کالمز

خیرات نہیں حق دو

 ریاست کا کام خیرات بانٹنا نہیں بلکہ شہریوں کے حقوق کی پاسداری ہوتا ہے ۔ نجی سطح پر خیراتی کام کا جواز تو بنتا ہے مگر ریاست کو یہ کام زیب نہیں دیتا۔ ہمارے ہاں چونکہ آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے اس لئے انسانی حقوق کے نظریہ کو مغرب کا ایجنڈا قرار دیکر اس کو سرے سے رد کیا جاتا ہے جبکہ عوام کو وقتی طورپر مطمئن رکھنے کے لئے ریاستی سطح پر خیرات بانٹنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔خیرات کے حق میں دینی اور قانونی حوالے دیے جاتے ہیں تاکہ اس کی اہمیت پر حرف نہ آئے، لوگ اس کو نعمت الہی قرار دیکر دل و جان سے قبول کریں اور اس کے تقدس پر سوال نہ اٹھائیں۔ جب بھوک اور افلاس کے مارے ہوئے عوام خیرات سے مطمئن نہیں ہوتے ہیں تو ترقی کے جھوٹے اور کھوکھلے منصوبے شروع کئے جاتے ہیں اور دن رات ان کی تشہیر کی جاتی ہے۔ ہم نے جب سے ہوش سنھبالا ہے اکثر سر براہان مملکت کو قوم کی بیوہ خواتین، سیلاب اور زلزلوں کے متاثرین کے علاوہ یتیموں، مسکینوں، بیماروں، قیدیوں، افراد باہم معذوری اورغریبوں میں خیرات تقسیم کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ کام ماہ رمضان ،عید یا غیر مسلم پاکستانیوں کے مذہبی تہواروں کے موقع پر زیادہ شد و مد سے ہوتا ہے ۔ ریپ، قتل ، انتہا ء پسندی، دھشت گردی، بدمعاشی ، لوٹ مار اور جرائم پیشہ افراد کی ستم ظریفی سے متاثر خواتین ، بچے ، غیر مسلم پاکستانیوں اور غریب اور مفلس افراد کے سر پر ہاتھ رکھ کر بنائی جانے والی حکمرانوں کی تصویریں بھی روز اخبارات کی زینت بنتی ہیں۔ اسی طرح ہم نے غیر معیاری اور غیر مستقل ترقیاتی منصوبوں پر بے تہاشہ پیسہ خرچ ہوتے اور انجام کار صفر ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، صحت کارڈ، لیپ ٹاپ سکیم اور میٹرو بس ان کی تازہ مثالیں ہیں جبکہ ماضی میں سبز انقلاب، خوشحال پاکستان، سوشل ایکشن پروگرام، توانا پاکستان، قرض اتارو ملک سنوارو، تعلیم بالغاں، نئی روشنی سکول، پیلی ٹیکسی وغیرہ جیسے خیراتی اور وقتی ترقیاتی منصوبوں سے عوام کا دل بہلایا جاتا رہا ہے۔

سادہ لوح عوا م ایسے ہر منصوبے کے آغاز پر خوشی سے پھولے نہیں سماتے ہیں ،کچھ عرصہ بعد جب ان کھوکھلے منصوبوں کی حقیقت عیاں ہوتی ہے تو پھر حالات کا رونا روتے ہیں مگر چالاک حکمران تب تک نئے خیراتی منصوبے کی تشہری مہم کا آغاز کرچکے ہوتے ہیں ۔چوہے بلی کا یہ کھیل گذشتہ ستر سالوں سے جاری ہے مگر عوام ہر بار دھوکا کھا جاتے ہیں۔

دنیاء میں محروم اور پسے ہوئے طبقات کی مدد اور ان کو کسمپرسی کی حالت سے نکالنے کے لئے تین نظریات یا تصورات پائے جاتے ہیں۔ جن میں خیرات، ترقی اور انسانی حقوق کا نظریہ شامل ہیں۔ تاریخی اعتبار سے سب سے پرانا تصور خیرات و صدقات کا ہے۔ اس کا فلسفہ یہ ہے کہ اپنی کمائی سے بچا کر ضرورتمندوں کو کھانا یا ضروریات زندگی کی کوئی چیز دی جائے ۔ اس کا طریقہ کا ر عموما یہ ہوتا ہے کہ یتیموں،غریبوں ، مسکینوں، بھوکوں اور ناداروں کو ایک جگہ جمع کیا جائے اور ان کو ایک وقت کا کھا نا کھلایا جائے یا کچھ دنوں کے لئے ضروریات زندگی فراہم کئے جائیں۔

