کالمز

کوئی مانے یا نہ مانے

 تحریر :  شریف ولی کھرمنگی،شیان چائینہ

 وزیر اعلٰی گلگت بلتستان حفیظ الرحمٰن دو ہفتے قبل تک گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت کے تعین کیلئے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں بنی کمیٹی کی کارکردگی کو بڑھا چڑھا کربیان کر رہا ہوتا تھا، اور گندم کی قلت، غیر آئینی علاقے میں ٹیکس کے نفاذ، داریل تانگیر میں دہشت گردی اورلاوڈشیڈنگ وغیرہ کےعذاب سہتے ہوئے بھی عوام کچھ حد تک امید کررہے تھے کہ شاید نون لیگی جماعت کئی بار وفاق میں حکمرانی کے بعد اب چائینہ کے پریشر پر ہی سہی، آئینی حقوق پر عوامی رائے کے مطابق فیصلہ کرے گی۔ لیکن،

تقریبا دوہفتے قبل اس کمیٹی میں زیر بحث گلگت بلتستان کو سیٹلڈ (متنازعہ)اور ان سیٹلڈ(غیر متنازعہ) کے نام پر تقسیم کرنے کی تجویز پہلے جماعت اسلامی استور کے رکن مولا عبدالسمیع کے ذریعے لیک ھوئی اور پھر خود وزیر اعلٰی حفیظ الرحمٰن نے ڈان ٹی وی کو انٹرویو میں ببانگ دہل کہہ ڈالا کہ بلتستان ریجن کے چار اضلاع اور استور(متنازعہ خطے) ان سیٹلڈ ایریاز ہیں جبکہ گلگت ریجن اور ہنزہ سیٹلڈ ایریاز(غیر متنازعہ) ہیں۔اوران غیر متنازعہ خطوں کا الحاق پہلے سے ہی پاکستان کیساتھ ہو چکا ہوا ہے۔ وزیر اعلیٰ صاحب نے اپنی بات کی استدلال بھی تاریخ کو مسخ کرتے ہوئے یہ پیش کی کہ کشمیرکی حکمرانی صرف استور اور بلتستان ریجن پر رہی ہے اور گلگت ریجن اور ہنزہ پر کبھی کشمیری راجگیری نہیں رہی۔ اینکر اگر جانتا تو یہ سوال ہی کافی ہوتا کہ اگر کشمیر(ڈوگرہ راج)کی گلگت ریجن اور ہنزہ پر حکمرانی تھی ہی نہیں تو پھر یوم ِآزادی(یکم نومبر۱۹۴۷) کی تقریب جو خود وزیر اعلیٰ موصوف نے اسلام آباد میں دسمبر میں بھی منائی،وہ کس سے آزادی کی تقریب اورخوشیاں تھیں؟

خیر ،یوں یہ سازش کھل گئی اور بلتستان سے بھی حکومتی جماعت کے اسپیکر فدا ناشاد سمیت بعض دیگر ارکان نے اس متوقع تقسیم گلگت بلتستان کے خلاف اخبارات دوٹوک الفاظ میں بیانات دیئے، اور اپنی نجی محفلوں میں برملا اظہار کرتےرہے کہ وزیر اعلیٰ انکی رائے یا مشورہ کے بغیر ہی یہ سب کچھ کررہے ہیں۔ اور اس معاملے میں وزیر اعلٰی کی طرفسے باقاعدہ اپنے موقف کی تردید نہ کرنے کی صورت میں تحریک عدم اعتماد لانے یا دوسرے ممکنہ اقدامات کی بھی باتیں ھوئیں۔وزیر اعلیٰ کیطرفسے تو کوئی تردیدی بیان اب تک نہیں آیا،البتہ ترجمان وزیر اعلیٰ کے نام سے اخباروں میں ایک بیان دیکر اس ایشو پر مٹی ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ گزشتہ دنوں سپیکر وغیرہ نے وزیر اعلیٰ سے ملاقات کے بعد متفقہ طور پر اخبارات کو بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ نے ایسا بیان ہی نہیں دیا، جبکہ ڈان ٹی وی پروزیر اعلیٰ کالائیو اور ریکارڈ شدہ انٹرویوہر جگہ اب بھی موجود ہے ؛ جسکا حوالہ سازش کو بے نقاب کرنیوالے مولانا عبدالسمیع بھی بار باردے چکے ہیں۔ حکومتی عہدیداروں نےایک طرح سے دن کو وزیر علیٰ کیلئے رات تعبیر کرکے ثابت کردیا کہ ان میں اپنی پارٹی کی صوبائی صدر اور وزیر اعلیٰ کے حکم پر چوں چراکرنے کی ہمت نہیں۔ اس کارِ خیر میں اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر صف اول میں رہے، باقی وزرا اور مشیروں کی ٹیم بھی شامل تھے، مگر اتفاقا وزارت اور کونسل کے متوقع امیدوارں نے اس معاملے میں نہ پہلے زبان کھولی اور نہ ہی اس سازش پر عملدرآمد کی صورت میں ان سے کچھ اگلنے کی توقع کسی کو کرنے کی امید ہے۔ کیونکہ یہ بات طے ہے وزیر اعلیٰ اور پارٹی قیادت کو ہرمعاملے میں انکی جی حضوری ہی وہ واحد شرط رہی ہے جس پر انہیں پارٹی ٹکٹیں ملی اور اب وزارتوں اور دیگر سیٹوں کے وعدے وعید اسی شرط سے قائم ہیں۔

