کالمز

رحمت کی بارش سے نعمت کی نوازش تک

عبدالکریم کریمی

ربِ کائنات کا ہم پر بڑا احسان ہےکہ جہاں اللہ پاک نے میری اور سوسن کی تہجد کی نمازوں کا صلہ ننھی آشا سوزین کریمی کی صورت میں نواز کر ہمیں اپنی رحمت کی بارش میں بھیگنے کا موقع دیا تو وہاں اب گزشتہ دنوں بروز منگل چھبیس جنوری دوہزار سولا کی صبح چھہ بجکر دس منٹ پر آغاخان میڈیکل سینٹر گلگت میں ننھا سمیر ازین کریمی کی آمد پر ہمیں اپنی نعمت سے بھی سرفراز فرمایا۔ دل کرتا ہے پوری عمر سجدہ تشکر میں گزاروں۔

اب کبھی پلٹ کے زندگی کو دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں تو خود کو آج بھی پچیس تیس سال پہلے کی دُنیا میں پاتا ہوں اور خود کو بچہ سمجھ رہا ہوں۔ چھہ بہنوں کا اکلوتا بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جس معاشرے سے میرا تعلق ہے وہاں آج سے تین چار عشسرے پہلے اور بعض مقامات پر اب بھی بیٹٰی کی پیدائش کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ بعض والدین ایسے بھی ہیں جو صرف اس لیے بیٹے کو گھر نکالا کر دیتے ہیں کہ بیٹے کی بیٹیاں ہی پیدا ہوتی ہیں، بہو کو اس لیے طلاق تک کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ بیٹا پیدا نہیں کرتی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرے پیارے نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو بیٹی کو رحمت اور بیٹے کو نعمت کا درجہ دیا ہے۔ ایسے میں ان ماں باپ کی خوشی کی انتہا کیا ہوگی جن کے ہاں چھ بیٹیوں کے بیچ اکلوتے بیٹے کی ولادت ہوئی ہو۔ ایسے پُردرد ماضی کو یادوں کے جھروکوں سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔

اب جب آشا کے بعد سمیر کی ولادت ہوئی ہے تو مجھ سے بھی زیادہ خوش میرے والدین، میری بہنیں اور میرے عزیز و اقارب ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت جہاں میری رہائش گاہ کریم منزل میں مہمانوں کا تانتا بندھ گیا ہے تو وہاں میری بہنوں کے گھروں میں بھی مبارکبادیاں وصول ہو رہی ہیں۔ امی ابو ان دنوں کراچی میں خیمہ زن ہیں اور وہاں ہمارے احباب کی میزبانی کر رہے ہیں۔ دعوتوں اور خوشیوں کا سلسلہ شہر قائد سے غذر تک جاری ہے۔ میری خوش نصیبی کہ مجھے اللہ پاک نے اچھے والدین، دل و جان سے مجھ سے پیار کرنے والی چھہ بہنیں اور زندگی کی ہر مشکل گھڑی میں ساتھ دینے والی شریکہ حیات سے نوازا۔ پھر اچھا نصیب اور اچھی تعلیم، شاعرانہ ذوق، ادب اور ادب عالیہ سے منسلک شخصیات کا ساتھ۔ میرے محترم دوست دیامر کے سکہ بند دانشور عنایت اللہ خان شماؔلی صاحب نے سچ کہا ہے؎

کریمؔی تجھ پہ مولا کا کرم ہے

تمہارا منتظر باغِ ارم ہے

بلند پرواز سے ”فکرونظر” سے

ادب کا آپ نے رکھا بھرم ہے

جناب شماؔلی سے معذرت کے ساتھ کہ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے ہم نے ادب کا بھرم بہت کم اور بچوں کا کچھ زیادہ ہی رکھا ہے۔ کبھی ہمیں کتابوں سے پیار تھا اور کتابوں کو ہم سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ہم نے کسی شعر میں برملا اپنی اس خواہش کا بھی اظہار کیا تھا؎

قبروں میں نہیں ہم کو کتابوں میں اُتارو!

ہم لوگ محبت کی کہانی میں مرے ہیں

مگر اب ہم کتابوں سے زیادہ اپنی بیوی سے اور بیوی ہم سے پیار کرتی ہے۔ اس لیے تو سال میں دو دو بچے پیدا کر رہے ہیں کیونکہ اب ہم ادب کی تخلیق نہیں بلکہ بچوں کی ولادت میں مصروف ہیں۔

شادی سے کافی عرصہ پہلے میں روزنامہ "پاکستان” میں ابو سمیر کے فرضی اور قلمی نام سے لکھا کرتا تھا۔ تب میرے اکثر قریبی دوست جن کو پتہ تھا کہ اس نام سے میں لکھتا ہوں وہ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ "جناب! بنا شادی کے آپ ابو سمیر کیسے بن گئے۔” میرا جواب ہوتا "ذرا شادی تو ہونے دو ابو بننا کونسا مشکل کام ہے۔” افسانے سے اس حقیقت کے انکشاف تک ایک زمانہ بیت گیا۔ مگر سمیر نام میری یادوں کے جھروکوں میں محفوظ تھا۔ اس لیے ننھے شہزادے کا نام سمیر ازین کریمی رکھا گیا۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں بنا شادی کے ابو سمیر کیسے بن گیا۔

میری ایک کولیگ نے آج آفس میں داخل ہوتے ہوئے مجھے بیٹے کی پیدائش پر مبارکباد دیتے ہوئے میری گزشتہ ایک تحریر "ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں” پر تبصرہ کرتے ہوئے مذاقاً کہا کہ سر! "کیا بات ہے جن چیزوں میں جلدی کرنی چاہئے وہاں تو دیر کر دیتے ہیں اور جن چیزوں میں دیر کرنی چاہئے اور صبر کرنا چاہئے کیونکہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں، وہاں تو بہت جلدی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، میری مراد لکھائی پڑھائی میں دیر لیکن بچوں کی پیدائش میں اتنی جلدی کیوں؟” اب ان محترمہ کو کون سمجھائے کہ جہاں اللہ میاں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہیں وہاں وہ پیار کرنے والوں کو بھی اکیلا نہیں چھوڑتے۔ میری بیوی مجھ سے کتنا پیار کرتی ہیں۔ اب میں یہ بیاں نہیں کرسکتا، بچوں کی پیدائش شاید اسی پیار کا نتیجہ ہے۔

کریم منزل کی الماریوں میں کبھی کتابوں کا ڈھیر ہوا کرتا تھا اب سیری لیک، بی ایف ون سے تھری تک کے ڈبے، پیمپرز، بھالو اور بچوں کے کھلونے پڑے ہوئے ہیں۔ میں جونہی سوشل میڈیا پر آن لائن ہوتا ہوں میرے دوست اور میرے چاہنے والے مجھ سے ایک ہی سوال پوچھتے ہیں کہ "آپ آج کل لکھتے بہت کم ہیں۔” میری اس تحریر میں میرے دوستوں اور میرے پیارے قارئین کو جواب مل گیا ہوگا کہ ہم کیوں نہیں لکھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ معذرت کے ساتھ یہ بات از راہِ تفنن بیچ میں آگئی۔

آپ تمام دوستوں کی دُعاوں اور نیک خواہشات کی ازحد ضرورت ہے۔ ہمیں اُمید ہے کہ خوشی کے اس موقع پر آپ ہمارے ہمرکاب ہوں گے۔ اپنا بہت سارا خیال رکھئے گا۔ اللہ پاک آپ سب کو شاد اور آباد رکھے۔ آمین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button