انسانی مصائب ومشکلات پر غور کرنے والوں نے دیکھا کہ روئے زمین پر انسانی آبادی کی اکثریت کو اپنی لپیٹ میں لی ہوئی بھوک اور افلاس کا دیر پا حل انفرادی طور پر دی جانے والی خیرات و صداقات میں نہیں ہے کیونکہ کوئی شخص اگر غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہا ہے تو ایک وقت کا کھا نا ان کو اس مصیبت سے ہمیشہ کے لئے نجات نہیں دلا سکتا ، نہ کوئی شخص ساری کمائی خیرات میں لٹا سکتا ہے اور نہ ہی دنیا کے ہر غر یب شخص تک خیرات اور صدقات پہنچا ئی جاسکتی ہیں ۔ چنانچہ اس مسلے پر غور کیا جانے لگا کہ انسانی آبادی کو درپیش غر بت ، بھوک اور افلاس کا مستقل حل کیا ہوسکتا ہے؟سماجیات کے ماہرین نے اس کے لئے انسانی ترقی کا نظریہ دیا۔

نظریہ ترقی کا فلسفہ یہ ہے کہ لوگوں کو مچھلی مت کھلاؤ بلکہ مچھلی پکڑنا سکھاؤ تاکہ لو گ کھانے کے محتاج نہ ہوں بلکہ وہ خود اپنے لئے کھانا پیدا کر سکیں ۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ لوگوں کی استعداد کاری (امپاورمنٹ) کی جائے۔ یعنی ان کو ہنر اور تعلیم کے ساتھ روزگار اور بچت کی تربیت دی جائے تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں۔

اس نظریے پر عملدرآمد کے باوجود دنیا کی اکثریت انسانی آبادی آج بھی بدستور بھوک اور افلاس کا شکار ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی فرد کو تعلیم یا ہنر دینا کا فی نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ اس بات کی اہمیت ہے کہ اس کو روزگار کا بہتر موقع فراہم کیا جائے اور ان کو معاشرے کے دیگر تمام افراد کے برابر حق دیا جائے کہ وہ معاشرے کے وسائل سے استفادہ کر سکے۔ ہنر اور تعلیم کی اہمیت مسلمہ ہے مگر جب ہنر اور تعلیم کے باوجود کسی شخص کو روزگار کاموقع نہ مل جائے تو محض تعلیم اور ہنر اس کی بھوک نہیں مٹا سکتے۔ جیسے ہمارے ہاں آج بھی لاکھوں ہنر مند اور تعلیم یافتہ نوجوان روزگار کے حصول کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ اسی طرح جب کسی فرد کو روزگار ہی میسر نہ ہو تو اس کے آگے بچت کا تصور بھی غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ سماجیات کے ماہرین نے صدیوں قبل اس مسلے پر غور کرنا شروع کیا تھا جس کے نتیجے میں دنیا میں کئی فلسفیوں کی طرف سے انسانی حقوق کا نظریہ پیش کیا گیا۔ اس نظریے کے تحت انسانی تقدس اور وقار کا سوال اٹھایا گیا اور یہ سوالات بھی اٹھائے گئے کہ آخر دنیا میں انسان بھوک ، غربت ،افلاس اور امتیازی سلوک کا شکار کیوں ہوتا ہے اور وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی وجہ سے انسان کی تذلیل ہوتی ہے اور اس کا وقار مجروح ہوجاتا ہے؟ انسان کی حقیقی آزاد ی سلف کیوں ہوتی ہے اور اس کا ذمہ دار کون ہے؟