دوسری طرف سرتاج عزیز کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کی جانب سے کسی حتمی فیصلے کا آنا باقی ہے لیکن کشمیر کے وزراو عہدیداران اگلے الیکشن میں اپنا انجام گلگت بلتستان کے سابق وزیر اعلیٰ مہدی شاہ کیطرح ہوتا دیکھ کر ایسے بے دھڑک بیانات دینے لگ گئے کہ گویا کشمیر کو۶۹ سالوں سے انڈیا نے نہیں بلکہ گلگت بلتستان نے غلام رکھا ہوا ہے۔ حریت کانفرنس،جموں کشمیر لبریشن فرنٹ وغیرہ کے عہدیداران بھی یکدم سرگرم ہوگئے یاسین ملک نے تو وزیر اعظم کو خط لکھ کر انکا وعدہ بھی یاد دلادیا کہ کسی صورت گلگت بلتستان کو آئینی حقوق نہیں دیا جاسکتا، جبکہ وزیر اعظم نے گزشتہ دورہ گلگت میں گلگت بلتستان کے عوام سے بھی وعدہ کیا تھا کہ ھم اس خطے کو نیا صوبہ بنا ئیں گے۔ کشمیری حکومت میں سے کسی نے گلگت بلتستان کو صوبہ بنوانے والے کوزندگی کی آخری دن دکھانے کی دھمکی دی تو جن لوگوں کا خود اپنے حلقے میں کچھ ماہ بعد ہونیوالے الیکشن میں ہار جانا کنفرم ہے، انہوں نے گلگت بلتستان کو کشمیر کیساتھ ملائے جانے پر وزارت عظمیٰ اور صدارت گلگت بلتستان کو دینے تک کی پیش کش کردی۔آزاد کشمیر اسمبلی نے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کی مخالفت میں متفقہ قرارداد بھی منظور کی اور اسی سلسلے میں اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاوس کے باہر دھرنہ بھی دیا جارہا ہے۔ ڈوگرہ حکومت سے آزادی کے بعد اپنی مرضی سے پاکستان کیساتھ الحاق اور پاکستانی ریاست کیطرفسے خطےکے لوگوں کو شہری حقوق سے محروم رکھنے کے باوجود بھی کشمیری حکمرانوں نے کبھی اپنی حکومت میں شامل کرنے کی بات نہیں کی، اور اب چونکہ اقتصادی راہداری کیوجہ سے چائینیز حکومت کے کہنے پر پاکستانی حکومت میں یہ بات اٹھی تو یہ لوگ کسی نہ کسی طرح اس معاملے کو روکنے کیلئے سر توڑ کوشش کررہے ہیں، دوسری وجہ اقتصادی راہداری کا چار صوبوں سے گزرنا مگر کشمیر کو چھو کر بھی نہ گزرنا بھی ہے، شاید گلگت بلتستان کو ایک ساتھ ملانے سے انکو اس میں کچھ حصہ ملنے کی امید پیدا ہو۔

