کالمز

گلگت بلتستان میں کرپشن کی کہانیاں

گزشتہ ہفتے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سابق رکن قانون ساز اسمبلی کے ساتھ جوٹیال کے ایک چائے خانے میں کافی دیر تک نشست رہی‘جس میں ضلع غذر سے صحافی دوست یعقوب طائی اورپی ڈبلیو ڈی کے ایک معطل آفیسر سمیت دیگر احباب بھی تشریف فرماتھے۔گپ شپ کے دوران سیاسی بحث چھیڑی گئی تو سابق ممبر اسمبلی پیپلز پارٹی کی سابق صوبائی حکومت کا دفاع کرتے ہوئے بولے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت آئے ابھی ایک سال کا عرصہ بھی نہیں گزرا ہے اور ان کے بلند وبانگ دعوؤں کے باوجود عوام میں ان کی کارکردگی پر اعتمادنظر نہیں آرہا۔اس کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی بہت اچھی رہی تھی ۔وغیرہ۔وغیرہ۔ساتھ یہ شکوہ بھی کربیٹھے کہ میڈیا والوں نے ان کی سابق حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کیا جو آج کل مسلم لیگ نواز کی حکومت کے ساتھ کررہا ہے۔
ہم نے جواباً عرض کیا کہ بے شک پاکستان پیپلز پارٹی کی سابق صوبائی حکومت کے دور میں بہت سارے اچھے کام بھی ہوئے‘جن میں بعض نئے اداروں کا قیام،سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ،عارضی ملازمین کی مستقیلی،متعدد امور پر قانون سازی ،وغیرہ۔وغیرہ۔لیکن کچھ کام ایسے کئے جن کی وجہ سے بہت سارے اچھے فیصلوں پر بھی پانی پھیرگیا ‘جس کا نتیجہ قانون ساز اسمبلی کے گزشتہ انتخابات میں بدترین شکست کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔ اب اگر مسلم لیگ والے بھی سابق حکمرانوں کے نقش قدم پر چلیں گے تو آنے والے انتخابات میں ان کا حشر بھی وہی ہوگا۔جہاں تک میڈیا کے عدم تعاون کی بات ہے تو یہ بھی انکی اپنی حکومت کی غلط پالیسیوں کا انجام تھا‘ اس میں میڈیا ہاوسز یا صحافیوں کا کوئی قصور نہیں۔ میڈیا تو وہی چھاپتا ہے جو اسے نظر آتا ہے یا جو آپ کہتے ہیں۔اپنی طرف سے سب کچھ اچھا کرکے بیان کرنا تو جمہوری حکومتوں میں صحافت کا خاصہ نہیں ہوتا۔ جس پر وہ صاحب مان گئے کہ واقعی ان کے دور حکومت میں صوبائی کابینہ کے بعض ممبران کی حرکتیں پوری حکومت اورپارٹی کے لئے بدنامی کا سبب بنیں۔
ہم نے کہا کہ یہ آپ کی حکومت کاکام تھا کہ وہ اپنے میڈیا سیل کو متحرک کرکے اس کے زریعے عوام کو اپنے اچھے اقدامات سے اگاہ کرلیتی اور اپنے اوپر لگنے والے الزامات کا دفاعی بیان جاری کرواکر اپنی صفائی پیش کرلیتی جو آج کل مسلم لیگ نواز کی حکومت کا میڈیا سیکشن کررہا ہے۔حالانکہ آپ نے خود حکومتی اقدامات کی تشہیر کی خاطرصوبائی سطح پر انفارمیشن ڈپاٹمنٹ بھی قائم کیا تھا‘اب اس سے کام لینا یا مربوط میڈیا پالیسی مرتب کرنا آپ کی حکومت کے بس میں نہیں تھا تو اس میں میڈیا کو مورد الزام ٹھہرانے کاکوئی جواز نہیں بنتا۔