جب یہ سوالات اٹھائے گئے تو ان کے ساتھ یہ مطالبات بھی کئے جانے لگے کہ انسانی حقوق کے عالمی معیارات طے کئے جائیں جن کی بنیاد پرریاستوں کو پابند کیا جاسکے کہ وہ ان معیارات کے تحت اپنے شہریوں کو حقوق کی فراہمی یقینی بنائیں ۔

یہ معیارات انسانی حقوق کے عالمی منشور ، انسانی حقوق کا بین الاقوامی چارٹر اور قوانین میں درج ہیں جبکہ دنیا کے ہر ملک میں ان کے آئین کے اندر کسی نہ کسی شکل میں انسانی حقوق کا ذکر ملتا ہے ۔ دنیا کے بعض ممالک ان بین الاقوامی معیارات کے مطابق اپنے آئین اور قوانین بنا چکے ہیں جبکہ اکثریت ممالک میں عوام ان بین الاقوامی معیارات کو اپنے ملکی آئین اور قوانین کا حصہ بنوانے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ آئین پاکستان میں بھی شہریوں کے بنیادی حقوق کا ایک باب موجود ہے مگر پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہوں نے انسانی حقوق کے تمام بین الاقوامی معیارات تسلیم نہیں کئے ہیں ۔

۱۹۴۸ ؁ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے منظور ہونے والے انسانی حقوق کے عالمی منشور کی شق نمبر ایک میں لکھا گیا ہے کہ تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوئے ہیں ۔ انہیں ضمیر اور عقل ودیعت ہوئی ہے ۔ انہیں ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کا سلوک کرنا چاہئے۔ اس منشور کی تیس دفعات ہیں جن میں انسانی حقوق کے بنیادی اصول درج ہیں۔ان کی مذید وضاحت بین الاقوامی میثاقوں میں کی گئی ہے۔ جیسے معاشی ، معاشرتی اور ثقافتی حقوق کا بین الاقوامی میثاق، شہری اور سیاسی حقوق کا میثاق، بچوں کے حقوق کا کنونشن،غلامی محکومی ، جبری مشقت اور ان سے مشابہہ ادارے اور روایات کے خاتمے کامیثاق، عورتوں کے خلاف ہر قسم کے امتیازات کے خاتمے کا معاہدہ، ایذارسانی کے خلاف بین الاقامی کنونشن وغیرہ۔

ان حقو ق کی فراہمی کا طریقہ کا ر یہ ہے کہ دنیا کی ہر ریاست اپنی صوابدید پر ان عالمی معیارات پر دستخط کر کے ان کو تسلیم کرے گی پھر ان کی توثیق کر کے اپنے آئین اور قوانین کا حصہ بنائے گی اور پھر ا ن پر عملدرآمد کے لئے لائحہ عمل طے کرے گی۔

اگر کوئی ریاست انسانی حقوق کے ان بین الاقوامی معیارات پر ان کی اصل روح کے مطابق عمل کرے گی تو ایسانہیں ہوگا کہ کسی ایک شہری کی عزت روڑ پر نیلام ہو اور کوئی اپنی جاہ و جلال اور طاقت کے بل بوتے پر انسانیت کی تذلیل کرتا پھرے۔ کسی کی بنیادی آزادی جنس، مذہب، عقیدہ ، رنگ، نسل ، زبان اور علاقائیت کی بنیاد پر سلف ہو اور کوئی مکمل آزاد اور خود مختار ہو۔ امیر کے لئے قانون اور ہو جب کہ غریب کے لئے قانون کوئی اور ہو۔ کسی کو ضرورت مند بنا کر ایک وقت کی روٹی دی جائے اور اگلے وقت کی روٹی اس کے نصیب میں کھبی نہ آجائے ۔کسی کے پیدا ہوتے ہی ان کے نام پر اربوں کا بینک اکاؤنٹ بن جائے اور کوئی ہنر اور ڈگری کے باوجود روزگار کے حصول کے لئے در در کی ٹھکریں کھائے۔