مجھے حیرت اس بات کی ہے کہ گلگت بلتستان کی صوبائی اسمبلی نے جب متفقہ طور پر اس علاقے کو آئینی حیثیت دینے کیلئے قرارداد پاس کی ، پھر ایک کل جماعتی کانفرنس اسی سلسلے میں بلائی گئی اس میں بھی یہی اعادہ کیاگیا کہ یہ خطہ آئینی صوبے کا متقاضی ہیں جس سے کم کچھ بھی منظور نہیں، پھر اس صوبے کا وزیر اعلیٰ کو یہ حق کیسے پہونچتا ہے کہ وہ وفاقی کمیٹی میں جاکر اپنی من مانی تجاویز دیں یہاں تک کہ اس علاقے کو تقسیم کرنے کا مشورہ یقینا عوامی حقِ نمائندگی سے خیانت سے کم نہیں۔ اس کمیٹی بقول وزیر اعلیٰ ایسے پائے کے افراد شامل ہیں جن کو اس علاقے کا نام تک نہیں پتہ تھا، وہ لوگ تو بخوبی سمجھ چکے ہونگے کہ جب اس خطے کا وزیر اعلیٰ ہی علاقے کو توڑنے کے تجاویز دے رہا ہے تو اسمبلی اور کابینہ ممبران کا شعور کس نہج پر ہوگا۔ خاص طور پر جن لوگوں نے انہیں ووٹ دے کر نمائندگی کیلئے بھیجا ہے وہ ایسی ہی طفل تسلیوں سے ہی بہل جانیوالے ہونگے تب ہی ۶۹ سالوں سے سرگرداں ہیں۔ اور یقینا یہ ہماری قومی المیہ ہے کہ ہمارے نمائندے ہم نے ہی ایسے چنے جو ذاتی و پارٹی وابستگی کوعلاقائی و اجتماعی ضرورت وحق پر ترجیح دے رہے ہیں۔

اصل مشکل ہماری یہ ہے کہ ہمارے خطے کی نمائندہ ٹیم کا کپتان ہی اپنے ہدف یعنی آئینی حق کوبیان کرنے میں چوں چرا کررہے ہیں،جیسا کہ جیو نیوز کے طلعت حسین کو جب انہوں نے مشروط صوبے کی بات کی تو انہوں نے مسکراہٹ کیساتھ انکا جملہ واپس کیا کہ صوبہ یا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، یہ مشروط صوبہ کیا ہوتا ہے؟اس طرح انکی ٹیم ممبران سے نہ کوئی مشورہ ہوتا ہے نہ ہی انکی سنی جاتی ہے، شاید وہ کچھ رائے دینے کی کوشش بھی نہیں کرتے، بس صرف انہی کی ہاں میں ہاں ملا تے دکھائی دیتے ہیں۔ اگر یہ ٹیم صرف ایک ہدف ، یعنی گلگت بلتستان آئینی صوبہ یا آزادی کا نعرہ لگاتا تو پوری قوم انکی حمایت کررہا ہوتا، لیکن ہر معاملے میں مصلحت پسندی سے اپنی جماعت کے کارکن بھی آج انکے ساتھ کھڑا ہونے کو تیار نہیں دکھائی دیتا۔ان تمام معاملات کے پسِ منظر میں وفاقی حکومت اقتصادی راہداری میں گلگت بلتستان کو سڑکوں کی گردو غبار اور گاڑیوں کے دھوئیں کو ہی انقلاب کا نام دیکر تقریبا ٹرخایا جاچکا ہے، کیونکہ ابتک منظر عام پر لانیوالے اقتصادی زونز میں سے ایک بھی گلگت بلتستان میں نہیں آتی۔

موجودہ صورت حال میں اسی سیٹ اپ یعنی گورننس آرڈر۲۰۰۹ کو آئینی شق کیساتھ منسلک کرنے یا زیادہ سے زیادہ عبوری صوبہ کا نام دیکر دوآبزرورز(یعنی تماشہ بین) کو پاکستان کی آئین ساز ادارے میں شامل کرنا ہی ممکن لگ رہا ہے۔ البتہ چائینیز حکومت کچھ مزید رعب ڈالتے ہوئے آئینی طور پر تسلیم شدہ علاقے سے ہی راہداری قائم کرنے کا فیصلہ کریں تو شاید کشمیریوں کی پریشر اور وزیر اعلیٰ کی کنفیوزن سے بالا کوئی فیصلہ کرنا پڑ جائے، لیکن پھر دیکھنا ہوگا کہ ایسے میں بلتستان ریجن اور استور کو کشمیر کے ماتحت کرنے کی جسارت نہ کر بیٹھیں جس پر وزیر اعلیٰ کا مشورہ پہلے سے ہی موجودہیں، حالانکہ عوامی رائے عامہ، اسمبلی کی قرارداد اور کل جماعتی کانفرنس اعلامیے کے بعد آئینی صوبے سے کم کوئی بھی فیصلہ خطے کے عوام کیلئے ناقابل قبول ہے۔ اور ایسا کرنا ملک میں آزاد بلوچستان، جئے سندھ اور پختونستان کی نعروں کے بعد وفاق سے دشمنی کا ایک اور محاذ کھڑا کرنے کے مترادف ہوگا، جو یقینا ملکی مفاد میں نہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button