کالمز

سانحہ علی آباد

تحریر: ایمان شاہ

نثار میں تیری گلیوں پر اے وطن
جہاں چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھاکر چلے

11اگست 2011کو علی آباد میں باپ بیٹے کو گولیوں سے چھلنی کردیا گیا دونوں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔۔۔۔۔۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ اپنے مطالبات پیش کرنے کے لئے اس وقت کے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان سے ملاقات کے خواہاں تھے پولیس کو احکامات تھے کہ بادشاہ سلامت کو دقت کا سامنا نہ کرنا پڑے پولیس نے کلیئرنس دینے کے لئے مطالبات پیش کرنے علی آباد کی مرکزی شاہراہ پر موجود چند درجن متاثرین کوروڈسے ہٹنے کا الٹی میٹم دے دیا ، متاثرین مصر تھے کہ وہ وزیراعلیٰ کے سامنے اپنے مطالبات رکھیں گے تلخی کے بعد بات گالی اور گولی تک جاپہنچی پولیس کو نجانے کیا سوجھی کہ انہوں نے نہتے متاثرین پر براہ راست فائرنگ کی ۔۔۔باپ بیٹا شہید جبکہ کئی زخمی ہوگئے ۔۔۔

سانحہ عطاء آباد کے متاثرین کیا چاہتے تھے ؟ایک جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار کے ایوانوں تک پہنچنے والے نمائندوں کو اپنی دکھ بھری داستان اور گزارشات گوش گزار کرنا چاہتے تھے ۔۔۔۔ اپنے گھر بار ، کھیت ،کھلیاں ہر قسم کے میوہ جات سے ڈھکے باغات چھوڑ کر علی آباد میں متاثرین کے نام پر مہاجرین کی زندگی بسر کرنے والے انسانی آفت کا شکار ہوگئے ۔۔۔۔

آج 12اگست ہے 11اگست کے سانحے کو اتنی جلدی کیسے بھلایا جاسکتا ہے ؟مجھے اس بات کا پورا یقین ہے کہ مہدی شاہ سرکار کو 8جون کے انتخابات میں جس ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا اس میں متاثرین عطاء آباد کی بددعاؤں کا بھی ضرور اثر ہوگا ۔4جنوری 2010کو عطاء آباد کا پوراگاؤں صفحہ ہستی سے مٹ گیا ، دریا ئے ہنزہ کا بہاؤ رک جانے کی وجہ سے جھیل معرض وجود میں آئی ، ششکٹ ، گلمت ، اور دیگر چھوٹے گاؤں متاثر ہوگئے ،جون 2010تک ششکٹ اور گلمت کے سینکڑوں گھر ، عبادت گاہیں ، کھڑی فصلیں ، پھلدار درخت اور میوہ جات سے لدھے درخت عطاء آباد جھیل کا حصہ بن چکے تھے گھر بار چھوڑ کرسینکڑوں خاندان دربدر کی ٹھوکریں کھارہے تھے جبکہ سید مہدی شاہ اور ان کی کابینہ کے بعض وزراء بالخصوص گانچھے سے تعلق رکھنے والے سینئر وزیر جعفر کے ریمارکس ان متاثرین کے بارے میں ناقابل اشاعت ہیں قدرت کا کرشمہ دیکھیں اس سانحے کے زد میں آنے والے غریب متاثرین کا مذاق اڑانے والے گمنامی کی زندگی بسر کررہے ہیں جبکہ عطاء آباد جھیل کی وجہ سے سیاحوں کا ایک سیلاب اس علاقے میں امڈ آیا ہے زیادتیوں کا سلسلہ یہی پر ختم نہیں ہوا تھا 2انسانوں کے قاتلوں کا ابھی تک تعین نہیں ہوسکا ان کے لواحقین آج بھی دربدر کی ٹھوکریں کھارہے ہیں۔

مجھے انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیز جس نے گلگت کا دورہ کیا کے رویئے پر بھی افسوس ہے، میرے پاس تو اطلاعات نہیں ہیں لیکن کوئی مجھے بتائے کہ عاصمہ جہانگیر نے11اگست2011ء کو پولیس کے ہاتھوں شہید ہونے والے باپ بیٹے کے لواحقین سے ان کے گھر جاکر کوئی یقین دہانی کرائی۔۔۔۔

اگر نہیں تو پھر مگرمچھ کے آنسو بہانے کی کیا ضرورت ہے،عاصمہ جہانگیر جس ہوٹل میں مقیم تھیں اس سے چند میٹر دور صبح فجر کی نمازپڑھنے جماعت خانے والی ایک خاتون کو فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا، صبح تمام اخبارات میں خبر چھپ چکی تھی، عاصمہ جہانگیز کو اس بات کی اطلاع بھی دی گئی، لیکن انسانی حقوق کی علمبردار عاصمہ جہانگیر کو اتنی بھی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ متاثرہ خاندان سے تعزیت کا اظہار کرتی، اس سے بھی زیادہ حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ انہوں نے اس واقعے کی مذمت تک نہیں کی۔

سانحہ علی آباد اس لئے بھی دردناک ہے کہ قدرتی آفت سے متاثرہ خاندان انسانی آفت کا شکار ہوگئے ،اس واقعے کا پس منظر بیان کرنا بہت ضروری تھا، اقتدار کا نشہ ایک دن اتر ہی جاتا ہے، مہدی شاہ اقتدار کے نشے میں تھے، ان کا نشہ اتر چکا ہے،اس وقت کی اپوزیشن اب اقتدار میں ہے،5سال بعد سانحہ عطاء آباد کے متاثرین وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سے انصاف کا تقاضہ کرتے ہیں۔

جمشید خان دکھی کے بقول:۔

روش لوگوں میں الفت کی نہیں ہے
وطن فردوس سے بڑھ کر حسین ہے
تعصب نفرتیں اب کاشت کرلو
بڑی زرخیز گلگت کی زمین ہے

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button