گفتگو کافی طول پکڑکر جب احتساب کی باتیں شروع ہوئیں توایک صاحب بولے کہ سابق دورحکومت میں ہونے والی کرپشن کے الزام میں نیب کی جانب سے صرف سرکاری افسران یا اہلکاروں کی گرفتاری ہی کافی نہیں بلکہ اس دور کے متعلقہ وزراء کو بھی احتساب کے کٹہرے میں لاکھڑا کرنا چاہیے۔ بات سوفیصد درست تھی تو ہم سب نے کھل کرتائد کردی۔ جس پر سابق رکن اسمبلی بولے کہ آپ لوگوں کی بات جائز ہے‘احتساب سب کا ہونا چاہیے۔ اگر بحیثیت سابق رکن اسمبلی مجھ پر بھی کوئی انگلی اٹھ جاتی ہے تو یہ میرا اخلاقی فرض بنتا ہے کہ میں خود کو احتساب کے لئے پیش کروں۔ پھرانھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی حکومت کے دور میں جب محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن میں کرپشن کی باتیں گردش کرنے لگیں تو متعلقہ وزیر محمد نصیر خان نے اس وقت کے چیف سکریٹری کو تحریری طورپر اگاہ کردیا کہ ان کے محکمے کے اندر کرپشن کی باتیں بازگشت کررہی ہیں‘ایسا نہ ہو کہ کل کو اگریہ باتیں درست ثابت ہوئیں تو نزلہ سارا ان پر گرادیا جائے‘اسی
لئے انہوں نے یہ مناسب سمجھا کہ قبل ازوقت حکام بالا کو اپنی صفائی پیش کردی جائے۔ خدا کا کرنا ایسا ہی ہوا‘ محکمہ ایکسائز میں کرپشن کی باتیں آہستہ آہستہ پھیلنی شروع ہوگئیں جس پر تحقیقاتی ادارے حرکت میں آگئے۔تحقیقات کرنے پر بڑے پیمانے پر کرپشن کے ثبوت مل گئے اور اس میں مبینہ طور پر ملوث افسران پکڑے گئے جبکہ متعلقہ وزیر پرکوئی آنچ نہ آئی۔
پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کرپشن کے الزامات صرف محکمہ ایکسائز پر ہی نہیں بلکہ بہت سے دیگر اداروں اور افسران پر بھی لگ چکے تھے‘جن میں محکمہ تعلیم کے اندر سرکاری ملازمتوں کی بندر بانٹ کی کہانیاں تو زبان زدعام ہوگئی تھیں‘ مگر کسی وزیر یا مشیر نے نصیرخان کی طرح قبل ازوقت اپنی صفائی پیش کرنے کا زحمت گوارا نہیں کیا ۔پھرپانی سر پر سے گزرجانے پر جب نیب حرکت میں آگئی تو رپوشی کے سوا کوئی آپشن نہیں بچا تھا۔ مقامی اخبارات کے تواسط سے معلوم ہورہا ہے کہ نیب نے پیپلزپارٹی دور کے سابق وزیر تعلیم علی مدد شیر کے خلاف محکمہ تعلیم کے اندر بڑے پیمانے پرکرپشن اور خاص طور پر رشوت کے عویض نوکریاں دینے کے حوالے سے بہت سی معلومات اور شواہد اکھٹے کئے ہیں‘جس کی بنیاد پر موصوف کے خلاف کارروائی کے لئے نیب کے ایگزیکٹیو بورڈ سے خصوصی اجازت بھی لے لی گئی ہے۔ اطلاع ملتے ہی سابق وزیر نے نیب حکام کے سامنے حاضرہوکر اپنی صفائی پیش کرنے کی بجائے موبائل فون بھی بندکرکے رپوش ہونے کو غنیمت جانی‘ لیکن کیا رپوشی اختیار کرنا احتسابی عمل سے بچ جانے کا حل ہے؟
