کالمز

کیا مرنے کی خبریں اپنا اثر کھو چُکی ہیں؟

تحریر: نوید حسین درویش

’’پشاور کے آرمی پبلک سکول پر دہشتگردوں کا حملہ، 145 نہتّے معصوم بچے جان کی بازی ہار بیٹھے‘‘

’’ کراچی اسٹریٹ کرائم کی زد میں، 72 گھنٹوں میں 21 زندگیوں کے چراغ غُل ہو گئے‘‘

’’ یمن کی تازہ جھڑپوں میں حوثی باغیوں کے اہم کمانڈر سمیت 63 شہری ہلاک‘‘

نہار منہ کوئی اخبار بیچنے والا۔۔۔۔۔۔۔۔ہزاروں لاشیں میرے گھر میں پھینک جاتا ہے

اخبار اُٹھا کے دیکھا تو ہر صفحہ اندوہناک واقعات سے بھرپور، ٹیلی ویژن آن کرنے کے ساتھ ہی اتنی ڈھیروں ڈھیر خبریں وہ بھی صرف ایک منٹ کی ہیڈ لائنز کی شکل میں۔۔۔ خبریں تو ساری ایسی تھیں کہ جن پر یومِ سوگ کا اعلان کیا جاتا مگر افسوس! یومِ سوگ تو کُجا آج کا ہر انسان (ہاں یہ کسی آدمی کی نہیں انسان کی بات ہو رہی ہے) یہ محسوس کر کے حیران تو ہوتا ہوگاکہ آج سے ایک دہائی قبل کسی کے مرجانے یا مارے جانے پر اسے ذرا سی دیر کے لیے ہی سہی پر اک غم اور ہمدردی کا سایہ دل پر چھا جاتا تھا وہ اب ایک منٹ میں سینکڑوں جانوں کے ضیاع کی خبریں سن کر بھی ابرِ ہمدردی نہیں برسا رہا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دل ہمدردیاں بانٹتے بانٹتے تھک چُکا ہے یا پھر یہ اتنا خود غرض ہوگیاہے کہ اب اسے صرف اپنے درد کے کسی اور کا درد محسوس ہی نہیں ہوتا۔۔

یہ ایسے سوال ہیں کہ جن کے جواب کے لیے ماضی کے آئینے پر پڑی گرد کو صاف کر کے اس میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔9/11 کے بعد جہان امریکہ نے القاعدہ کو اس واقعے کا ذمّہ دار ٹھرایا تھا وہاں اندر ہی اندر وہ سارے مسلمانوں کو شریکِ جرم سمجھتا تھا۔ اس کے برعکس بہت سارے ایسے مسلمان نظروں سے گزرے کہ جنھوں نے اس واقعے پر اظہارِ ہمدردی و تعزیت کی،مگرجانے کیوں رہ رہ کے یہ بات ستاتی ہے کہ شاید امریکہ ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا یا یہ خودساختہ موقع تھا۔ امریکہ کا مُسلم اُمّہ کو 9/11 کی ذمّہ دار سمجھنے کی یہ بات تب یقین میں بدل گئی جب اس واقعے کے فورّا بعد امریکہ اور ریاست ہائے متّحدہ امریکہ میں بسنے والے مسلمانوں کے گرد امریکی انتہاپسندوں نے گھیرا تنگ کردیا اور حکومت ان تشدّد کے واقعات سے بے خبر نظر آئی۔ صرف یہی نہیں اس واقعے کے بعد امریکہ نے عراق پر چڑھائی کر دی اور ادھر پاکستان کو بھی اس دلدل میں گھسیٹتے ہوئے اسے طالبان کے خلاف جنگ کرنے پر آمادہ کر لیا۔جبکہ امریکہ اُدھر عراق میں بلاجواز مسلمانوں کو اپنی درندگی کا نشانہ بناتا رہا اور پوری دنیا سمیت مُسلم امّہ کو کبھی اس کے خلاف آواز بلند کرتے ہوئے نہیں دیکھا، مگر ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے کے مِصداق امریکہ کو عراق سے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ مگر اس گُمسان کی جنگ میں امریکہ نے BBC کے اعداد و شمار کے مطابق 461,000 عراقیوں کو ابدی نیند سُلادیا اور دوسرے طرف امریکہ کی مُسلّط کی ہوئی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان میں 2003 سے 2015 تک South Asia Terrorism Portal (SATP) کی رپورٹ کے مطابق 57364 لوگ بشمول دہشتگرد اور سکیورٹی اہلکار منو مٹّی تلے دفن ہو گئے۔۔

