ڈاکٹر محمد ذمان داریلی
میاں صاحب سے ملاقات کی روُداد چل نکلی تھی کہ اسی دوران یوم یکجہتی کشمیر آدھمکا۔ اس سے قبل ہم بھی یوم کشمیر پرکبھی مقرر اور کبھی سامعین میں شامل ہوتے، لیکن اب کے بار گلگت بلتستان کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر دوستوں کو شاید ناگوار گزری اس لیےاو ہمیں شریک محفل کرنے سے اجتناب کیا گیا اور وہ بلاتے تو بھی نہیں جانا تھاکیونکہ میرے جانے سے ان کی مداح صرائ کی محفل کے رنگ میں بھنگ پڑ نے کا قوی امکان تھا۔
خیر ہم نے بھی پانچ فروری کو کسی سیمینار میں شریک ھو کر جھوٹی تقریریں کر کے کشمیر کے شہدا سے ہمدردی کرنے کے بجائے اللہّ کے گھر خانہ کعبہ میں حاضری دے کر کشمیر کے شہدا کے درجات کی بلندی کشمیر کی جلد از جلد آذادی گلگت بلتستان کو جلد از جلد بنیادی انسانی حقوق کے حصول کا تہیہ کیا اور بمع اہل وعیال اللہّ کے گھر میں حاضری دی۔
جب مملکت خداداد پاکستان میں زرداری صاحب کے اقتدار کا سورج اپنے جوبن پر تھا اور حسب روایت جمیعت علمائے اسلام کا ستارہ بھی ایوان اقتدار میں ٹمٹما رھا تھا کیونکہ مولانا صاحب (مولانا فضل الرحمن صاحب ) کشمیر کمیٹی کے چیر مین ہیں اور حالات بتا رھے ہیں کہ 73 کے آئین کے تناظر میں تا حیات مولانا ہی کشمیر کمیٹی کے چئر مین رھینگے کیوںکہ کشمیر کمیٹی کے چئرمین کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابرمراعات یافتہ قرار دیا گیا ھے۔
مولانا صاحب اس کمیٹی کے چئرمین اگست 2008 میں چنے گیے تھے اس کمیٹی کے کل ممبران کی تعداد 35 افراد پر مشتمل ھے عجب لوگوں کی غضب کہانی یہ ھے کہ اس کمیٹی میں کشمیر اشو کے اصل فریق آذاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے ایک آدمی بھی نہیں اس کمیٹی کے فوت ہونے والے ممبران کا نام اب بھی قومی اسمبلی کی ویب سائٹ پر اس کمیٹی میں شامل ھے اور کشمیر اور گلگت بلتستان کے زندہ لوگوں کو بھی اس کمیٹی میں شامل کرنے سے اجتناب کیا گیا ھے ورنہ عبوری شرکت مشروت شرکت تو ممکن تھی اس سے آپ کشمیر کمیٹی کے اغراض و مقاصد اور پاکستان کے کشمیر ایشو میں دلچسپی کا اندازہ لگاسکتے ہیں۔
معزرت بات لمبی ھو گئ . مولانا صاحب اسی کشمیر کمیٹی کے حوالے سے او آئ سی کی اجلاس میں شرکت کرنے سعودی عرب تشریف لائے تھے اس دوران کسی دل جلے کشمیری مزدور نے مولانا صاحب کو مکہ مکرمہ میں دعوت طُعام کا بندوبست کیا تھا مجھے بھی اس محفل میں شرکت کی دعوت دی گئ تھی میں بھی اپنی دھرتی کے ایک فرزند جس کو حقوق کی کم شکم سیری کی ذیادہ فکر رہتی ھے جس کا اندازہ آپ انکی لمبائ چوڑائ سے بخوبی لگا سکتے ھیں حاضر ھوے تھے کھانے کی میز پر بیٹھ کر مجھے یہ اندازہ ھوا کہ میزبانوں پر مہمان کا جادو سر چڑھ کر ہاوی ھے کیوں نہ ھو مملکت کے ایوان اقتدار کے شیش محل میں داخل ھونے والا ھر مکین مولانا صاحب کو اپنا ہمسفر بنانے پر مجبور ھوتا ھے۔
میں مولانا صاحب کے برابر میں نشست پر بیٹھ گیا اور محفل کی خاموشی کو توڑنے کی خواہش میں ایک زبانی کروز میزائل داغ دیا. مولانا صاحب آپ کشمیر کمیٹی کے چئرمین ھیں، ہم گلگت بلتستان والے کشمیر اشو کی وجہ سے اپنے حقوق سے محروم ھیں ھمیں حقوق نہ ملنے کا زمہ دار پاکستان کشمیری یا ہم خود ھیں تو مولانا کا جواب تھا. زمہ دار تم خود ھو جب تک بچہ روتا نہیں ماں دودھ نہیں دیتی۔
جب کبھی گلگت بلتستان والے حقوق کے لئے آواز اُٹھا بھی لیتے ھیں تو نادیدہ قوتیں فرقہ ورانہ تصادم کروا دیتیں ھیں اور پھر یہ حقوق کے خاطر اُٹھنے والی آوازیں دم توڑ دیتں ھیں .نہ جانے یہ بلی چوھے کا کھیل کب ختم ھو گا۔
کشمیر کو آذادی تقاریر نعروں اخباری بیانات سیمینارز اور ترانوں سے نہیں بلکہ عملی جدوجہد سے ملے گی اور گلگت بلتستان کو حقوق بھی تقسیم درتقسیم ھونے سے نہیں بلکہ فرقہ واریت علاقہ پرستی ذات پات سے بالاتر ھو کر اجتماعی سوچ اور جدوجہد سے ملیںگے۔
ورنا کشمیر اشو کا کمبل چاہتے ھوے بھی تا قیامت جان چھوڑنے والا نہیں۔