حالانکہ پیپلزپارٹی کی سابق صوبائی حکومت کو عوام کے سامنے بڑی سبکی کا وجہ ہی محکمہ تعلیم میں ہونے والی کرپشن کی کہانیاں تھیں اور کرپشن کے خلاف مہم کا آغاز بھی سب سے پہلے پیپلز پارٹی ہی کے دور میں محکمہ تعلیم سے کیا گیا۔جس کے تحت محکمہ کے اندر تیرہ سو سے زائد اساتذہ کی خلاف ضابطہ بھرتیاں عمل میں لانے کے الزام میں تین اعلیٰ افسران پر سزائیں بھی عائد کی گئیں جو آج تک اپنے کئے کی سزا بھگت رہے ہیں‘ تواس وقت کے صوبائی وزیرتعلیم سے پوچھ گچھ کرنا آخر کونسی قباحت ہے؟ اگر اپنے اوپر کرپشن کے الزامات لگتے دیکھنا موصوف کی توہین ہے تو اسی وقت میڈیا میں آکر ان الزامات کا دفاع کیوں نہیں کیا جب وہ وزارت کی کرسی پر تھے؟
مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس وقت پیپلز پارٹی کی سابق صوبائی حکومت کے خلاف کرپشن کی باتیں گردش کررہی تھیں تو اس دوران خودسابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ یہ کہہ کر اپنی کچن کابینہ کے وزراء کی پشت پناہی کررہے تھے کہ جی پیپلزپارٹی تو غیریبوں کی جماعت ہے اسی لئے وہ لوگوں کو روزگار فراہم کررہے ہیں۔جبکہ سفارش کے حوالے سے تو ان یہ مشہور ڈائیلاگ تھا کہ ’’جناب سفارش تو آخرت میں بھی چلتی رہتی ہے‘‘۔بہرحال دیرآید درست آیدکے مصداق بلاخر سابق وزیر تعلیم بھی نیب کے شکنجے میں آگئے اور نیب حکام ان پر عائد الزامات کے حوالے سے ہرپہلو سے جائزہ لیں گے۔ مگر یہ دیکھنا باقی ہے کہ اس پوری کارروائی کے بعد ان کے ساتھ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کے دست راست سابق وفاقی وزیرپیٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین جیسا سلوک ہوگا یا کہ صرف سرسری پوچھ گچھ کے بعد پھر سے سیاسی میدان میں کودیں گے‘ اس کا پتہ توآنے والے وقتوں میں ہی چلے گا۔
نیب کا یہ اقدام دیگر سیاستدانوں خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ نواز کی موجودہ حکومت کے لئے ایک اہم سبق ہے۔وہ اس لئے کہ انہیں عوام نے آئندہ پانچ سال تک حکومت کرنے کا موقع دیا ہے اور عوام کی ان سے بڑی توقعات ہیں۔اگر وہ عوام کے ان توقعات پر اتر تے ہوئے سیاست کو عبادت سمجھ کراپنا عرصہ پورا کرلیتے ہیں تو آنے والے وقتوں میں وہ اس کا صلہ پائیں گے۔ نہیں اگر سابق حکمرانوں کی طرح اقتدار کے نشے میں مست ہوکرصرف مال بنانے میں محو رہے تو پھر انہیں بھی یہ دن دیکھنے پڑیں گے ۔کیونکہ محض سرکاری ملازمتیں فروخت کرنا یا ٹھیکہ داروں سے بارگینگ کرکے قومی خزانے کو نقصان پہنچانا ہی کرپشن نہیں بلکہ بغیر ٹینڈر کے ٹھیکے دینا،میرٹ کی دھجیاں اڑانا،سرکاری محکموں میں ہونے والی بھرتیوں میں دخل اندازی کرنا،آنکھیں بندکرکے کسی کی سفارش کرنا اور عوامی مسائل سے آنکھیں چرانابھی کرپشن کے زمرے میں آجاتا ہے۔ اسی لئے موجودہ صوبائی حکمرانون کو اس چیز کا خاص خیال رکھنے کی ضرورت ہے‘ تاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج پیپلزپارٹی کا ایک سابق شیرکے گرد گھیرا تنگ کیا گیا ہے تو کل کو مسلم لیگ نواز کے کسی شیر کی باری آجائے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button