عراق، افغانستان اور پاکستان میں مارے جانے والوں کے غم میں دل نڈھال تھا ہی کہ شام میں فسادات پھوٹ پڑے، کوئی اسے بغاوت کہنے لگا تو کوئی دہشتگردی مگر کسی نے آج تک یہ نہیں سوچا کہ یہ جو کچھ بھی ہے مگر اس کی وجہ سے جنگلوں کی کٹائی کی طرح انسانوں کی نسل کشی ہو رہی ہے، اور سب سے پہلے اسے روکنے کے بارے میں سوچنا اہم ہے نہ کہ یہ طے کرنا کہ یہ دہشتگردی ہے یا بغاوت۔۔۔ پر اس طرف کوئی سوچتا بھی کیوں؟۔۔۔کیونکہ انسانی جسموں سے جُدا اعضاء، خُون،لاشیں،زخمی ، تباہی وغیرہ یہ سب دیکھ دیکھ کے ہم اتنے پتھر دل ہوگئے ہیں کہ اب دل و دماغ میں لفظِ ’’لاش‘‘ اردُو حرافِ تہجّی کے فقط تین حرُوف کے مجموعے کے علاوہ کوئی او ر معنی و احساس کا حامل نہیں رہا۔

اتنا سب کچھ دیکھنے ، سُننے، سہنے اور بُھول جانے کے بعد لگا کہ واقعی ’’مرنے کی خبریں اپنا اثرکھو چُکی ہیں‘‘ اور ہم اب کبھی کسی مردہ انسان کا سوگ منانے کے قابل نہیں رہے۔۔ اس بے رحمی کے احساس نے جہاں مجھے اپنے دل کا دشمن بنا دیا وہاں میں ساری دنیا جو کہ تماشائیوں کی طرح یہ سب دیکھ کر بھی چُپ تھی کو مُجرموں کی سی نگاہ سے دیکھنے لگا۔۔۔ صحیح صحیح یاد نہیں تو شاید بُھولا بھی نہیں کہ وہ دن 16 دسمبر کا تھا جب پشاور کے آرمی پبلک سکول میں انسانیت دشمنوں نے معصوم بچوں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ تعمیرِ وطن کا خواب دلوں میں لیے گھروں سے دور ذیورِ تعلیم سے آراستہ ہونے آئے تھے۔ صبح سویرے کی یہ کڑوی خبر مجھے ایسے چُبھی کہ دل خون کے آنسوں رونے لگا، معصوم کلیوں کی خاک و خُون میں لت پت لاشیں بھلا کون ہوگا جو اس درجے کے وحشیانہ عمل پر دل سوختہ نہ ہو۔ ہاں ! اگر میں غلط نہیں تو وہ غم تھا جس نے مجھے میرے دل سے دوستی کرنے پر مجبور کر دیا۔۔۔۔۔۔ روتے روتے میں نے دہشتگردوں کے لیے دردناک عذاب کی بددعا دی۔دل چاہا کہ میں ان معصوموں کے جنازے میں شریک ہوتا اور اُنہیں فاتحین کو پیش کیے جانے والا سلام پیش کر کے اُنھیں سپُرد خاک کرتا مگر یہ میرے لیے ممکن نہ تھا۔

میں نے محسوس کیا کہ میرے ارد گرد بسنے والے ہر انسان نے شاید اپنے دل سے دوستی کر لی ہے۔ہر طرف اشک بار آنکھیں ، ہمدردی، دلاسے، محبت اور اظہارِ یکجہتی نے مجھے یہ بات باور کرادی کہ اب شاید ہم میں خدا کی رحمانی صفت جاگ اُٹھی ہے، اب شاید ہم اک دوسرے کے غم پھر سے بانٹنے لگیں گے، اب شاید ہم تمام چیزوں سے بالاتر ہوکر صرف انسانیت اور دردِ دل کو فوقیت دیں گے۔۔۔ مگر افسوس! صد افسوس میرا یہ خیال تب صرف ایک خیال ثابت ہوا جب ایک جب کچھ ہی دنوں بعد راولپنڈی میں ایک خودکش حملہ آور نے پھر سے انسانی جسمو ں سے ان کے اعضاء جُدا کر دیے۔اس بار میں نے محسوس کیا کہ میرا اور میرے ساتھ میری خیال کی دنیا کا غم بہت کم تھا، حالانکہ معصوم بچے تو اس بار بھی درندگی کا نشانہ بنے تھے فرق صرف اتناتھا کہ اب کی بار ان کی تعداد کچھ کم تھی۔ تعداد اور خود پسندی کی بنیاد پر انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس اور گریہ کرنے کی جدید انسانی فطرت دنیااور خود انسانیت کے لیے کسی بڑے پچھتاوے کا سبب بننے سے پہلے آئیں ہم سب مل کر بحیثیت مسلمان اور بحیثیت انسان اس جارحیت و بربریت اور انسانیت کشی کے خلاف علم نفرت و بیذاری بلند کریں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سمیت ہمارا معاشرہ آنے والی ہماری نسلوں کے لیے زمانہ نمرود و شدّاد کا سا تاثُر چھوڑ جائے۔۔۔۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button