے میں پی پی پی گلگت بلتستان نے اہم موقعے پر اے پی سی بلائی ہے جس میں جی بی کے تمام سیاسی ،سماجی ،قوم پرست ،کنٹریکٹرز،تاجر،کاروباری،غیرسرکاری اور طلباء تنظیموں کو مل کر ایک زبان ہو کر وفاق سے اپنے مطالبات پیش کرنے کی ضرورت ہے تاکہ گلگت بلتستان کے شہریوں کی 68سالہ محرومیوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button