انسانی حقوق کی پاسداری کی صورت میں مذکورہ تمام امتیازات کا خاتمہ سوسکتا ہے۔ جن کا ذکر انسانی حقوق کے عالمی منشور میں کیا گیاہے اور یہ طے شدہ اصولوں ، ضابطوں اور قوانین کے مطابق ہی سوسکتا ہے جس کی ذمہ داری شہریوں کی مشتر کہ تنظیم یعنی ریاست کے سر پر ہوتی ہے۔ چنانچہ انسانی حقوق کی جدوجہد دراصل ریاستی سطح پر انسانی حقوق کے بین الاقوامی معیارات کو تسلیم کرانے اور ان پر عملدر آمد کرانے کی ہے تاکہ یہ خیرات اور نام نہاد ترقی کی طرح انسانوں کے مسائل کا ادھورا نہیں بلکہ جامع، پائیدار اور مستقل حل پیش کرسکے جس کے تحت معاشرے میں بسنے والا کوئی بھی شخص بھوک ، افلاس ،غر بت ،جہالت، بیماری، آزادی سے محرومی ، غیر انسانی اور امتیازی سلوک کا شکار نہ ہو۔

خیرات اور نام نہاد ترقی کے نظریات کے مقابلے میں انسانی حقوق کا نظریہ عالمگیر اور ارفع ہے ۔ یہ نظریہ وقتی بھوک مٹانے کا کام نہیں کرتا بلکہ تسلیم شدہ حقوق کی مستقل اور لازمی فراہمی پر زور دیتا ہے۔ یہ نظریہ شہریوں کو بھکاری نہیں بنا تا بلکہ ان کو باعزت روزگار کی گارنٹی دیتا ہے۔ انسانی حقوق کا نظریہ عوام کو ریاست کا احسان مند نہیں بناتا بلکہ ریاست کو اپنے شہریوں کی عزت و تکریم تسلیم کرنے اور ان کے ساتھ برابری کا سلوک کرنے پر قائل کرتا ہے۔ یہ نظریہ خیرات بانٹنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ ریاست کو اپنی ذمہ دریاں نبھانے کا پابند بناتا ہے۔ اس نظریہ کے تحت عوام ریاست کا احتساب کرتے ہیں اس کو شتر بے مہار جیسی آزادی نہیں دیتے ۔ یہ نظریہ ریاست اور عوام کے درمیان حقوق و فرائض کا رشتہ طے کرتا ہے جس کے تحت شہری ٹیکس ادا کرتے ہیں اوربدلے میں ریاست ان کے تمام حقوق کی ضمانت فراہم کرتی ہے۔ دور حاضر کو جمہوریت اور انسان حقوق کا دور کہا جاتا ہے ۔ مگر ہمارے ہاں ریاست حقوق دینے کی بجائے خیرات دیتی ہے اور عوام میں انسانی حقوق کا شعور نہ ہونے کہ وجہ سے وہ بھی ریاست کی طرف سے وقتا فوقتا ملنے والی خیرات پر شادیانے بجاتے ہیں ۔ ہمارے ہاں جان بوجھ کر ریاستی سطح پر خیرات کے کلچر کو فروغ دے کر انسانی حقوق کے نظریے کی نفی کی گئی ہے اس لئے ریاست پر عوام کی طرف سے کوئی دباؤ نہیں ہے ۔ریاستی ادارے خود کو عوام کے سامنے احتساب کے لئے پیش کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ۔وہ خود کو قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں ان کا عمومی خیال یہ ہوتا ہے کہ قانون صرف عوام کے لئے بنایا جاتا ہے خواص اس کے دائرہ کار میں نہیں آتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے ہمارے ہاں ریاست نے انسانی حقوق کا نظریہ سرے سے تسلیم ہی نہیں کیا ہے اس لئے انسانی حقوق کی بات کرنے والے لوگ بھی ریاست کے وفادار تصور نہیں کئے جاتے ہیں۔ عوام جب تک ریاست سے یہ مطالبہ نہیں کریں گے کہ خیرات نہیں حقوق دو اور ریاست جب تک یہ بات تسلیم نہیں کرے گی کہ اس کا کام عوام کو خیرات دینا نہیں ان کے حقوق دینے ہیں تب تک ریاست اور عوام کا اصل رشتہ بحال نہیں ہوگا جو کہ ریاست کے آگے ریاست کے ہر شہری کی عزت اور تکریم کا تقاضا کرتا ہے ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button